"AAC" (space) message & send to 7575

سکون و اضطراب کا ملاپ

خطِ منحنی کی طرح چلتی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک بظاہر مہمل سے مؤقف کی افسردہ کن تکرار اور ایک خاص قسم کے سیاسی جمود کے مابین معلق نظر آتی ہے۔ اگر اِسی قوتِ رفتار کے ساتھ ان کی جدوجہد کا دورانیہ چند ماہ مزید طویل ہوا تو وقت کے تناظر میں یہ تحریک بھی اپنی کشش کھو دے گی۔ جولائی 2018ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مولانا فضل الرحمن نے جب اپوزیشن جماعتوں کو اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر کے نئے سیاسی بندوبست کو مفلوج بنانے کی تجویز دی تو دونوں بڑی جماعتوں نے ان کا مشورہ مسترد کر کے پارلیمنٹ کے اندر سیاسی جنگ لڑنے کا عندیہ دیا تھا لیکن پچھلے ڈھائی سالوں میں اسمبلیوں میں بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کا کردار روایتی مخالفت سے ایک سینٹی میٹر آگے نہیں بڑھ سکا، جس سے پی ٹی آئی گورنمنٹ کو قدم جمانے کا وقت مل گیا۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کوئی جماعت سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش تو کر سکتی ہے لیکن وہاں سے انقلاب برپا کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ ابتدا میں شاید پی پی پی کو اس نئے بندوبست کو چلانا اور نواز لیگ جیسی انتخابی حریف جماعت کو اقتدار سے دور رکھنا مقصود تھا، اور اب بھی تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اِسی جدلیات کو ایک‘ ڈیڑھ سال مزید آگے کھینچ کے 2023ء کے عام انتخابات کے قریب پہنچانے میں ہی اپنا سیاسی مفاد ڈھونڈتی محسوس ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ اپوزیشن کی ہمنوائی کے باوجود طاقت کے مراکز سے ناتا توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ اگلے انتخابی مرحلے میں زرداری صاحب مفاہمت کے آرٹ کو بروئے کار لا کر بلاول بھٹو زرداری کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کی آرزو لئے بیٹھے ہیں لیکن موجودہ بندوبست اگر پانچ سال کی معینہ مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گیا تو مقتدر قوتیں پیپلزپارٹی کے بجائے اگلی بار بھی پی ٹی آئی کو ہی منصب اقتدار پہ جلوہ گر دیکھنا پسند کریں گی۔
پیپلزپارٹی کا مخمصہ یہ بھی ہے کہ جب نواز لیگ کا مزاحمتی بیانیہ تیزی سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے لگا تو زرداری صاحب کو بھی بہ امر مجبوری پاور پالیٹکس کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر مزاحمتی سیاست کی بھول بھلیوں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے عوامی مقبولیت کا اعزاز جو کبھی پیپلزپارٹی کی طرۂ امتیاز ہوا کرتا تھا‘ اب اس کے لئے ناگوار بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔ البتہ جے یو آئی وہ واحد جماعت تھی جو الیکشن میں دھاندلی کے بیانیے کو لے کر پارلیمنٹ کے بجائے عوام کے پاس جانے کی جسارت کر بیٹھی، مولانا فضل الرحمن نے تنہا تحریک چلانے کا مشکل راستہ چُن کر اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا دائو کھیلا۔ 25 اکتوبر 2019ء کو انہوں نے کراچی سے آزادی مارچ شروع کر کے 13 نومبر تک کم و بیش اٹھارہ دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیے رکھا جسے نہایت مہارت کے ساتھ تحلیل کر کے مولانا صاحب کو خالی ہاتھ واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جس نے پی ٹی آئی گورنمنٹ کو ایسا اعتماد عطا کیا جسے متزلزل کرنا دشوار ہوتا گیا۔ اگر اُس وقت مولانا فضل الرحمن ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کرکے چند دن مزید وہیں ٹھہر جاتے تو شاید معاملات پہ حکومت کی گرفت قائم نہ رہتی۔ بلاشبہ اس تصادم میں جے یو آئی کو اقتدار نہیں ملنا تھا مگر ووٹ کو عزت دلانے کے نصب العین کا حصول ممکن ہو سکتا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس نازک مرحلے پر بھی ہماری سیاست کے روایتی کرداروں کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کو رام کر کے صورت حال کو مینج کر لیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی اس پسپائی نے جے یو آئی سمیت پارلیمنٹ کی بالادستی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ تو مولانا صاحب کی غیر معمولی قوت برداشت اور سیاسی مہارت کا کرشمہ تھا جس نے قومی سیاست میں جے یو آئی کی باوقار واپسی کی راہ ہموار بنائی، وگرنہ آزادی مارچ اور دھرنے کی ناکامی اس فعال جماعت کو تاریخ کے دھندلکوں میں گم کر سکتی تھی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس اپوزیشن نے آزادی مارچ کے دوران مولانا فضل الرحمن کو تنہا چھوڑا تھا‘ انہی پیش پا افتادہ سیاسی جماعتوں نے انہیں میدان سیاست میں دوبارہ کھڑا ہونے میں بھرپور مدد دی۔ خاص طور پر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنی مزاحمتی جدوجہد میں مولانا فضل الرحمن کو ہمنوا بنا کے قومی سیاست کے اس توانا کردار کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن کی پیشوائی میں ستمبر 2020ء میں پی ڈی ایم کے قیام نے اپوزیشن کو ایک بار پھر صف آرا ہونے کا موقع دے کر حکومت کے لئے نئے چیلنجز پیدا کر دیے لیکن اب حکومت کے خلاف فیصلہ کن معرکے میں غیر ضروری تاخیر اپوزیشن جماعتوں کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔ سینیٹ انتخابات کے بعد حکومت نے اگر سال 2021-22ء کے بجٹ کو متوازن بنا لیا تو عمران خان مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اِس سال گرتی ہوئی قومی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش ضرورکرے گی۔ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافے کے علاوہ کسی حد تک مہنگائی پر قابو پا لیا گیا تو حالات بدل بھی سکتے ہیں۔ البتہ اس ساری جمع تفریق کے باوجود قومی سیاست کے مجروح وجود پہ بے یقینی کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔ قومی قیادت سیاسی و معاشی اصلاحات کے علاوہ وسیع تر قومی مقاصد کے حصول کی خاطر کوئی واضح نصب العین پیش نہیں کر سکی، اجتماعی ناکامیوں اور سیاسی خرابیوں کا استحصال کر کے جذباتی رجحانات میں اضطراب پیدا کرنے سے اصلاحِ احوال تو نہیں ہو سکتی البتہ قوم کو فرضی حقائق کے جال میں پھنسانے کے اسباب ضرور پیدا ہوں گے۔ افسوس کہ ہمیں اپنی مشکلات پہ قابو پانے کے لئے جس مربوط زاویۂ نگاہ کی ضرورت تھی‘ اس کے آثار ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فی الوقت ہماری قومی سیاست میں ایسے پختہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان زندہ ہیں جو حصولِ اقتدار کے بجائے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پہ مبنی قومی بیانیہ تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ کسی صحت مند تبدیلی کی دیر پا اساس تلاش کرنے کے برعکس متحدہ اپوزیشن سینیٹ الیکشن کے بعد حکومت کو گرانے کی حتمی کوشش کر کے عدم استحکام کو دو چند کر دے گی۔ یہاں پہلے بھی سیاسی تنازعات کی جڑیں کافی گہری تھیں لیکن رواں تحریک سیاسی تنازعات کو زیادہ سنگین بنا کے مملکت کی چولیں ہلا سکتی ہے۔ اس نامطلوب تصادم کو ٹالنے کے لئے اصولی طور پہ تمام سٹیک ہولڈرز کا تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولے کے مطابق اپنے اپنے دائروں میں سمٹنا لازم ہے لیکن ایسا بندوبست ممکن نظر نہیں آتا، اس مقصد کے حصول کی خاطر جس نوع کی پُرامن مگر مؤثر عوامی تحریک اور سیاسی تدبر کی ضرورت تھی وہ بھی معدوم ہے۔
خطے میں تیزی سے بدلتی صورت حال کے پیش نظر ریاست کو مربوط قومی بیانیے کی اشد ضرورت تھی لیکن قومی لیڈرشپ تنازعات کی دھار کو زیادہ تیز کر کے اندرونی اور بیرونی تنازعات کو بڑھانے جا رہی ہے۔ اگرچہ ملک بھر میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن کئی علاقوں میں بدامنی پھر سر اٹھانے لگی ہے، خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں پچھلے چند ماہ میں سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھے ہیں۔ 2013ء اور 2018ء میں اقتدار کی ہموار منتقلی کی وجہ سے کسی حد تک انتہا پسندی میں کمی واقع ہوئی لیکن کامل مذہبی، سیاسی اور سماجی رواداری کے حصول کی منزل ابھی دور ہے۔ گورننس میں اصلاحات کیلئے جس قسم کی سیاسی ہم آہنگی درکار تھی‘ وہ بعید سے بعید تر ہوتی جا رہی ہے۔معاشی اصلاحات کیلئے بھی سیاسی اور سماجی نظم و ضبط اولین شرط ہے، سیاسی عدم استحکام کی بدولت ہی ملک کو بڑھتے ہوئے قرضوں کے بحران اور معاشی محاذ پر تجارتی عدم توازن کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پہ ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں کے مابین جاری پیکار کے درمیان کوئی آزادانہ اور متوازن خارجہ پالیسی کی تشکیل بھی التباسات کی دھند میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ کہیں ہم سماجی دھارے کو ہموار بنانے کیلئے فن و ثقافت کی آبیاری، سیاسی مکالمے اور تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے علاوہ قیام امن کیلئے معاشرے کو عدل و مساوات کے اصولوں پہ استوار کرنے کے طریقوں کو فروغ دینے کی ذمہ داریوں کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں