پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک اُس فیصلہ کن مرحلے تک آن پہنچی ہے جہاں انہیں اب حکومتی دباؤ کا اثر محسوس ہونے لگا ہے۔ نواز لیگ تو پہلے ہی سے دباؤ کے مراحل عبور کر رہی تھی لیکن پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو بھی اب اِس کشمکش کے مہلک اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے ڈھائی سالوں میں خوف و ترغیب کا ہر ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود حکومت نوازلیگ کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو توڑ سکی بلکہ اس کٹھالی میں لیگی قیادت، خاص طور پر مریم نوازکی قوتِ مدافعت مزید بڑھتی گئی؛ تاہم اب تک کی سیاسی کشمکش میں پیپلزپارٹی کی مزاحمت محض علامتی ہے۔ آصف علی زرداری نے تیسری بار سندھ جیسے بڑے صوبے میں حکومت حاصل کرنے، سینیٹ کی وائس چیئرمین شپ اور قومی اسمبلی میں ساٹھ کے لگ بھگ نشستیں حاصل کر نے کے بعد طاقت کے مراکز کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کر کے اقتدار کی سیاست میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی۔ ان حالات میں شاید انہیں اس سے زیادہ چاہیے بھی نہیں کیونکہ بلاول بھٹوزرداری نوآموز سیاسی کھلاڑی ہیں۔ 2023ء کے انتخابات تک وہ وزارتِ عظمیٰ کے لئے درکار 35 سال کی عمر تک پہنچ جائیں گے، اس لئے پیپلزپارٹی کی قیادت کو نئے انتخابات کی جلدی ہے نہ وہ اُس سسٹم کو گرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو 2018ء کے سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی بینی فشری پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے اقتدار میں پورا حصہ وصول کرنے کے باوجود اپوزیشن کی صف میں شامل ہو کے اپنی ساکھ بھی بچا لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف زرداری نے نہایت جانفشانی سے ستم رسیدہ جماعتوں کو انگیج کر کے پی ٹی آئی حکومت کی سہولت کاری کا فرض نبھایا۔ ابتدا میں انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار لانے کی حکمت عملی کو نقصان پہنچا کر عمران خان کی راہ کے کانٹے چنے، اس کے بعد صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانے کے بجائے بیرسٹر اعتزاز احسن کو پیپلزپارٹی کا امیدوار بنا کے مولانا فضل الرحمن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور پھر سینیٹ کی چیئرمین شپ کیلئے رضا ربانی جیسے آزمودہ رہنما کی قربانی دے کر مقتدرہ کے امیدوار صادق سنجرانی کومنتخب کرانے میں بھی حجاب محسوس نہ کیا۔ یہ پیپلزپارٹی ہی ہی تھی جس نے پہلے لانگ مارچ کے دوران مولانا فضل الرحمن کوتنہا کرنے میں بنیادی کردار نبھانے کے علاوہ اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی لاحاصل مہم میں دھکیل کر اپوزیشن کے حوصلے توڑنے کی سکیم پہ عملدرآمد یقینی بنایا۔ بلاشبہ اس پورے عرصہ میں پیپلزپارٹی نے کمال مہارت سے اپوزیشن جماعتوں کو مصروف رکھ کے حکومتی مشکلات کو کم کرنے میں معاونت فراہم کی اور یہ بھی آصف علی زرداری کے اِسی ماہرانہ کردارکا اعجاز تھا جس نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف تحریک انصاف اور اس کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جارحانہ بیان بازی پہ مبنی مہم کو کند بنا دیا۔ علیٰ ہذاالقیاس۔
پی ڈی ایم کی تخلیق سے قبل ہی اداروں تک یہ خبریں پہنچ چکی تھیں کہ نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے مابین علاقائی جماعتوں کو ساتھ لے کر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے پہ اتفاق ہو چکا ہے؛ چنانچہ اپوزیشن کو انگیج کرنے کی خاطر ایک بار پھر پیپلزپارٹی نے آگے بڑھ کے کل جماعتی کانفرنس کا سوانگ رچا کے آغازِ کار(Intiative) اپنے ہاتھ لینے کی کوشش کی لیکن نوازشریف نے اپنے جارحانہ بیانیے کے ذریعے اے پی سی کی بساط الٹ کے پیپلزپارٹی کو ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا جہاں اب ان کے پاس صرف دو آپشن باقی رہ گئے، وہ تاریخ کے ہاتھوں دفن ہو جائیں یا مقتدرہ کے دست ِقضا سے پامال ہو جائیں۔ امید تو یہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے حالات کی سرکش گردشوں سے ٹکرانے کو ترجیح دے گی لیکن اقتدار کی سیاست کے خُوگر عزیمت کی راہ کم ہی اپناتے ہیں اور اصولوں کے برعکس زندگی کی رعنائیوں سے محبت کرنے والے لوگ ہمیشہ رخصت کے راستے تراش لیتے ہیں؛ چنانچہ آج جب پی ڈی ایم کی تحریک فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے‘ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کو گھیر کے اسی میدان میں واپس لانے کی تجاویز سامنے رکھ دیں جہاں وہ پہلے بھی کئی بار شکست کھا چکی ہیں۔ اتنی جاں گسل جدوجہد کے بعد بھی اگر اپوزیشن نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں طبع آزمائی ہی کرنا تھی تو پھر جیلیں، مقدمات اور طویل ذہنی اذیت برداشت کر نے کی ضرورت کیا تھی؟ دوسرا، اگر انتخابی عمل کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو منزل مقصود تک پہنچنے کی راہ ہی دینا تھی تو پھر 2018ء کے الیکشن میں انہیں چاروں شانے چت کرنے کا مقصد کیا تھا؟ بلاشبہ یہ بیکار اور ناقابل عمل تجاویز ہیں جو وقت اور حالات کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتیں۔ اب شاید وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اپوزیشن یا پھر حکومت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ سابق صدر زرداری کیلئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کی صورت میں انہیں سندھ حکومت سمیت میسر تمام سہولتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے مگر طاقت کے مراکز کے ساتھ وابستہ رہنے کی صورت میں بھی انہیں تاریخ کے منفی صفحات میں جگہ برداشت کرنا ہو گی۔ اس وقت آزمائش کی جن گردشوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو آن گھیرا ہے‘ اس کا پہلے اندازہ نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو دونوں صورتوں میں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں حکومت کے اندازے درست ثابت نہیں ہوئے، عام خیال یہی تھا کہ عملیت پسند سیاستدان ہونے کے ناتے مولانا فضل الرحمن کسی ایسی بند گلی کی راہ اختیار نہیں کریں گے جس کا تہیہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کئے بیٹھے ہیں۔ امید تھی کہ پہلے کی طرح مولانا فضل الرحمن اب بھی کسی وعدۂ فردا پہ اپنے عزائم کو التوا میں رکھنے پہ تیار ہو جائیں گے لیکن توقعات کے برعکس مولانا فضل الرحمن نے کسی قسم کا سیاسی سمجھوتہ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے لہٰذا انہیں مفاہمت پر قائل کرنے کیلئے پہلے نوٹس اور سوالناموں سے ڈرانے کی کوشش کی گئی، پھر جے یو آئی کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد سے میاں نوازشریف کے خلاف بیان بازی کرا کے اپوزیشن جماعتوں میں دراڑ ڈالنے کی مشق ستم کیش کو آزمایا گیا اس میں بھی کامیابی نہ مل سکے تومولانا شیرانی جیسے کہنہ مشق سیاستدان کو مولانا فضل الرحمن کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حیرت انگیز طور پہ شیرانی صاحب مولانا کی سیاسی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے پہلے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت میں رطب اللسان ہوئے جسے جمعیت کے کارکن اپنا ازلی حریف سمجھتے ہیں اور پھر جوشِ خطابت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کر کے پوری قوم کی دل آزاری سے بھی گریز نہ کیا۔
لاریب شیرانی صاحب پختہ کار سیاستدان ہونے کے ناتے اپنے عہد کا تقاضوں کو پورا ادراک رکھتے ہیں ۔انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ اقتدار کی سیاست میں جگہ بنانے کے لئے خود کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول بنانا پڑتا ہے؛ چنانچہ چند سال قبل جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو انہوں نے نظریاتی کونسل کے اجلاس میں ایک اقلیتی گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے کی گئی آئینی ترمیم پہ نظرثانی کی تجویز پیش کر دی جس پہ مولانا طاہر اشرفی کے ساتھ ان کا مناقشہ بھی ہوا ۔ اُس وقت مولانا فضل الرحمن نے ہی انہیں ریسکیو کیا تھا۔ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کر کے بھی انہوں نے عالمی طاقت کے مراکز کو مثبت پیغام دیا ہے لیکن افسوس کہ یہ ان کے لئے مفید ثابت نہیں ہو گا، اس بے وقت اور بیکار بغاوت نے انہیں حالات کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کشیدہ ماحول میں انہیں اپنی وسعت قلبی کا کوئی صلہ نہیں ملنے والا۔ آج سے دس بارہ سال قبل‘ جب حافظ حسین احمد نے جے یو آئی کی مرکزی امارت کے لئے مولانا فضل الرحمن کے مقابلہ میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے تو انہیں پیچھے دھکیلنے میں مولانا گل نصیب اور محمد خان شیرانی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا لیکن آج تقدیر نے گل نصیب اور شیرانی کو حافظ حسین احمد کے پہلو میں لا کھڑا کیا ہے۔ سیزر نے کہا تھا ''انسان مختلف طریقے اپنانے کی باوجود ہمیشہ ایک جیسے انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔