"AAC" (space) message & send to 7575

نئے صوبوں کے مطالبات اور اقتدار کے تقاضے

مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں نئے صوبوں کے قیام کی گونج مدت سے سنائی دیتی آ رہی ہے لیکن ہماری قومی لیڈر شپ اور اجتماعی دانش اُن اہم انتظامی امورکو سلجھانے کی صلاحیت سے عاری نکلی‘ جن کی تدوین ریاستی ڈھانچہ کے ارتقا کے لئے ناگزیر تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی پنجاب‘ جو رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ہمارے پنجاب سے چھوٹا تھا، کو تین صوبوں میں تقسیم کر کے انتظامی طور پہ زیادہ منظم بنا لیا گیا لیکن سات دہائیوں سے ہمارے اربابِ بست و کشاد نئے انتظامی یونٹس بنانے کی جرأت نہیں کر سکے۔ بدقسمتی سے ایک تو ہمیں ایسی مقبول قومی لیڈر شپ میسر نہیں آئی جو اقتدار میں شریک تمام گروہوں کے لئے یکساں قابلِ اعتماد ہوتی دوسرے نچلی سطح پہ پختہ کار سیاسی کارکنوں کی کمی کی وجہ سے رائے عامہ کی سطح پہ بھی کوئی ایسی طاقتور لہر نہیں اٹھ سکی جسے مسائل کی تفہیم کا محرک بنایا جاتا۔ چنانچہ ریاست اور سماج‘ دونوں متضاد راہوں کی طرف محو سفر ہو کے ہر آن قومی ہم آہنگی کے تصور سے دور ہوتے گئے۔ ذہنی تقسیم کے اس ماحول میں مذہبی جماعتوں کی نظریاتی تحریکیں مملکت کی تنظیم کا کوئی متبادل فارمولا پیش کرنے کے بجائے عوامی جذبات میں مد وجز پیدا کرنے کی اُسی فرسودہ جدلیات میں الجھی رہیں جو صدیوں سے ریاستی مقاصد کا ٹول سمجھی جاتی ہیں۔ اسی بے سمت ہجوم کی غیر مربوط سرگرمیوں نے انگریز سے ورثہ میں ملنے والے ریاستی نظام سمیت ان قدیم سماجی اقدار کو بھی تہس نہس کرڈالا جو ہماری تہذیبی زندگی کو ریگولیٹ کرنے کا قدرتی وسیلہ تھیں۔اب سماج کو منظم کرنے والا سیاسی عمل بیکار اور ریاستی تمدن کی تدوین میں بروئے کار آنے والاسماجی شعور التباسات کی دھند میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اسی پیچیدہ اور ناقابلِ یقین صورتحال میں وہ عمرانی معاہدہ کم و بیش تحلیل ہو گیا ہے جو فرد اور ریاست کے حقوق و فرائض کی ضمانت دیتا تھا۔ چنانچہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ معاملے کو سنوارنے کے لئے ہم سب طاقت کے مراکز کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس حال تک پہنچانے کی ذمہ داری معاشرے کی رہنمائی کرنے والے اُن اہلِ دانش، سیاستدانوں اور صاحبان جبہ و دستار پہ عائد ہو گی‘ ستّر سالوں میں جو اپنے طبقاتی مفادات اور مسلکی تعصبات سے اوپر اٹھ کے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کر سکے۔ قومی لیڈر شپ عالمی تناظر میں مملکت کی بقا کے امکانات ڈھونڈنے کے بجائے کنویں کے مینڈک کی طرح مقامی تعصبات کی محوری گردشوںمیں الجھ کے رہ گئی ہے اور ہمارا سماج بھی بنی نوع انسان کے اس ہمہ گیر ارتقا کا جُز نہ بن سکا جس سے ہم آہنگ رہنے کی صورت میں ہی ہم اقوام عالم کے ہم قدم رہ سکتے تھے۔ 
اگر ہم روز مرہ زندگی کے معمولات کا مشاہدہ کریں تو ہمیں سرکاری اداروں کے اہلکار فرض کی ادائیگی کے بجائے اپنی مہارت کو معاشرے کا لہو چوسنے کے لئے استعمال کرتے نظر آئیں گے اورشہریوں کی اکثریت بھی قومی امانتوں کے تحفظ کی فکر کرنے کے بجائے قانونی نظام کو اپنے ادنیٰ مفادات کے لئے بروئے کار لانے میں سرگرداں دکھائی دے گی۔ ذہنی زوال کے اس ماحول میں قومی ایشوز پہ کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے بجائے باہمی بداعتمادی اور بے یقینی کی ایسی فضا پروان چڑھتی رہی جس نے تہذیب کے فعال دھارے کی رخ گردانی کر کے عام لوگوں کو نسلی، لسانی اور طبقاتی تعصبات کے دائروں میں منقسم رہنے پہ مجبور کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس افسردہ کن صورتحال میں سماجی نشو ونما اور توانا سیاسی قیادت کیسے پیدا ہو گی؟
افسوس کہ آزادی کی صبحِ نور دیکھنے کے باوجود ہمارے سماج کو پھر انہی مایوس وڈیروں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا جو صدیوں سے انسانیت کا استحصال کرتے آئے۔ سندھ میں جی ایم سید کی قیادت میں وڈیروں نے سندھی وطن پرستی کا پرچم اٹھا کے علیحدگی کا ناقوس بجایا(واضح رہے، جی ایم سید سندھیوں کی نہیں ہمیشہ سندھ کی بات کرتے تھے)خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خوانین اور قبائلی سرداروں نے بھی اپنی نوخیز نسلوں کو نسل پرستی کی تاریک راہوں کی طرف دھکیل دیا، سب سے بڑے صوبے پنجاب کی عظیم اکثریت نے چھوٹے صوبوں کے عوام کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر مصلحت کی بکل مار لی۔ مستزاد یہ کہ جب ہمارے انتظامی افسران اور سیاسی بزرجمہروں نے صوبائی سرحدوں پہ ناکے لگا کے چھوٹے صوبوں سے آنے والے شہریوں سے شناخت طلب کی تو اس عمل نے ذہنی تفریق کی خلیج کو مزید بڑھا دیا۔ خیبر پختونخوا اورسندھ و بلوچستان سے پنجاب میں داخل ہونے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ کسی دوسری مملکت میں داخل ہو رہے ہوں۔ ان ستّر سالوں میں ہماری ریاست دور افتادہ علاقوں کے عوام تک زندگی کی بنیادی سہولتیں پہنچا سکی نہ ہماری انتظامی اتھارٹی ان کے شہری حقوق کا تحفظ ممکن بنا سکی۔ جنوبی پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کی وسیع آبادیاں آج بھی طاقتور وڈیروں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ 
جس حکومت کواپنی جغرافیائی حدود پہ مناسب کنٹرول نہ ہو اور وہ اپنے شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ نہ دے سکے تو ایسی ریاست کے ساتھ شہریوں کی وفاداری کا رشتہ کمزرو ہو جاتا ہے چونکہ مملکت جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والے تمام شہریوں تک رسائی نہیں رکھتی، اس لئے عوام کی بڑی تعداد اُن وڈیروں، سرداروں اور خوانین کو اپنا حاکم ماننے پہ مجبور ہے، جن کی وفاداری اقتدار سے مشروط ہے۔ اسی مشکل سے نجات کے لئے پسے ہوئے طبقات نے ہمیشہ نئے انتظامی یونٹس کی تخلیق کے مطالبات اٹھائے لیکن ریاست نے مجبور لوگوں کے جائز مطالبات کو سرد مہری کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وڈیرہ شاہی سے نجات اور ریاست کی انتظامی گرفت کو مضبوط بنانے کے لئے نئے انتظامی یونٹس کا قیام ازبس ناگزیر ہے لیکن روزِ اول سے سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ پہ فائز فرسودہ جاگیرداروں اور طاقت کے مراکز پہ قابض بے رحم وڈیروں نے فیصلہ سازی کے عمل کو اپنے طبقاتی مفادات کے تابع رکھنے کی خاطر مملکت کو انتظامی طور پہ مضبوط بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی آرزوئوں کے محور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے راستے میں یہاں کے وہ روایتی پیر، وڈیرے اور سردار حائل ہیں جو انہی مظلوموں کے ووٹوں سے منتخب ہو کے ایوانِ اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی صورت میں وسیب کے طول و عرض پہ ریاستی رٹ مضبوط ہوئی تو باصلاحیت شہری ابھر کے آگے آ جائیں گے۔ پشتون اور بلوچ نسل پرست پنجاب کو بلیک میل کرنے کی خاطر جنوبی پنجاب صوبے کی زبانی حمایت تو کرتے ہیں لیکن عملاً وہ ڈیرہ اسماعیل خان اور جعفرآباد ڈویژن کو سرنڈر کرنے کے روادار نہیں۔ پیپلزپارٹی‘ جس نے اپنی سیاست میں ہمیشہ سندھ کارڈ کا استعمال کیا، کو بھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی صورت میں سندھ کی تقسیم دکھائی دیتی ہے، اس لئے وہ ووٹ بٹورنے کی خاطر طریقہ کار کے ہتھکنڈوں کے سوا کسی صورت بھی کھلے دل کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی حمایت نہیں کرتی۔ الغرض فیصلہ سازی کے عمل میں شریک تمام قوتیں نئے صوبوں کے قیام کی مخالف ہیں۔
بلاشبہ سیاست میں ہر تبدیلی طاقت کے ایما پہ آتی ہے‘ اس لئے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے حامی گروہ جب تک طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں پاتے اس وقت تک ان کا ہر مطالبہ صدائے بازگشت ثابت ہو گا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سترہویں صدی عیسوی میں احمد شاہ ابدالی نے جب اس خطہ کی عنان سنبھالی تو اس نے کابل، غزنی، پشاور، لاہور اور ملتان کے علاوہ ڈیرہ جات کو بھی صوبہ بنایا لیکن بعدازاں ان ڈیرہ جات کو صوبہ ملتان میں ضم کرنا پڑا کیونکہ ملتان کے بغیر اس خطہ کی فطری مرکزیت کا تصور ممکن نہیں تھا۔ مگر افسوس کہ چار سو سال کے تجربات کے بعد آج بھی ہمارے اربابِ حل و عقد جنوبی پنجاب صوبے کے حوالہ سے ملتان کی مرکزیت کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں