"AAC" (space) message & send to 7575

گم گشتہ

جدید غزل کے منفرد شاعر شہاب صفدر کے پانچویں شعری مجموعہ گم گشتہ کا تازہ نسخہ میرے سامنے ہے، جس کے بے کیف صفحات میں مجھے خطے کی اُس اجڑی ہوئی تہذیب کا نوحہ سنائی دیا، جسے ایک پُرامن سماج نے تین سو سال تک اپنی آغوشِ محبت میں پال پوس کے جوان کیا تھا۔ حسنِ اتفاق سے شہاب صفدر کے شاعرانہ ارتقا کا سفر طویل عرصہ تک میری پیشہ ورانہ زندگی سے ہم قدم رہا، ہم دونوں اِس پیش پا افتادہ شہر کے گھٹن زدہ ماحول میں اُن افسردہ کن مشاعروں میں اکٹھے شریک ہوتے رہے جو نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے جرس کارواں کی ڈوبتی ہوئی آواز سے مشابہت رکھتے تھے، یعنی نوے کی دہائی میں شہاب صفدر جب اپنی ادیبانہ زندگی کی ابتدا کر رہے تھے تو اس شہر کی ادبی حیات اپنی آخری ہچکی لینے والی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرقہ وارانہ تشدد اور عالمی دہشت گردی کی خونخوار لہریں تہذیب و ثقافت کی نازک انگلیوں کوکچل رہی تھیں اور قبائلی علاقہ جات کا گیٹ وے ہونے کے ناتے ڈیرہ اسماعیل خان کی متنوع تہذیب اِس جارحیت کا خاص ہدف تھی۔ زندگی کے شعور سے لبریز یہ سرائیکی خطہ ماضی میں بین الاقوامی تجارتی مرکز رہنے کے علاوہ دنیا کے کئی عظیم فاتحین کی گزرگاہ رہا۔ سلطان محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پہ آخری حملہ کرتے وقت اِسی راستے کا انتخاب کیا، اس کی فوجیں دریائے سندھ کا پانی اترنے کے انتظار میں ڈیڑھ ماہ تک ببرکچہ کے پتن پہ بیٹھی رہیں۔ پندرہویں صدی میں بلوچوں کی آمد اور اٹھارہویں صدی میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کے باوجود شہر کا سماجی دھارا بدستور ہموار رہا، حتیٰ کہ سکھوں کی بے رحمانہ یلغار نے بھی یہاں کے پُرکیف تمدن پرکوئی خاص منفی اثرات مرتب نہ کئے؛ البتہ تقسیم ہند کے وقت یہاں بھڑکنے والے ہندو مسلم فسادات نے دریائے سندھ کے کنارے پنپنے والی تہذیب کی روح کو ضرور گھائل کیا مگر وقت کے مرہم نے ان زخموں کو جلد مندمل کر دیا؛ تاہم 1986ء سے شروع ہونے والی وہ فرقہ وارانہ کشیدگی‘ جو 1995ء تک دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک سے منسلک ہو کے زیادہ مہلک ہو چکی تھی‘ نے اس خطے کی ادبی فضا اور تہذیب و ثقافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان پچیس سالوں کے دوران شادی بیاہ کی رسومات، تدفین کی مناجات اور سیاسی تقریبات پہ ہونے والے خودکش حملوں نے سماجی وظائف کی ہیئت بدل ڈالی، خوف سے مزین حالات میں جو ہزاروں لوگ یہاں سے نقل مکانی پہ مجبور ہوئے‘ اُن میں فنکاروں کے علاوہ شاعروں اور ادیبوں کی قابلِ لحاظ تعداد بھی شامل تھی، وہ شاعر‘ جو کسی بھی معاشرے کی روح کے ترجمان اور شعوری زندگی کا عکس ہوتے ہیں۔ ان کرب انگیز مظاہر نے جن حساس لوگوں کے دل و دماغ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا‘ ان میں نمایاں ترین نام پروفیسر شہاب صفدر کا تھا جنہوں نے اپنے اشعار میں اس شہر کی دلآویز زندگی کو کچھ یوں بیان کیا:
رونق تھی فنکاروں سے اس خان اسماعیل کے ڈیرے میں
کیا کیا پھول مہکتے تھے اس رنگ برنگے سہرے میں
شہر تھا خوشبو کا گہوارا موج اڑاتی گلیاں تھیں
رنگ چھڑکتے دروازے تھے مد چھلکاتی گلیاں تھی
ٹھنڈک دیتے آنکھوں کو نظارے سندھ کنارے
شام ڈھلے جب منڈل مارتے تارے سندھ کنارے
اُس وقت بھی شہاب اردو زبان کے ایسے ابھرتے ہوئے شاعر تھے جس کی پذیرائی فنون جیسے قومی سطح کے وقیع ادبی مجّلہ اور افتخار عارف جیسے نامور شعرا نے کی تھی۔ بہرحال، ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے خوف سے لبریز اس ماحول میں رونما ہونے والے انگنت المیوں نے جواں سال شہاب صفدر کی نفسیات پہ ایسے مہیب اثرات مرتب کئے جو ان کی شاعری میں جمالیات کے بجائے انسانی دکھوں کا اظہار اور تہذیب کا ماتم بن کے ابھرے۔
مجھے تو خون پسینے پہ بات کرنی ہے
کباب و جام نہ شعر و شباب چاہتا ہوں
نہ ظالمان ہوں آئندہ نسل کے درپے
میرے خدا یہیں روزِ حساب چاہتا ہوں
محبتوں کے صحیفوں سے بھائی چارہ بڑھے
عناد کش کوئی ایسا نصاب چاہتا ہوں
یہ غزل اُن التجاؤں سے معمور دکھائی دیتی ہے جن کا محور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے پُرامن ماحول کی تمناؤں پہ محمول تھا۔ علی ہٰذا القیاس!
شہاب صفدر کے نظامِ فکر میں خوف سے آزاد اُس پُرامن تہذیب و تمدن کے احیا کو اولیت ملی جو صدیوں تک یہاں کے باسیوں کی مستقل شناخت سمجھی جاتی تھی، بلاشبہ کبھی امن ہی اس شہر کی قدرتی پہچان تھا، اس لئے ان کے اشعار میں ہمیں صدیوں پہلے اس دشتِ بے اماں میں نمو پانے والی گداز ثقافت کی نشاۃ ثانیہ کی آرزوئیں مچلتی دکھائی دیتی ہیں۔
کہیں نہ شام کے سایوں کے ساتھ خوف اترے
حسین آنکھوں میں رنگین خواب چاہتا ہوں
شہابؔ آیا تھا جس دشت میں جو صدیوں قبل
پھر اس نگر میں وہی انقلاب چاہتا ہوں
ڈاکٹر نجیبہ عارف انہیں کلاسیکی مزاج اور اقدار کا شاعر سمجھتی ہیں اور ڈاکٹر شاہین مفتی کے مطابق شہاب صفدر اس آفاقی سچائی کو دہراتے نظر آتے ہیں جو ظالم و مظلوم کی ازلی آویزش پہ محیط تھی؛ تاہم میرے خیال میں وہ انحراف اور ایسی برگشتگی کے نقیب شاعر ہیں جو کبھی وقت اور حالات سے ہم آہنگ ہوئی نہ مستقل مزاحمتی روش اپنا سکی، بلکہ ان کا ناصحانہ انداز ایسی لذتِ خیال سے مزّین ہوا، جو مزاحمت کے نشتر کو کند کرکے اسے بغاوت کے رجحانات سے دور کرتا گیا۔
اب ندامت نے وہ گھیرا ہے کہ اک لمحہ کو
بے حسی جشنِ غمِ ذات منانے کو نہیں
جل رہا ہوں مگر الفاظ میں ڈھلتی نہیں آگ
روح جلنے کی نہیں نظم جلانے کی نہیں
قمر رضا شہزاد نے ''گم گشتہ‘‘ کے سرورق پہ جو حاشیہ لکھا وہ حقیقت سے زیادہ قریب لگا، لکھتے ہیں ''جب کوئی عمدہ ذہن اور باصلاحیت شاعر، شاعری کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے یا جس طرح محسوس کرتا ہے، وہ تمام کیفیات اس کی شاعری میں ظہور کرتی ہیں، معصوم بچے کی طرح اس کی شاعری بھی اپنے سچ کے ساتھ جلوہ گر رہتی ہے‘‘۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہر شاعر اپنے ماحول اور وراثت میں ملنے والی اقدار کا امین ہوتا ہے لیکن وہ مورخ کی طرح حالات و واقعات کی ویسی تدوین نہیں کرتا جیسے وہ نظر آتے ہیں بلکہ وہ معاشرے کو یہ بھی بتاتا ہے کہ فرد اور سماج کو کیسا ہونا چاہیے۔
شعورِ بے خبری اوجِ آگہی تو نہیں
نہ سمجھے جانے کا شکوہ ہے‘ خامشی تو نہیں
تجھے تو اور کسی منطقے میں رہنا ہے
تیرا مقام یہ ایواِنِ دلکشی تو نہیں
پہلے شعر میں شہاب صفدر نے سقراط کے اِس قول (میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا) کے مبہم تلمیحی انداز میں استعمال سے یہ بتانے کی جسارت کی کہ اپنی بے خبری کا شعور بھی آگاہی کا کوئی اعلیٰ مقام نہیں بلکہ یہ بھی محض نہ سمجھنے کا شکوہ ہے، وہ خاموشی نہیں جو گہرائی تک دیکھنے کے باوجود تعلّی سے گریزاں رہتی ہے۔
رنگ اتنے ہیں تیرے جامۂ عریانی میں
نہیں ممکن تجھے بے پردہ دکھا دے کوئی
غلام حسین ساجد نے''برگشتہ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ''یہ طے ہے کہ روایت سے انحراف روایت کو سمجھے بغیر ممکن نہیں، یگانہ کی غیر عشقی شاعری سے اختر احسن کی زین ازم سے بندھی اور علی اکبر عباس کی پنجابی تہذیب سے جڑی غزلوں تک موزوں کی بے مثل رنگا رنگی ہے، جو اِس دو مصری اور بظاہر دولخت صنف سخن میں بہار دکھا رہی ہے‘‘بلاشبہ شہاب صفدر کی مربوط زاویہ نگاہ پہ محمول گداز شاعری ایسے خیالات پہ مشتمل ہے جو ذہنوں کو منور کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں