اگر ساٹھ اور ستّرکی دہائیوں کی جمہوری تحریکوں میں اٹھائے جانے والے مطالبات اوربنگالیوں کی نمائندگی کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی ریکارڈ شدہ ویڈیو تقریریں سنیں تو ان میں انہی مطالبات کی گونج سنائی دے گی جن کی تکرار آج ہمیں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں میں سنائی دیتی ہے۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بدقسمت قوم 60ء کی دہائی میں سیاست کی جن محوری گردشوں میں پھنسی تھی‘ تاحال اس سے نکل نہیں پائی اور مستقبل قریب میں بھی ان نحس گردشوں سے نجات کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ حیرت ہے ان تہتّر سالوں میں بھی ہماری سیاسی قیادت اور مقتدرہ تقسیم اختیارات کے کسی ایسے قابل عمل فارمولے پہ متفق نہیں ہو سکے جو ہمیں زندگی کے مفید ادراک سے ملا دیتا۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارے سماج کے اندر جمہوری تمدن کے قیام کی آرزو کا فقدان ہے، دوسرا سبب تزویراتی اہمیت کی حامل اس نوزائیدہ مملکت پہ عالمی طاقتوں کے تسلط کا وہ وبال ہے جس نے اس ابھرتی ہوئی ریاست میں آئینی نظام کی افزائش اورجمہوری عمل کے ارتقا کو روک کے ہمیں جمود پرور قوتوں کے سپرد کر دیا، شاید مغربی طاقتیں ہندوستان کو کمیونسٹ انقلاب کے اثرات سے بچانے کی خاطر برصغیر کی مغربی سرحدوں پہ ایک نظریاتی ریاست کا قیام یقینی بنانا چاہتی تھیں جس کی عنان ایسی استبدادی قوتوں کے ہاتھ میں ہو‘ جنہیں آسانی سے مینج کیاجا سکے، اگر یہ حقیقت ہے تو بلاشبہ وہ اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں کسی حد تک کامیاب رہیں۔
ابتدائی ایام میں وسیع عوامی حمایت سے محروم چند گنے چنے سیاستدانوں کے علاوہ سیاسی آزادیوں اور یکساں معاشی حقوق کی بات کرنے والے معدودے چند نظریاتی کارکن ابھرنے سے پہلے ہی تاریک راہوں میں مارے گئے، ان کی تمنائیں بھی انہی کے ساتھ ہی رزقِ خاک بن گئیں، جس طرح پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا سیاسی طور پر بے حس سماج ان سرفروشوں کی خونچکاں جدوجہد کی مقصدیت سے ناواقف تھا‘ اسی طرح آج کی ہوشیار نسلیں بھی ان کی قربانیوں کا ادراک نہیں رکھتیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
بدقسمتی سے سماج کو متحرک کرنے والی فعال سیاسی جماعتیں‘ جمعیت علمائے ہند، عطا اللہ شاہ بخاری کی تحریک احرار، علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک اور چھوٹی سوشلسٹ جماعتوں کی لیڈر شپ بٹوارے کے بعد حوصلہ ہار چکی تھی اور نئی مملکت میں ان کے لئے کام کرنے کی گنجائش کافی محدود تھی، البتہ تخلیق پاکستان کے بعد کمیو نزم کے خلاف نظریاتی مزاحمت کی شناخت رکھے والی جماعت اسلامی کو قومی سیاست میں اتنی گنجائش ضرور مل گئی کہ وہ تیزی سے فروغ پاتی سوشلسٹ سوچ کی راہ روک سکے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کی طاقتور نظریاتی لہروں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے علاوہ مزدوروں اور کسانوں سے جڑے طبقات میں بھی کمیونزم کو پائوں جمانے کی مہلت نہ دی لیکن ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس منظم جماعت کو بھی اقتدار کے مراکز کے قریب پھٹکنے کی اجازت نہ دی گئی؛ تاہم دنیا بھر میں کمیو نزم کی ناکامی کے ساتھ ہی تنوع سے تہی دست یہ جماعت بھی اپنی نظریاتی کشش کھو بیٹھی۔ جماعت‘ پختہ نظریات اور اپنی غیر لچکدار تنظیمی ساخت کی بدولت رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
تحریک پاکستان کی صف اول کی قیادت کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد بتدریج سیاسی عمل زوال پذیر ہوا تو آزای کی تحریک کے دوران ابھرنے والی صف دوم کی سیاسی لیڈرشپ بھی رفتہ رفتہ متروک ہوتی گئی۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی وفات اور پہلے وزیراعظم نوابزدہ لیاقت علی خان کی ناگہانی شہادت نے مسلم لیگ کا شیرازہ بکھیر دیا تھا لہٰذا مملکت میں آئینی ڈھانچے کی تشکیل اور قانونی نظام کی استواری جیسے لازمی تقاضوں کو پس پشت ڈال کے سیاستدان پچھلے دروازے سے حصولِ اقتدار کی کشمکش میں الجھے تو طاقت کے بل بوتے پر امورِ مملکت نمٹانے کی بدعت رواج پاتی گئی۔ مسلم لیگ کی باقیات میں شامل ابن الوقت نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں پر مشتمل لیڈر شپ کو عوام کے حق حکمرانی کے مطالبات زیب نہیں کرتے تھے‘ چنانچہ انہوں نے خود کو اقتدار سے وابستہ رکھنے کی خاطر طاقت کے مراکز کے ساتھ سودے بازیوں کا بازار گرم کر لیا، جوڑ توڑ کے ذریعے ہر روز پارٹیاں بننے اور ٹوٹنے لگیں، دھڑے بندیوں کی ناگوار تشکیل نے سیاسی عمل کو ہمہ وقت وقفِ اضطراب رکھا، رات کی تاریکیوں میں حکومتیں تبدیل ہونے کے چلن نے قومی لیڈرشپ کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کیونکہ اس نامطلوب کھیل کا سارا وبال سیاستدانوں کے سر ڈالا جاتا رہا، نظر نہ آنے والی محلاتی سازشوں کے ذریعے کی جانے والی جوڑ توڑ کو سیاست کا نام دے کر سیاسی کلچر اور قیادت کو خوب بدنام کیا گیا، حتیٰ کہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم جواہرلعل نہرو کو یہ پھبتی کسنے کا موقع ملا کہ''ہم اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتے جتنی جلد پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں‘‘۔ اس کارِ خیر میں اس وقت کے پرنٹ میڈیا کا کردار نہایت منفی تھا، ملک کے بڑے اخبارات اور لکھاریوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی خاطر سیاسی عمل کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ طوائف الملوکی کے اس عہد میں سیاسی نظام پہ گرفت مضبوط بنا لی گئی جس کے بعد ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جمہوری حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو سماج میں اجنبی اور غیر ملکی ایجنٹ بنا کے ٹھکانے لگانے کا چلن عام ہو گیا۔
اجتماعی دانش اور مجموعی قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے طاقت کے ذریعے قومی امور نمٹانے کی یہی روایت ملک کے دولخت ہونے تک برقرار رہی۔ بنگال کی علیحدگی کی تحریکوں کے مقابل ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کو فروغ دینے سے ان امراض کا مدوا تو نہ ہوسکا جس نے لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی مملکت کواپنی گرفت میں لے لیا تھا؛ تاہم پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت نے باقی ماندہ قوم کو شکست کے گہرے صدمات سے باہر نکالنے میں ضرور مدد دی۔ مسٹر بھٹو نے اپنی فعالیت سے نہ صرف شکست خوردہ قوم میں نئی روح پھونک دی بلکہ ایٹمی طاقت کے حصول کی بنیاد رکھ کے اجڑے ہوئے اداروں کو نئے ولولے بھی عطا کیے۔ افسوس کہ ذوالفقارعلی بھٹو بھی اپنی افتادِ طبع کے وبال اور عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار بن کے انتہائی دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ زیڈ اے بھٹو کے بعد ضیاء الحق کی آمریت نے یہاں ایک نئے سیاسی تمدن کی بنیاد رکھی، جس میں علاقائی و لسانی تعصبات اور متنوع انتہا پسندی کو ایسا فروغ ملا جس میں جمہوریت کا متلاشی معاشرہ اپنی رہی سہی بنیادی آزادیاں بھی گنوا بیٹھا، نفرتوں کی خون آشام لہروں نے قومی تقسیم بڑھا دی۔ چنانچہ آج ہماری سوچ متحارب گروہوں، مرکز گریز نسلی تنظیموں اورکارزارِ سیاست میں سرگرم بپھری ہوئی سیاسی جماعتوں میں منقسم ہے۔ اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور عالمی نظام میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ماحول میں ہماری اجتماعی قومی دانش کوئی نیا شعوری موڑ مڑنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ قومی زندگی کے اس نازک مرحلے پہ سیاسی لیڈر شپ اور عسکری قیادت اگر سر جوڑ کر بیٹھ گئی تو ہم مستقبل کے دبستانوں میں اپنے لئے مناسب گنجائش پا لیں گے بصورت دیگر قومی سلامتی، تہذیب و ثقافت، مذہبی اقدار اور معاشی مفادات بے یقینی کی تاریکیوں میں ڈوب جائیں گے۔