ایک بار پھر سیاسی جماعتیں اُس اٹھارویں آئینی ترمیم پہ نظرثانی کیلئے ریاست کو سہولت فراہم کرنے کیلئے پَر تول رہی ہیں‘جسے دس سال قبل پورے سیاسی شکوہ کے ساتھ منظور کرایا گیا اور اس کی تدوین میں پارلیمانی جماعتوں کے علاوہ مقتدرہ اور جوڈیشری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقینی بنائی گئی؛اگرچہ اٹھارویں ترمیم پہ کام کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مسٹر رضا ربانی فخریہ انداز میں صوبائی خود مختاری کی طرف منظم پیشقدمی قرار دیکر اسے مرکز گریز تحریکوں کی شدت کم کرنے کا مجرب نسخہ سمجھتے رہے‘ لیکن یہ تجربہ بُری طرح ناکام ہو گیا اور عملاً یہی آئینی ترمیم علیحدگی پسندی کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کے علاوہ خود ترمیم کی محرک پیپلزپارٹی کا پنجاب‘خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں صفایا کرنے کا سبب بنی۔ پیپلزپارٹی کو امید تھی کہ صوبوں کو وسیع تر خود مختاری کے علاوہ قدرتی ومعدنیاتی وسائل پہ تصرف کا پورا حق ملنے اور پشتون قوم پرست تنظیموں کی دلجوئی کیلئے این ڈبلیو ایف پی کا نام خیبر پختونخوا رکھ کے پٹھانوں کو نسلی شناخت دینے کے بدلے‘ پیپلزپارٹی کو پختون سماج میں بھر پور پذیرائی ملے گی ‘مگر افسوس کہ نتائج اس کے برعکس رونما ہوئے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ قبائلی پٹی سمیت خیبر پختونخوا کے پشتون علاقوں میں پیپلزپارٹی کبھی مقبول جماعت نہیں رہی ‘بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں دینی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کی جڑیں خاصی گہری ہیں؛ البتہ ہندکو‘سرائیکی اورچترالی سمیت دیگر زبانیں بولنے والی مرکز پسند آبادیوں میں پیپلزپارٹی کیلئے تھوڑی بہت حمایت موجود تھی‘ لیکن سابق صدر زرداری نے قوم پرستوں کی خوشنودی کیلئے جب این ڈبلیو ایف کوخیبر پختونخوا کا لبادہ پہنایا تو اس حساس سرحدی صوبہ کی غیر پشتونوں پہ مشتمل بہت بڑی آبادی پیپلز پارٹی سے ناراض ہو گئی۔ صوبہ کے نام کی تبدیلی کیخلاف ہزارہ ڈویژن میں تحریک بھڑک اٹھی‘ جسے طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کی خاطر اے این پی کی مخلوط حکومت نے پُرامن مظاہرین پہ فائرنگ کروا کے قریباً ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ بے گناہ شہریوں کی جان لے کر عصبیت کی ایسی مستقل لکیر کھینچ دی‘جو اس بدنصیب قوم کی مزید تقسیم کا ذریعہ بن گئی۔بدقسمتی سے یہی خونیں سانحہ آج تک اے این پی اور پی پی پی کا تعاقب کر رہا ہے؛چنانچہ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو صوبہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ مل سکی‘ بلکہ اسی پیش دستی کے مہلک اثرات پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کی مقبولیت کو گزند پہنچانے کا باعث بنے اور جنوبی پنجاب کے وہ مغموم لوگ ‘جو الگ صوبہ کے قیام کیلئے پیپلزپارٹی سے امید لگائے بیٹھے تھے‘مایوس ہو کر تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی صوبہ کے قیام کی اتنی مخالفت وسطی پنجاب والے نہیں کرتے‘جتنی سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتیں کر رہی ہیں۔تقدیرکی جبریت دیکھئے کہ صوبائی خود مختاری کا ناقوس بجانے کے باوجود بھی پیپلزپارٹی سندھی قوم پرستوں کے دل جیت سکی ‘نہ صوبہ میں انتظامی اصلاحات متعارف کروانے کے قابل ہوئی ‘کیونکہ قوم پرست جماعتیں دراصل سندھی عوام کی فلاح کی طلبگار نہیں‘ بلکہ فقط اپنے ایجنڈے کی نقیب ہیں‘ اس لیے پختونوں‘بلوچوں اور سندھیوں کو جتنی چاہیں خود مختاری یا مراعات دے دیں‘ وہ مطمئن نہیں ہوں گے‘ان مسائل سے بھی بڑھ کر اسی اٹھارویں ترمیم نے ملک کے پیچیدہ سیاسی امور اور غیر محدود معاشی وسائل پہ مرکز کی اتھارٹی کو محدودکر کے وفاق کیلئے کئی ناقابل ِبیان مسائل پیدا کر دئیے؛چنانچہ مرکزی اتھارٹی کو سندھ‘بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مرکزگریز عوامل سے نمٹنے اور تینوں صوبوں کے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر ایپکس کمیٹیوں کا سہارا لینا پڑا ‘جو بجائے خود وفاقی و صوبائی حکومتوں کیلئے الجھن بن گئی ہیں۔بہرحال! اس وقت کورونا وبا کے ہنگام کے پیچھے جاری سیاسی جوڑ توڑ میں سیاستدان اور مقتدرہ دونوں انہی خود پیدا کردہ مسائل سے نجات پانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اورامید ہے کہ بالآخر ان متضاد قوتوں کی جامع مشاورت کی کوکھ سے تقسیم اختیارات کا کوئی نیا عمرانی معاہدہ نمودار ہوگا۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کرپشن کے مقدمات سے نجات کی شرط پر اٹھارویں ترمیم میں چند مناسب اصلاحات پہ راضی ہو جائیں گی۔ راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ جس وقت پس چلمن حلقے لندن میں مذاکرات کے ذریعے سروسز ایکٹ میں ترمیم کیلئے قانون سازی کی خاطر پارلیمنٹ میں نواز لیگ کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف تھے‘اس وقت بھی دراصل بات چیت کا محور اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات پہ قابو پانا تھا۔ اس سے قبل بھی رائے عامہ کی نبض چیک کرنے کیلئے گاہے بگاہے اٹھارویں ترمیم کی بساط لپٹنے کی خبریں لیک ہوتی رہیں‘ جس پہ چاروں صوبوں کے عوام کی طرف سے کبھی کوئی ردعمل نہیں آیا‘ تاہم اس ترمیم کی بینی فشریز ملک گیر اور علاقائی قوم پرست جماعتوں کا لب و لہجہ کچھ ترش ضرور ہو جاتا تھا؛چنانچہ اب اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات کی بات کھول کے سامنے رکھ دی جائے گی‘ لہٰذاقوم پرست جماعتیں اصلاحات کو ایشو بنا کے اپنی دم توڑتی سیاست میں کچھ جان تو ڈال سکتی ہیں‘ لیکن پارلیمنٹ میں قانون سازی کے دوران ان کا کردار معدوم رہے گا۔میرے خیال میں اس ترمیم کی بساط لپٹنے کا ممکنہ طور پہ سب سے زیادہ فائدہ نواز لیگ اٹھائے گی‘ کیونکہ مبینہ طور پرنواز لیگ نے اس ایشو پہ بات چیت کی حامی بھر کے نوازشریف‘ مریم نواز اور خاقان عباسی سمیت اپنے تمام اسیروں کو چھڑا لیا اور اب پارلیمنٹ میں بل کی حمایت کر کے نوازشریف کی نااہلی ختم کرانے کے علاوہ مریم نواز کیلئے وزارت ِعظمی کے منصب تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار کی جائے گی۔پیپلزپارٹی کا مخمصہ بھی یہی ہے کہ وہ کرپشن کے سیاسی اور غیرسیاسی مقدمات سے گلو خلاصی کے علاوہ بلاول بھٹو کو وزارت ِعظمی کے منصب تک پہنچانے کی خاطر ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ان ساری لن ترانیوں سے قطع نظر ریاست کی اتھارٹی کو زیادہ مضبوط بنانے والے منصوبہ بندیوں اوراس آئینی ترامیم کی جدوجہد سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا‘ بلکہ جماعتی سیاست کے تمام فوائد ریاستی مقتدرہ یا پھر پارٹی کی مخصوص Hierarchy کے حصہ میں آتے ہیں۔افسوس کہ جماعتی سیاست نے عوام کومسحور کر کے ایک میکانکی اور قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بنا دیا؛ چنانچہ عام لوگوں نے بچوں جیسے بھروسہ کے ساتھ خود کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کے حوالے کر دیا‘وہ اپنی فلاح کیلئے جستجو کرنے‘ سوچنے‘بولنے؛حتیٰ کہ اپنے نفع ونقصان بارے خود فیصلہ لینے کے حق سے بھی رضاکارانہ طور پہ دستبرار ہو چکے ہیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ہی ان کی آئندہ نسلوں کے مستقبل بارے سوچیں گی ۔اس قدر مہیب ذہنی جمود دراصل پارٹی پالیٹکس کے مضمرات کا عکس ہے۔جب تک عوام پارٹی وابستگیوں کی قید سے جان نہیں چھڑا لیتے ‘اس وقت تک یہاں سماجی فلاح اور سیاسی ارتقا کے امکانات منجمد رہیں گے۔