اٹھارہ مارچ کو ماسکو میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں امریکا سمیت بڑے علاقائی کھلاڑیوں، چین، روس اور پاکستان نے مشترکہ اعلامیے میں اماراتِ اسلامی افغانستان کے دوبارہ قیام کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان پہ واضح کر دیا کہ وہ قیامِ امن کی خاطر افغان گورنمنٹ سمیت دیگر دھڑوں کے ساتھ شراکتِ اقتدار کے قابلِ عمل فارمولے تک پہنچنے کے علاوہ مملکت کیلئے جمہوری آئین پہ اتفاقِ رائے کی راہ نکالیں۔ افغان وفد کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے مشترکہ اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امن عمل کو تیز تر بنانے کی خواہش ظاہر کی لیکن طالبان نے کہا کہ وہ کسی کو سیاسی نظام پہ اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کے سیاسی ترجمان محمد نعیم نے ماسکو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ بنیادی اصولوں کے منافی اور ناقابلِ قبول ہے، افغانوں کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے نظام حکومت کا فیصلہ خودکریں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ علاقائی طاقتیں افغان تنازع کا کوئی ایسا قابلِ عمل حل تجویز نہیں کر پائیں جس پہ طالبان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہوسکیں؛ تاہم مشترکہ اعلامیہ اس تنازع کی کچھ نئی جہتوں کو نمایاں کر رہا ہے جس سے پہلا تاثر یہی ملتا ہے کہ علاقائی طاقتیں امریکی مقتدرہ کو جنگِ دہشت گردی میں نظریاتی ہزیمت سے بچانے کی خاطر ریسکیو کرنا چاہتی ہیں کیونکہ افغانستان میں امارتِ اسلامی کا دوبارہ قیام پوری مغربی دنیا کی نظریاتی اور اخلاقی شکست تصور ہو گا۔ اس لئے عالمی برادری افغانستان میں طالبان کی بالادستی کی راہ روکنے پہ متفق دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ماسکو کانفرنس کا ظاہری مقصد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے امن معاہدے کے تعطل کو دور کرنا تھا لیکن اس کا پیغام طالبانائزیشن کے برعکس ایک ایسے ''جمہوری‘‘افغانستان کا قیام تھا، جس میں عوامی رائے کو فوقیت حاصل ہو؛ تاہم ''فاتح‘‘ کی حیثیت سے طالبان یہاں اپنی مرضی کی اتھارٹی قائم کرنے پہ اصرار کر رہے ہیں۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ٹویٹر پر لکھا ''ہم نے اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان کی نمائندگی کرنے والے وفود کی حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ اپریل کے اوائل میں استنبول میں ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں شرکت کی تیاری کر سکیں،گزشتہ میٹنگ 'نتیجہ خیز سفارت کاری‘ تھی‘‘۔ بلاشبہ ماسکو کانفرنس اس لحاظ سے واشنگٹن کی سفارتی کامیابی ثابت ہوئی کہ امریکی مقتدرہ نے مکمل فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں معمول کے سیاسی عمل کی بحالی کیلئے علاقائی طاقتوں کو انگیج کر لیا ہے۔
دریں اثنا طالبان کے سیاسی دفتر کے رکن سہیل شاہین نے بیان دیا ہے کہ واشنگٹن کو انخلا کی متفقہ تاریخ کے بعد افغانستان سے فوج نکال لینی چاہئے، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ان کی جانب سے دوحہ معاہدے کی خلاف وردی تصور ہوگی، جس کا ردّعمل یقینی آئے گا۔ واشنگٹن نے گزشتہ سال تقریباً دو دہائیوں کے بعد طالبان کے ساتھ دوحہ امن معاہدے کے ذریعے یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو نکالنے پر اتفاق کیا تھا لیکن جوبائیڈن انتظامیہ مکمل انخلا کے معاملے پہ متردّد رہی ہے لیکن اب اس نئی صورتحال میں صدر جوبائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کے طالبان سے کئے گئے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی خاطر یکم مئی تک افغانستان سے فورسز نکالنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ مزید ایک فوجی بھی یہاں مروانا نہیں چاہتے؛ تاہم فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی انہوں نے سقوطِ کابل کا خدشہ بھی ظاہر کیا جو بالآخر افغانستان میں خانہ جنگی کا محرک بنے گا۔ امریکی فورسز کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کی خاطر شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے فارسی بان گروہوں نے مزارِ شریف میں اجتماع کر کے طالبان کی بالادستی کے خلاف مسلح مزاحمت کا اعادہ کر کے افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کی وعید سنا دی ہے۔ اسی ممکنہ تصادم کو روکنے کیلئے روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں برسرپیکار فریقیں سے تشدد ترک کرکے بات چیت کے ذریعے تنازعات کو نمٹانے کے علاوہ طالبان کو موسمِ بہار کی جنگی مہمات سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دوحہ معاہدے میں امریکی مقتدرہ نے افغانستان میں سیاسی مفاہمت کی راہ نکالنے کی پوری ذمہ داری افغان گورنمنٹ کے سر ڈال کر خود کو انخلا کی جزئیات میں مصروف کر لیا تھا۔ افغان حکومت کے نامزد وفد اور طالبان کے مابین ستمبر 2020ء سے دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات تاحال ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں بلکہ ماسکو کانفرنس میں شریک طالبان قیادت نے رشید دوستم کی موجودگی پہ اعتراض اٹھا کے داخلی تقسیم کی لکیر کو مزید گہراکر دیا ہے۔ ماسکو سے جاتے وقت رشید دوستم نے کہا کہ وہ بھی 1979ء سے محوِ جنگ ہیں، وہ اگر ہمیں تسلیم نہیں کرتے تو ہم بھی انہیں نہیں مانتے، ہم ان کی طرف جاتے ہیں نہ وہ ہماری جانب آئیں۔
یکم مئی تک افغانستان سے امریکی افواج کے ممکنہ انخلا اور تنازعات کے سیاسی تصفیے کیلئے روس کے دارالحکومت ماسکو میں منعقد ہونے والی افغان امن کانفرنس کی ناکامی کے بعد خطے میں صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عالمی طاقتیں افغان تنازع کا سیاسی حل تلاش کیے بغیر اگر یہاں سے نکل گئیں تو افغان سماج ایک بار پھر افراتفری کی آگ میں جل جائے گا۔ بلاشبہ اجڑے ہوئے افغانستان میں تمام سٹیک ہولڈر کی تلویث سے سیاسی نظام کی ازسرنو تشکیل دشوار عمل ہو گی، افغان تاریخ شاہد ہے کہ یہاں سیاسی امور کا فیصلہ اتفاقِ رائے سے نہیں بلکہ ہمیشہ تلوار کی دھار سے کیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ اب بھی یہی ہو گا۔
کابل میں جنگجوؤں کے ہاتھوں دو خاتون ججز کے قتل کے بعد افغان خواتین میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے، افغان امن سے متعلق ماسکو کانفرنس کے بارے میں بھی کہا گیا کہ یہ خواتین کیلئے ایک قدم آگے بڑھنے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ 18 مارچ کو کریملن محل کے کانفرنس ہال میں امریکا، روس، چین اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان افغانستان بارے دو گھنٹے تک بات چیت ہوئی، اس میں افغان حکومت اور طالبان کے مندوبین بھی شریک تھے؛ تاہم ماسکو کانفرنس کی ناکامی نے افغان خواتین کو زیادہ خوف زدہ کردیا جو ملک کے مستقبل میں اپنے بنیادی حقوق کم ہونے بارے شدید پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ اگرچہ علاقائی طاقتوں نے ملک میں طالبان کی واپسی اور تشدد میں اضافے کے خلاف سخت مؤقف اپنایا لیکن اسے روکنے کی تجاویز پیش نہیں کر سکیں۔ خواتین کے حقوق کی کارکن حبیبہ سرابی‘ جنہیں صدر حامد کرزئی نے صوبہ بامیان کا گورنر بنایا تھا‘ نے خود کو کانفرنس کی میز پر تنہا پایا۔ وہ واحد خاتون تھیں جو ماسکو کانفرنس میں افغان خواتین کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ سرابی نے کہا ''ہم جنگ کا حصہ تو نہیں رہے لیکن ہم یقینی طور پر امن میں حصہ ڈال سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 51 فیصد خواتین کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ ثالث آئندہ کیلئے اِس نکتے کو ضرور نوٹ کریں گے۔ افغان حکومت کی سولہ رکنی ٹیم میں شامل حبیبہ سرابی‘ جو افغانستان میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سمجھی جاتی ہیں‘ افغان حکومت اور طالبان کے مابین کسی بھی ممکنہ سیاسی تصفیے میں اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرداں نظر آتی ہیں۔ افغان خواتین کو خدشہ ہے کہ وہ امن کے نام پر کسی ممکنہ تصفیے میں بنیادی حقوق اور قانونی تحفظ سے محروم ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ علاقائی طاقتیں اماراتی نظام کی واپسی کی مخالفت کر رہی ہیں اور ماسکو کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ''کسی بھی امن معاہدے میں خواتین، مرد، بچوں، جنگ کے متاثرین اور اقلیتوں سمیت تمام افغانوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہونا چاہئے، قانون کی حکمرانی سمیت معاشی، معاشرتی اور سیاسی ترقی میں مرد و زن کو یکساں حصہ ملنا چاہیے‘‘ لیکن عملاً اس مقصد کا حصول دشوار دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کی باقی ماندہ فوج‘ جس کا تخمینہ 3500 کے قریب لگایا گیا‘ امن مذاکرات میں ابھی تک اس کے انخلا کی صورت میں ایسی شرائط کا رکھنا باقی ہے کہ امریکی انخلا امن کے خاتمے کا سبب نہ بنے۔ ادھر طالبان اور افغان حکومت بڑے پیمانے پر ایسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جس کا دائرہ ملک کے تمام اضلاع تک پھیلتا جا رہا ہے اور جس میں ہر روز سرکاری افواج اور طالبان جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی خبریں مل رہی ہیں، چنانچہ فی الحال افغانستان میں دور دور تک قیامِ امن کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔