گزشتہ دو برسوں کے دوران خیبر پختونخوا پولیس کے طرزِ عمل میں ایسی غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوئیں ‘جس نے پولیس فورس کو صوبہ کے سول انتظامی ڈھانچہ کی اجتماعی معاونت سے جدا اور رفتہ رفتہ عوامی حمایت سے محروم کر دیا۔اس کایا کلپ کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوں گی‘ لیکن دو بنیادی وجوہ ایسی ہیں‘ جن کا تدارک اب‘ خود پولیس کے سوا اور کسی کے بس میں نہیں رہا۔ پہلی یہ کہ گزشتہ بیس برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دوران پولیس فورس کی تربیت کے اصولوں کو بدلنے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے ذہنی رویّوں میں اس قدر گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں‘جس نے فورس کی مجموعی ساخت کو بدل ڈالا‘لہٰذاخیبر پختونخوا پولیس اب ‘کمیونٹی پولیس یا کرائم فائٹنگ فورس نہیں رہی ‘بلکہ اس کی کمانڈ اور سپاہیوں نے دفاعی اداروں جیسا طرزِ عمل اپنا کر معاشرے کی نازک انگلیوں کو کچل ڈالا ہے۔ (اس موضوع پہ کبھی تفصلاً لکھوں گا)۔ اس کیفیت ذہنی سے نکل کے معمول کے وظائف کی طرف واپس پلٹنے کے لیے پولیس کوخود کوشش کرنا پڑے گی۔کوئی اور ادارہ یا قانونی اتھارٹی اس نفسیاتی خلجان سے نجات پانے میں ان کی مدد نہیں کر سکے گا۔دوسری‘ پولیس ایکٹ 2017ء کی منظوری کے ذریعے ہماری سیاسی اشرافیہ نے نہایت انکساری کے ساتھ پولیس فورس کو جوابدہی کے قانونی نظام سے ماورا کرکے ایک طرف معاشرتی ڈھانچہ کے تہہ و بالا ہونے کی راہ ہموار کی تو دوسری جانب اسی لامحدود طاقت نے خود پولیس فورس کی بقاء کو بھی ناقابلِ ِیقین خطرات سے دوچار کر دیا‘ کیونکہ ہمیشہ زیادہ پاور ہی اداروں کی موت کا سبب بنی‘اس ایکٹ کو متوازن بنانے کی ذمہ داری بھی خود پولیس کی ہے۔
پولیس ایکٹ 2017ء کو منظور کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا سماج جہاں کے پی ایس پی افسران بھی قانونی اختیارات کے جائز استعمال پہ اکتفا نہیں کرتے ‘وہاں ایک عام رینکر تھانے دار اتنے غیرمعمولی اختیارات کو کیسے سنبھال پائے گا۔معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی فورس کی کمانڈ کے لیے صرف تعلیم اور ذہانت ہی کافی نہیں‘قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے اس مربوط زاویۂ نگاہ کی ضرورت پڑتی ہے ‘جو حیاتِ اجتماعی کی بوقلمونی کا کامل ادراک کر سکے۔ابن ِزیاد جیسے ذہین انسان نے جب کوفہ کی گورنری مانگی تو حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کے انکار کر دیا کہ اے ابن ِزیاد‘ کوفہ کے لوگ تیری ذہانت کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے‘اپنی حدود کے اندر رہ کے اختیارات کے جائز استعمال کا شعور ایسی اخلاقی قوت کا رہین ہوتا ہے‘ جو خود اپنے آپ پہ قابو پانے میں کام آتی ہے‘ورنہ یہ غیر محدود اختیارات دو دھاری تلوار کی مانند ایک طرف ہدف کو تو دوسری طرف خود صاحب ِاختیارکے وجود کوکاٹ کے رکھ دیتے ہیں۔اے کاش کہ پولیس کے اعلیٰ افسران انہی مہمل اختیارات کے عوض اس سویلین فورس کو جنگ دہشت گردی کی آگ میں نہ جھونکتے تو معاشرہ اور پولیس دونوں ناقابل ِبرداشت المیوں اور اس کربناک انجام سے بچ جاتے‘ جس کی طرف اب ‘وہ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ عوام کے اعتماد اور ریاستی ڈھانچہ کی مجموعی معاونت کے بغیر پولیس فورس ڈلیور نہیں کر سکتی‘ لیکن طاقت کے نشے میں سرشار پولیس افسران اب عدلیہ‘انتظامیہ اور مقننہ کی اجتماعی تلویث سے قائم اس ریاستی توازن سے جان چھڑانے میں سرگرداں ہیں‘ جو پولیس سمیت ہم سب کی بقاء کا ضامن ہے۔پولیس اب خود مدعی‘خود انتظامیہ اور خود ہی منصف بن کے تھانوں اور سڑکوں پہ انصاف دینا چاہتی ہے‘جسے یہ سماج برداشت نہیں کرپائے گا؛چنانچہ جنگ دہشت گردی کی حرکیات کے تحت بدلے ہوئے رویّوں کی حامل پولیس فورس جب غیر معمولی اختیارات سے لیس ہو کے اپنی طاقت کے جوہر دیکھانے لگی تو سوسائٹی تڑپ کے رہ گئی‘پولیس کے اسی طرزِ عمل نے ریاستی ڈھانچہ کی چولیں ہلا ڈالیں۔صرف ساہیوال کے سانحہ نے ابتداء ہی میں حکومت کی ساکھ پہ جو گھاؤ لگائے‘ وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔علیٰ ہذالقیاس‘پچھلے دو تین سال کے دوران ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختونخوا میں بالخصوص پولیس تشدد کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا‘ جس نے ہماری سماجی زندگی کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ خود پولیس فورس کے خلاف بھرپور عوامی مزاحمت کوکھڑا کرنے کے اسباب مہیا کئے۔اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا کی مانند پشاور میں عامر تہکالی کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ تشدد نے معاشرے کے تن بدن میں آگ لگا دی ‘جس سے پرانے زخم بھی تازہ ہو گئے۔سوشل میڈیا پہ پولیس مظالم کی تشہیرکا سیلاب امنڈ آیا اور اب‘ نفرت کی مہیب لہریں دیر تک فورس کا تعاقب کرتی رہیں گی۔ان ابلتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر تھوڑا سا پیچھے ہٹنے کی بجائے ایک بیکار سے جوابی بیانیہ کے ذریعے پولیس والے جدلیات کی دھار کو زیادہ تیز کرنے میں مشغول ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جلد یا بدیر پولیس اور معاشرہ باہم صف آراء ہو جائیں گے۔پولیس افسران تو طاقت کے سرُور میں حالات کی سنگینی کا احساس کھو بیٹھے‘ لیکن اس سول بیوروکریسی نے بھی ‘ جو ایسے حالات میں کشن کا کام کیا کرتی تھی‘ان جھمیلوں سے خود کو لاتعلق کر لیا‘جس کے بعد صوبائی حکومت محض بے بسی کی تصویر بن کے رہ گئی۔گویا ہماری سیاسی قیادت اور انتظامی ہیرارکی میں کسی بھی سطح پہ ان مسائل کو سلجھانے کی خواہش پائی نہیں جاتی۔مجموعی طور پہ ہماری سوسائٹی کبھی اتنی بانجھ تھی‘ نہ پولیس کی لیڈرشپ میں باصلاحیت افراد کی کوئی کمی تھی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک پورا انتظامی ڈھانچہ کم مائیگی سے دوچار کیسے ہو گیا؟ تقسیم اختیارات کی کشمکش میں مبتلا گروہوں کو اس سوال کے مضمرات پہ غور کرنے کی فرصت نہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک خیبر پختونخوا پولیس نہایت خوبصورت روایات کی امین اور عوام دوست فورس سمجھی جاتی تھی‘پنجاب‘سندھ اور بلوچستان سے آنے والے پولیس افسران بھی اس صوبہ کی سنہری روایات کے احترام میں سرنگوں کر لیا کرتے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پولیس کے جن بہترین رجال کار نے اپنا خون جگر دیکر پاکستانی معاشرے کے گلستان کوسنوارا‘انہیں یہ قوم کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔پولیس کے کئی باکردار افسران نہایت دلیری کے ساتھ افق کے اس پار چلے گئے۔اس صوبہ کے کم و بیش چودہ سو سے زیادہ پولیس شہدا کی قربانیوں کو فراموش کرنا سماج کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔پولیس شہدا کی عظمت کے سامنے آج بھی فرط جذبات سے ہمارے سر جھک جاتے ہیں۔یہاں پنجاب سے آنے والے ایک ذہین پولیس افسر نے بہترین خدمات انجام دیکر نام کمایا اور پھر اسی صوبہ کے آئی جی پی کی حیثیت میں ریٹائرڈ ہوئے۔ایم ایم اے کے دور میں ایک عظیم پولیس افسر نے جان ہتھیلی پہ رکھ کے نہایت جان فشانی سے سماج کی بنیادی آزادیوں کا دفاع کیا۔آج بھی ان کی یادیں ہمیں مضطرب کر دیتی ہیں۔اختیارت میں وسعت اور نیوسینس ویلیو رکھنے والوں کی لوگ بوقت ضرورت عزت کرتے ہیں‘ لیکن کچھ ڈلیور کر جانے والے افسران سماج کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
پولیس ایکٹ 2017 ء سے قبل بھی خیبر پختونخوا پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی۔اپریل 2017ء کے بلدیاتی انتخابات کے دوران جب صوبائی وزیر مال نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی پولنگ بوتھ سے ووٹوں سے بھرے بکس اٹھانے کی جسارت کی‘ تو اس وقت کے ایک نڈرڈی پی او نے مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا‘ لیکن اب مبینہ طور پہ اسی وفاقی وزیر کے ایما پر پولیس نے نجی ٹی وی چینل کے ایک کمزور سے رپورٹر کے خلاف تین ایم پی او کی کارروائی شروع کر کے اپنی ساکھ کو داغ دار بنا لیا۔ سوشل میڈیا پہ پولیس کو برا بھلا کہنا اخلاقی غلطی تو ہوسکتی ہے‘ لیکن قانوناً جرم نہیں ‘ لیکن پشاور کا ایک معصوم نوجوان جو زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کے پولیس کے خلاف کچھ بڑبڑانے کی جسارت کر بیٹھا تو اسے یوں بیدردی سے مارنا‘زیادتی کرنا اور پھر برہنہ کر کے اس کی ویڈیو وائرل کرنا‘ شرفِ آدمیت کی تذلیل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرہ میں آتا ہے‘جسے یہ سماج کبھی معاف نہیں کر پائے گا۔