خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان بالآخر پولیس افسران کے لامحدود اختیارات اورمن مانے فیصلوں کے خلاف بول اٹھے ہیں۔چند روز قبل انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو بتایا کہ آئی جی پولیس ماتحت افسران کے تقرری و تبادلوں میں گورنمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیتے، قابل ترین افسران کو صوبہ بدر کرتے وقت وزیراعلیٰ سے مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ محمود خان نے پولیس کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پولیس ایکٹ 2017 ء میں ترمیم کی خواہش ظاہر کی لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وزیراعظم نے ایکٹ میں تبدیلی کی تجویز سے اتفاق کیا یا نہیں؛ تاہم دونوں رہنمائوں میں آئی جی پی کے تبادلے پہ اتفاقِ رائے پایا گیا۔
بالآخر منتخب قیادت کو یہ احساس ہو گیا کہ سول انتظامی ڈھانچہ، خاص کر پولیس فورس، پہ موثر گرفت کے بغیر صوبے کے انتظامی امور چلانا آسان نہیں۔رولز آف بزنس کے مطابق صوبے کاچیف سیکرٹری اٹھارہ اور اوپر والے گریڈ کے افسران کے تبادلے سے قبل وزیراعلیٰ سے منظوری لینے کا پابند ہے لیکن وہ آئی جی جو قبل ازیں ہوم سیکرٹری کا ماتحت ہوا کرتا تھا‘ اب پولیس ایکٹ 2017ء کے بعد اکیس گریڈ کے ایڈیشنل آئی جی سمیت تمام ماتحت افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا بلاشرکت غیرے مجاز بنا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ صوبے کا وزیراعلیٰ سنگین الزامات کے تحت انکوائری کے دوران بھی کسی پولیس اہلکار کو سات روز سے زیادہ مدت کے لئے معطل نہیں رکھ سکتا، ساتویں روزمعطل پولیس آفیسر ازخود بحال ہو کر وزیراعلیٰ کی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ پولیس ایکٹ دوہزار سترہ کے سیکشن(9) ‘ جس میں چیف منسٹرکے اختیارات بتائے گئے ہیں، کے مطابق وزیراعلیٰ کسی پولیس اہلکار کے خلاف اختیارات سے تجاوز، غفلت کے ارتکاب اور اتھارٹی کے ناجائز استعمال کی انکوائری کے لئے معاملہ آئی جی یا پبلک سیفٹی کمیشن(جس کافی الوقت کوئی وجود نہیں)کو بھیجے گا یا پھر ایسی تین رکنی کمیٹی تشکیل دے گا جس میں ایک ممبر تو پولیس کا باقی دو وزیراعلیٰ کے نامزد کردہ سول سرونٹ ہوں گے، تین رکنی کمیٹی اپنی سفارشات آفیسر مجاز(آئی جی پی) کو بھجوائے گی جو ''رولز‘‘کے مطابق اس پر عملدرآمد کے مجاز ہو گا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، جب تک پولیس ایکٹ 2017ء کو متوازن نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی اتھارٹی مضمحل اور عامر تہکالی کی طرح عام شہری کا وقار پولیس کے رحم و کرم پہ رہے گا۔شدید ترین عوامی ردعمل اور جوڈیشل کمیشن بنانے کے باوجود عامر تہکالی کیس کے اصل ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے تک نہیں لایا جا سکا۔
2013ء میں عنانِ حکومت سنبھالتے ہی پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرانے جیسے رومانوی نعروں سے متاثر ہو کے پی ٹی آئی قیادت نے سیاسی و سماجی اصولوںکو سمجھے بغیر پولیس فورس کو انتظامی ڈھانچے کی مجموعی ساخت سے ماورا اور صوبائی اتھارٹی کی گرفت سے آزاد کر کے ایسی متوازی اتھارٹی بننے کا موقع فراہم کیا جو اب کسی کو جوابدہ نہیں۔ پچھلے سات سالوں میں خیبرپختونخوا پولیس کے اختیارات اور کارکردگی میں موازنہ کریں تو مایوس کن نتائج سامنے آئیں گے۔یہ بات اب محلِ نظر رہے گی کہ پولیس کو اس قدر وسیع اختیارات کیوں دیے گئے؟ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہوکہ پولیس فورس کوکرائم فائٹنگ سے نکال کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا جائے جو درحقیقت اس کی ذمہ دارایوں کا حصہ تھا نہ ان کی تربیت سے کوئی میل کھاتا تھا، شاید اسی نازک صورت حال میں فریقین نے ایک دوسرے کو ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کی جس میں پولیس زیادہ سمجھدار واقع ہوئی، بہتر کارکردگی کے وعدے پہ غیر محدود اختیار سمیٹ لینے کے باوجود بھی پولیس ڈیلیور کر سکی نہ عام شہری کو احساسِ تحفظ ملابلکہ پولیس افسران نے اسی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دائرۂ اختیار کو بڑھانے اور جوابدہی کے میکانزم کو کند کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ پولیس کمانڈ نے اسی پولیس ایکٹ 2017ء کے اُس مجوزہ پبلک سیفٹی کمیشن کی تکمیل ناممکن بنا دی جس کی تشکیل کا مقصد پولیس کی زیادتیوں کا تدارک کرنا تھا۔ صوبائی حکومت نے جب ڈرائیونگ لائسنس اتھارٹی بنانے اور اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کو پولیس سے الگ کرکے فعال بنانے کا فیصلہ کیا تو پولیس آڑے آگئی؛ چنانچہ سرکار کو اپنی عزت بچانے کی خاطر دو قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔لامحدوداختیارات اور غیرمعمولی مراعات پانے کے الرغم پولیس اگر ڈیلیور کرتی تو حکومتیں بخوشی پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی پولیس ایکٹ 2017ء کو قبول کر لیتیں، مگر خیبر پختونخوا میں اصلاحات کے تلخ تجربات نے دوسرے صوبوں کو محتاط کر دیا کیونکہ لامحدود اختیارات کے بعد بھی تھانہ کلچر میں تبدیلی آئی نہ جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی۔ ہمارے خیال میں چند ماہ قبل سول سٹرکچر میں اصلاحات کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں بنائی گئی اعلیٰ سطحی ریفارمز کمیٹی نے انتظامی ڈھانچے پہ منتخب اتھارٹی کی گرفت مضبوط بنانے کے علاوہ عام آدمی کو پولیس کی دست درازی سے بچانے کے لئے جو تجاویز پیش کیں وہ نہایت متوازن اور قابلِ عمل ہیں۔ صوبائی حکومت اگر پولیس ایکٹ 2017ء کو متوازن بنانے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لئے عشرت حسین کمیٹی کی تجاویز مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ریفارمز کمیٹی کی ان تجاویز میں دو بنیادی ایشوز پر فوکس رکھا گیا، اول پولیس فورس اور سروسز فراہم کرنے والے محکموں پہ چیف ایگزیکٹو کی اتھارٹی قائم کرنا، دوسرے عام شہری کو پولیس کیHigh handedness سے کیسے بچایا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس عام شہری کو پولیس کی دست درازیوں سے بچانے کا کوئی فول پروف میکانزم موجود نہیں۔ اسامہ ستی کی طرح‘ پولیس اگر کسی نہتے شہری کو جعلی مقابلے میں مار دے یا عامر تہکالی کی طرح تذلیل آمیز تشدد کا مزہ چکھائے تو اس کے خلاف تفتیش بھی خود پولیس ہی کرے گی، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پولیس اہلکار منصفانہ تفتیش کے ذریعے اپنے پیٹی بھائی کو تختہ دار تک پہنچائے؟ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف وردیوں کے ہزاروں واقعات منظر عام پہ آنے کے باوجود گزشتہ ستر سالوں میں فوجداری نظامِ عدل کسی پولیس اہلکارکو سزا نہیں دے سکا۔ اگرچہ عوامی جذبات کی رخ گردانی کے لئے وقتی طور پہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کیس درج کر کے گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں جیسے سانحہ ساہیوال یا اسامہ ستی کیس میں ہوئیں لیکن ایسے مقدمات کو شفاف عدالتی عمل کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کی روایات معدوم ہیں۔اول تو ایسے مقدمات کی تفتیش خود پولیس کے پاس ہونے کی وجہ سے ہموار قانونی عمل کے تحت کسی پولیس اہلکار کو کیفر کردارتک پہنچانا ممکن نہیں رہتا، دوسرا، پولیس مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کو کوئی تحفظ نہیں دے سکتا، آخر کار ستم رسیدہ مظلوم خاندان تھک ہارکے صلح پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی پولیس اہلکار کوبے گناہ شہری کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے، حبس بے جا میں رکھ کے جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے، چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے یا مبینہ پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کے جرم میں کبھی سزا ملی ہو۔آج بھی حکومت نے اگر نظامِ پولیس میں اصلاحات متعارف نہ کرائیں تو سوسائٹی کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا، انہی خدشات کے باعث وزیراعظم کی ریفارمز کمیٹی نے سسٹم میں توازن لانے کی جو تجاویز مرتب کی ہیں اس میں شہریوں کی شکایات کے ازالے کیلئے ایسی کمپلینٹ اتھارٹی کا قیام بھی شامل ہے جو کسی بھی کیس میں پولیس کے غیرمناسب رویے کی چھان بین کر سکے گی۔
اس اتھارٹی میں ریٹائرڈ پولیس آفیسر، ایک قانون دان، وکیل استغاثہ اورایک سرکاری آفیسر شامل ہو گا جو شہریوں کے مسائل اورشکایات پرازخود کارروائی کر سکے گی۔ وزیر اعلیٰ کے ماتحت اسی اتھارٹی کے اراکین کو پولیس ریکارڈ تک رسائی بھی حاصل ہو گی۔نئے سال کے آغاز پر آئی جی پولیس صوبائی حکومت کے سامنے محکمے کے جائزہ کا شیڈول پیش کرے گا۔صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد ان جائزہ رپوٹس کو شائع کیا جائے گا۔ان رپوٹس کو کابینہ کمیٹی برائے امن عامہ کی میٹنگ میں بھی پیش کرنا ہو گا۔صوبائی محکمہ داخلہ کے تحت پبلک سیفٹی کمیشن بنایا جائے گا، جو ایک ڈائریکٹر جنرل اور چھ انسپکٹرز پہ مشتمل ہو گا، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ماتحت جمہوری احتساب کمیٹی بنائی جائے گی اوریہ کمیٹی پولیس اصلاحات کیلئے مختص فنڈ کا تعین کرنے، قوانین کے نفاذ اور امن و امان بارے سفارشات مرتب کرے گی۔