"AAC" (space) message & send to 7575

تہذیبوں کا عروج و زوال

پچھلے ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے ساٹھ کلو میٹر شمال کی جانب کوہ ِسرخ کے دامن میں آباد کوٹلہ لودھیاں گاؤں کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے ملحقہ اراضی میں موسمی شجری کاری کی کھدائی کے دوران بدھا کی مورتیاں اور زمانہ قبل مسیح کے سکوں سمیت پتھر سے بنی نادر اشیا برآمد ہوئیں‘جس کے بعد اس خطے نے ایک بار پھر ماہرینِ ارضیات کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اسی جگہ پہ کم و بیش ایک مربع کلو میٹر پہ محیط ستّر فٹ اونچے ٹیلے پہ کوٹلہ لودھیاں نامی جو گاؤں آباد ہے‘ماضی میں یہ ہندو شاہی کے مرکز بلوٹ کا مضافاتی ٹاؤن تھا۔آئینِ اکبری کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحلیم نے History of the Lodi Sultans of Delhi and Agra. میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ بلوٹ شریف کو لودھیوں کا اصل مقام بتایاہے۔ مشہور محقق میجر راورٹی نے بھی لکھا ہے کہ دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے اجداد ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کوٹلہ لودھیاں سے نکل کر ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ تک پہنچے(Notes on Afghanistan and Baluchistan by Major Henry George Raverty)۔ ڈاکٹرعبدالحلیم کے مطابق سلطان سبکتگین نے کوہ سلیمان کے دامن میں وسیع و عریض علاقے پر قائم ہندوشاہی کی تسخیر کے بعد یہاں لودھی اور سوری قبائل کو آباد کیا۔معروف محقق کالکارنجن قانون گو نے بھی اپنی کتابSher Shah and His Times میں لکھا ہے کہ فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کے آبا و اجداد ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے گومل کے کنارے آباد گاؤں ٹکواڑہ سے نقل مکانی کر جنوبی بھارت کے شہر نارنول اور بعدازاں جونپور میں آباد ہوئے۔
1970ء میں ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے بائیس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب 3300 قبل مسیح کا شہررحمان ڈھیری دریافت ہوا‘ جو اس وقت تک ہندوستان میں ماضی کی گم گشتہ تہذیبوں کا قدیم ترین مسکن سمجھا جاتا ہے۔اس شہر کے آثار ہڑپہ ‘موہنجو دڑو اور مہر گڑھ سے زیادہ قدیم ہیں اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر عبدالرحیم قریشی نے جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوؤں کے دیوتا رام چندر جی کی جنم بھومی ایودھیا نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ رحمان ڈھیری (رام ڈھیری) ہے۔حیرت انگیز طور پہ ہندوؤں کی کتاب بھگوت گیتا اور رامائن میں رام چندر جی کو بن مانس دینے کے لیے ککی اور بھرت نامی جن دو علاقوں کا تذکرہ ملتا ہے‘انہی ناموں سے موسوم دو قدیم گاؤں ملحقہ ضلع بنوں میں پائے جاتے ہیں۔ہندوستان کے مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت''تزک بابری‘‘میں ککی اور بھرت کو دشت لکھا ہے‘ جبکہ ابھی حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ساٹھ کلو میٹر مغرب کی جانب یارک کے علاقہ سے متصل گہری کھدائی سے برآمد ہونے والے آثار قدیمہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہی خطہ دراصل وادیٔ سندھ کی تہذیب کا اصل مرکز تھا۔
محکمہ آثار قدیمہ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مدفن جن تہذیبوں کے آثار ملے ہیں وہ تمام عالمی تجارتی گزرگاہوں اور دریائے گومل یا دریائے سندھ کے کناروں پہ آباد ہوئی تھیں۔کوہ سلیمان سے منسلک وسیع میدانی علاقے‘جنہیں ماضی میں مکل واد اور اب دامان کہتے ہیں‘میں بہنے والے پانچوں چھوٹے دریا اور ان کی بتیس رودیں دریائے سندھ میں گرتی تھیں۔یہ چھوٹے دریا جنہیں زام ٹانک‘ زام گومل‘زام شیخ حیدر‘زام درابن اور زام چودہوان کے نام سے پکارا جاتا ہے کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔دسویں صدی عیسوی میں بننے والہ قلعہ کافر کوٹ اور بارہویں صدی کے لعل ماہڑہ کے پرشکوہ مزارات کے آثار شمالاً جنوباً بہنے والے دریائے سندھ کے دائیں کنارے پہ ایستادہ ہیں‘ لیکن رحمان ڈھیری‘ یارک اور ٹکواڑہ غرباً شرقاً بہنے والے دریائے گومل کے بائیں کنارے پہ واقع ہیں۔دسویں یا گیارہویں صدی میں تعمیر ہونے والے قلعہ بلوٹ(جیسے مقامی لوگ کافرکوٹ کہتے ہیں) پندرہویں صدی میں یہاں آنے والے بلوچوں کا مسکن بنا‘پانی پت کی لڑائی سے قبل ظہیرالدین بابر نے بھیرہ کی ریاست کو فتح کرنے کے بعد جب قلعہ بلوٹ کی تسخیر ضروری سمجھی تو اُس وقت وہاں آخری بلوچ حکمران نصرت مقیم تھا‘انہیں گرفتار کر کے جب بابر کے سامنے پیش کیا گیا تو نصرت خان کے بڑھاپے کو دیکھ کر بابر نے انہیں معاف کر دیا۔
ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے چالیس کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف واقع چودہوان میں دفن قدیم شہر کے کھنڈرات سے عزیزانِ مصر کے زمانے کے سکے ملے ہیں۔یہاں کے زمیندار آج بھی اپنے مزارعین سے ششک نامی وہ ٹیکس لیتے ہیں جو فراعین مصر کبھی بنی اسرائیل سے وصول کیا کرتے تھے‘شاید اسی لئے ''تاریخِ فرشتہ‘‘ کے مصنف کا خیال ہے کہ یہاں کا بابڑ قبیلہ قبطیوں یا پھر اسرائیلیوں کی گم گشتہ شاخ ہو گی۔خود ڈاکٹر حسین بابڑ نے بھی اپنی کتاب''بابڑ قبیلہ کی تاریخ‘‘میں چودہوان کے بابڑوں کو سامی النسل لکھا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دریائے نیل کے کنارے ابھرنے والا قدیم مصری تمدن‘دجلہ و فرات کی سامری تہذیبیں اور چین کی نو ہزار سال پرانی سولائزیشن سے پہلے ہندوستان کی گداز مٹی میں انسانی تہذیب اپنے خدو خال سنوارچکی تھی۔زندگی اور اس کائنات کی حقیقت سے ناواقف ہونے کے باوجود انسانی زندگی کا کٹھن سفر‘جسے ہم تاریخ کے عروج زوال کی داستانوں میں دیکھتے ہیں‘ مصائب و آلام سے مزین ہونے کے الرغم نہایت گداز اور دلچسپ نظر آتا ہے۔اگر ہم ماضی پہ نظر ڈالیں تو دنیا کی کئی پُرشکوہ تہذیبیں اور درخشندہ روایات ہمیں جگمگاتی نظر آئیں گی۔ماضی کی مغموم نسلوں نے اپنی ذہنی آسودگی کے لیے پُرملال صنم کدے تعمیر کرائے اور دکھوں سے لبریز اس فانی زندگی کو دلچسپ بنانے کی خاطر کھیل‘تہوار اور عیش و عشرت کے اسباب تخلیق کئے۔عظیم مؤرخ ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ ماضی کے انسانوں نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا جس کی انہیں ضرورت تھی‘آئندہ آنے والی نسلوں نے اس میں صرف تزین و آرائش کا اضافہ کیا۔اس نے لکھا کہ جس دن آدمی نے بولنا سیکھا اسی دن تہذیب کی بنیاد پڑ گئی اور جس روز انسان نے آگ کو مسخر کیا اسی روز اس نے اپنے ماحول پہ تصرف پا لیا تھا۔
تہذیبوں کے ارتقا کا مطالعہ کرنے والے کہتے ہیں کہ تہذیب کی افزائش کے لیے کوئی نسلی شرط عائد نہیں‘یہ کسی براعظم‘کسی بھی رنگ و نسل اور پیکن‘دلی‘ممفس یا بابل‘روبنا‘لندن‘پیرو یا یُکتیا‘ کہیں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔کوئی برتر نسل تہذیب کو پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ عظیم تہذیبیں تھیں جنہوں نے بڑی قوموں کو جنم دیا۔جغرافیائی اور معاشی حالات کلچر کو بیدار کرتے ہیں‘پھر کلچر ایک نمونہ پیدا کرتا ہے‘انگریزوں نے انگریزی تہذیب کو نہیں بلکہ تہذیب نے انگریز قوم کو تخلیق کیا‘اس لئے وہ اسے ہمراہ لئے پھرتے ہیں اور مخصوص لباس پہن کے کھانا کھاتے ہیں۔جسمانی یا حیاتیاتی حالات تہذیب کی فقط پیشگی ضرورت ہیں ‘وہ انہیں متشکل نہیں کرتیں۔بھوک اور محبت چونکہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں‘اس لئے معاشی بہم رسانی اور حیاتیاتی بقا سماجی تنظیم کے بنیادی وظائف ٹھہرے‘یوں بچوں کی پیدائش اورغذا کی فراہمی جتنی اہمیت کی حامل قرار پائی‘خاندان کے اسی بنیادی ادارے کے ساتھ جو مادی بہبود اور سیاسی نظم و ضبط درکار تھا‘اسی میں معاشرہ نسلِ انسانی کے ادارے بھی شامل کرتا رہا۔ریاست کے قیام سے پہلے پنچایت گروہوں اور نسلوں کے درمیان تعلقات کو ریگولیٹ کرنے کا فرض نبھاتی تھی‘حتیٰ کہ آج جب ریاست معاشرتی نظم و نسق کا مؤثر وسیلہ بن گئی پھر بھی نسلِ انسانی کی لازمی حکومت سب سے اہم تاریخی ادارے‘ خاندان میں رہتی ہے ۔اہلِ دانش کہتے ہیں کہ خاندان ‘عبادت گاہ اورسکول کے ذریعے متحد کرنے والا ضابطۂ اخلاق اور ذہنی تبادلے کے لیے زبان کی وحدت کا ہونا لازمی ہے کیونکہ نیکی ہماری خواہشات میں نظم اور برادری ہماری ہمارے تعلقات میں نظم پیدا کرتی ہے۔بلاشبہ‘آج‘ اس عہد ِجدید میں ہمیں اس کائنات میں انسانی بالادستی کا جو ناقوس بجتا سنائی دیتا ہے‘اس کی اساس ہزاروں سال قبل‘ ماضی کے اُس انسان کی جدوجہد پہ رکھی ہوئی ہے جس نے جبلی طاقتوں کے ذریعے زندگی اور کائنات کی تفہیم کی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں