پی ڈی ایم نے آخرکار پیپلزپارٹی سے راہیں جدا کرکے اُس طویل مدتی سیاسی بحث کی بنیاد رکھ دی ہے جس کا مقصد سویلین بالادستی کا حصول ہوگا۔ اس کشمکش میں پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے پاؤں کی زنجیر بن چکی تھی جس سے نجات پائے بغیر وہ منزلِ مقصود کی طرف بڑھ نہیں سکتی تھی؛ چنانچہ اِس تفریق سے قومی سیاست کی پولرائزیشن دو واضح نقطہ ہائے نظر میں بٹ گئی تھی۔ اب عام شہری کو اپنی رائے متعین کرنے میں کافی سہولت ہو گی، خاص طور پر دو انتہائی مؤثر پروفیشنل تنظیمیں‘ وکلا اور صحافی‘ بھی آئین و قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کی موومنٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس عہد کی روح کی ترجمانی کرنے والے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے جس دن ان مزاحمتی تحریکوں کا کھل کے ساتھ دیا‘ ہمارا سماج اُس یومِ نجات کو پا لے گا جس کی آرزو ہمیں فیض احمد فیضؔ کی نظموں میں ملتی ہے ''وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے‘‘۔ پیپلزپارٹی بھی شاید دو کشتیوں کی سواری میں اپنی ساکھ اور قوتِ عمل گنوا رہی تھی؛ چنانچہ وہ بھی پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے نئے مستقبل کا تعین کر سکے گی بلکہ زرداری صاحب مزاحمت کی وادیٔ پُرخار میں آبلہ پائی کے بجائے مفاہمت اور عملیت پسندی کی خوبصورت اصطلاحات میں مورچہ زن ہو کر حالات کے جبر سے پیدا ہونے والے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے، سو سالوں میں پہلی بار سندھ کی اجتماعی سیاسی ذہانت طاقت کے مراکز سے وابستہ نظر آتی ہے، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت تمام قوم پرست تنظیمیں اور ان کے حاشیہ نشیں سرائیکی نیشنلسٹ خود کو قوت کے مراکز سے وابستہ رکھنے میں آسودگی پاتے ہیں۔ اس سے قبل پنجاب کو انہی سیاسی رویوں کا اسیر سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال اپنی پچاس سالوں پہ پھیلی تاریخ میں بے پناہ دکھ اٹھانے کے باوجود پیپلزپارٹی عوامی سطح پہ کوئی مؤثر مزاحمتی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکی اس کے برعکس مصائب و ابتلا کی پُرشور آندھیوں کے چند تھپیڑے کھانے کے بعد نواز لیگ قومی سیاسی افق پر ایک فعال مزاحمتی قوت بن کر ابھری ہے جس کے مقبول بیانیے نے اُن پیش پا افتادہ سیاسی گروہوں کو بھی اپنے سیاسی تصورات میں ڈھال کے اجتماعی قومی وجود سے مربوط کر دیا جن کی شناخت مرکز گریز نظریات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے جانشینوں کے بعد پیپلزپارٹی نے بھٹو صاحب کے جمہور کی حکمرانی کے سیاسی بیانیے کو ترک کرکے ایوانِ اقتدار سے ہم آہنگ رہنے کی پالیسی اپنا کر مزاحمتی سیاست سے دامن چھڑایا تو عوام سے اس کے رابطے ازخود منقطع ہوتے گئے، اس لئے بے نظیر بھٹو جیسی مقبول لیڈر کے جانشین بلاول بھٹو زرداری آج کی نسل میں اپنے نئے پیروکار پیدا کر سکے نہ نوجوانوں کیلئے ان سیاسی کردار میں کوئی کشش پائی جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پھر بے نظیربھٹو پہ جان نجھاور کرنے والے کارکنوں پہ مشتمل وہ نسلیں عمر رسیدہ ہوکر سیاسی فعالیت کھو بیٹھی ہیں جن کا لہو کبھی سیاست کے فسانے میں رنگ بھرا کرتا تھا؛ تاہم فی الوقت بلاول بھٹو زرداری کو بھی اپنی نئی فالوونگ پیدا کرنے کی کوئی فکر دامن گیر نہیں؛ چنانچہ پیپلزپارٹی کی 1980ء کی دہائی کے لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کی موجودہ ٹیم اس عہدِ نو کی ڈیجیٹل پالیٹکس میں کوئی کردار ادا کرنے کی اہل نہیں رہی‘ اسی لئے رفتہ رفتہ پیپلزپارٹی صحت مند مقابلے کے میدان سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس نوازشریف نے 1993ء میں جس موہوم سی مزاحمت کی ابتدا کی تھی اسے کبھی فراموش نہیں کیا۔ اپنی 35 سالہ سیاسی زندگی میں وہ بتدریج ایک نوآموز سپاہی کی طرح مزاحمتی سیاست کی جانب بڑھتے رہے۔ اس جدوجہد کے دوران اگرچہ کئی بار انہیں پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی لیکن وہ ذہنی طور پر اپنی مزاحمتی سوچ سے کبھی دستبردار نہ ہوئے۔ کئی دفعہ سیاسی سمجھوتوں اور سودے بازیوں کے باوجود وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے باز نہ آئے۔ اس طویل مزاحمتی عمل میں جہاں انہوں نے پاور پالیٹکس کے رموز کو سمجھا وہاں وہ مزاحمتی سیاست کے فن میں بھی مہارت حاصل کرکے مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے رہے۔ انہی تجربات کے دوران انہوں نے مخالف قوتوں کی طاقت اور کمزوریوں کا درست تخمینہ لگانے کے بعد وہ آخری بات کہہ دی جسے ہمارے کئی عظیم لیڈر اپنے دِلوں میں چھپائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان سب سے بڑھ کر نوازشریف نے مریم نواز کی صورت میں اپنی ایسی سیاسی جانشین بھی پیدا کر لی جس نے مزاحمتی سیاست کو نئے انداز بخش کر عہدِ جدید کے ڈیجیٹل سماج میں اپنی بھرپور فالوونگ پیدا کی۔ مریم نواز صاحبہ مزاحمت کا استعارہ اور نوازشریف سے بھی زیادہ مقبول سیاسی لیڈر بن کر ابھر رہی ہیں۔ نوجوان نسل‘ خاص طور پر خواتین کیلئے ان میں کافی کشش پائی جاتی ہے۔ اگر سیاست کے طالب علم تحقیق کریں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا راز بھی یہی تھا کہ وہ پہلے ایسے سیاسی رہنما تھے جنہیں ملک کے طول وعرض میں دیہی اور شہری سماج میں بسنے والی خواتین کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور پھر ان کی گود میں پلنے والے بچے ہی بعد میں بے نظیر بھٹو کی سیاسی قوت بنے۔
پیپلزپارٹی اگر 2018ء کے انتخابات سے قبل اقتدار میں کچھ حصہ پانے کے بجائے خود کو مزاحمتی تحریکوں سے وابستہ رکھتی تو بلاول بھٹو زرداری کو نئی نسل میں اپنی فالوونگ پیدا کرنے میں کامیابی مل سکتی تھی لیکن وہ ہر قیمت پہ سندھ میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش میں یہ خوبصورت موقع گنوا بیٹھے۔ مریم نواز نے بھی اپریل 2017ء میں انتہائی مشکل حالات میں اپنے والد کے ہمراہ قومی سیاست میں اپنے لئے جگہ بنائی تھی۔ اگر اس مرحلے پر آگے بڑھ کر وہ مسلم لیگ کی مزاحمتی سوچ کی قیادت نہ کرتیں تو وہ بھی اپنے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا چکی ہوتیں لیکن انہوں نے صحیح وقت پہ درست فیصلہ کرکے قومی سیاست میں نہ صرف اپنا مقام پیدا کیا بلکہ آزمائش کی بھٹی سے اپنے خاندان کو سرخرو باہر نکالنے میں بھی کامیاب ہوئیں۔ مریم نواز کی فعالیت کی بدولت قومی سیاست پہ نواز لیگ کی گرفت مضبوط ہوتی گئی، اب بظاہر کوئی قوت مستقبل کی سیاست میں ان کے کردار کو محدود نہیں کر سکتی۔ 25 جولائی 2018ء کے بعد بھی پیپلزپارٹی کومزاحمتی سیاست میں کردار ادا کرنے کے کئی مواقع ملے لیکن قیادت کی سوچ اقتدار کی ایسی اسیر ہوئی کہ مزاحمتی سیاست کے عواقب کا سامنا کرنے کی ہمت گنوا بیٹھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اگرچہ پیپلز پارٹی کو حد سے زیادہ پذیرائی دی مگر پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کو انگیج کرکے انہیں انتخابات میں دھاندلی کے ایشو کو جواز بنا کے اسمبلیوں کے بائیکاٹ سے روکا، پھر وزیراعظم کے انتخابات کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری نے آخری وقت پہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف پہ اعتراض اٹھا کر عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کی راہ ہموار کی۔ صدراتی الیکشن کے مرحلہ پر مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے برعکس اعتزاز احسن کوپیپلزپارٹی کا امیدوار بنا کر پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کی راہ کے کانٹے چُنے گئے۔ مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو بے اثر کرنے کیلئے پیپلزپارٹی نے چودھری برادران کے علاوہ شہبازشریف کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، پھر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے توڑ ڈالے، جس سے نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمن، دونوں مبہوت ہو کر رہ گئے، انہی شدید سیاسی جھٹکوں کے بعد پیپلز پارٹی نے آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے ایک بار پھر اپوزیشن کو انگیج کرنے کی سکیم بنائی اور آگے کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ اب تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں راقم نے مولانا فضل الرحمن سے پی ڈی ایم کی اعلانیہ حکمت عملی بارے سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ''نئی صورت حال، نیا مستقبل، نئی حکمت عملی‘ جسے سابقہ پالیسیوں کے امتزاج کے ساتھ استوار رکھنا ہماری جدوجہد کا محور ہو گا‘‘ گویا پی ڈی ایم اب رجیم چینج کے بجائے غیر مقبول ہوتی حکومت کو مسلسل دبائو میں رکھنے کے علاوہ کمر توڑ مہنگائی اور گورنمنٹ کی خارجہ پالیسی کی خامیوں کو ہدفِ تنقید بنائے گی۔ اس وقت افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلاکے بعد خطے کے بدلتے حالات کے نازک مرحلے پہ مملکت کی عنان سنبھالنا انتہائی خطرناک ہو گا، اس لئے گرگِ باراں دیدہ کی طرح اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نہایت خاموشی کے ساتھ حکومت گرانے کے موقف سے دستبردار ہو گئی ہے۔