1988ء میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس ختم ہونے کے بعد ملک کے طول و ارض میں سینکڑوں اخبارات اور جرائد کو نئے ڈیکلریشن اور بعدازاں نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس ملے تو چہار سو معلومات کا سیلاب اُمڈ آیا، جس نے معاشرے کی ہیت ترکیبی بدل ڈالی۔ اِسی تغیر کے نتیجے میں پچھلے تیس سالوں کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ کارکن بڑی حد تک تراشیدہ صحافتی آزادیوں سے مستفیض ہوئے۔ ہر شعبۂ زندگی کی جزیات بارے میڈیا میں گونج سنائی دینے لگی۔ بظاہر ذرائع ابلاغ ایک قوت بن کے ابھرتے نظر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک میڈیا کے نفسیاتی غلبے نے پوری سوسائٹی کو مسحور کر لیا۔ خاص طور پر عدلیہ بحالی کیلئے برپا ہونے والی وکلا تحریک‘ جسے میڈیا نے قوت وثبات بخشی، عہد کُہن کے خاتمے اور نئی صحافتی تہذیب کی نوید بن کے ابھری۔ اسی سرگرمی کی بدولت مقتدرہ اور جمودپرور سماج میں سوچنے کے انداز بدلتے گئے۔ اسی الٹ پھیر کے دوران غیر روایتی تحریکوں کی کوکھ سے ایسے توانا پریشر گروپ نمودار ہوئے جنہیں سنبھالنا قدرے دشوار ہوتا گیا۔ وکلا اپنی پیشہ ورانہ مہارت، حدود عمل، کثرتِ تعداد اور تنظیمی ڈھانچے کی بدولت کافی حد تک منظم اور قانونی دائروں میں مورچہ زن ہو گئے لیکن میڈیا گلیمر نے ایک نئی کلاس کو جنم دیا جس نے اپنی غیرمعمولی شہرت کے بل بوتے پر روایتی لیڈرشپ کو پیچھے دھکیل کے صحافتی تحریکوں‘ سول رائٹس اور جمہوری حقوق کی تحریکوں کی باگ جھپٹ لی۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس کیلئے تنظیمیں تیار تھیں اور نہ انہیں اس قسم کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ تھا؛ چنانچہ اس نئی ذہنی فضا میں تناؤ بڑھنے لگا۔
جدلیات کی اسی لہر کے دوران 26 مئی کی شب اسلام آباد میں ایک یوٹیوبر کو گھر میں گھس کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے ردعمل میں 28 مئی کو ایک صحافتی تنظیم کے مظاہرے سے خطاب کے دوران ایک معروف شخصیت نے کسی کا نام لیے بغیر اس کے خانگی تنازعے کو طشت از بام کرنے کی دھمکی دے ڈالی، جس کے بعد سوشل میڈیا پہ ان کے حامیوں نے ساری کہانی کھول دی۔ مذکورہ تقریر کو حیرت انگیز پذیرائی ملنے کی وجہ سے میڈیا ہائوسز سمیت صحافتی تنظیمیں دباؤ میں آ گئیں۔ صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوئی تو صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے ان سے ملاقات کر کے انہیں اپنے لب و لہجہ پہ معذرت کرنے پہ آمادہ کر لیا لیکن معذرت کی اشاعت کے باوجود تناؤ میں کمی نہیں آئی۔ اب اسی ڈیڈلاک نے جہاں آزادیٔ صحافت کی ہموار جدوجہدکو بریک لگا دی‘ وہاں کئی اداروں کے سٹیکس اور کارکن صحافیوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہو گئیں۔
اگر ہم ماضی پہ نظر ڈالیں تو ہماری صحافتی تاریخ میں کئی ایسے ستارے جگمگاتے نظر آئیں گے، جنہوں نے آزادیٔ اظہار کے حق کو پانے کی خاطر لازوال قربانیاں دیں۔ ان میں منہاج محمد برنا، نثار عثمانی اور آئی اے رحمن کے علاوہ وہ درجنوں کارکن بھی شامل ہیں، جنہوں نے مارشل لا کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ 1978ء میں آزادیٔ صحافت کی تحریک چلی تو سینکڑوں کے بے روزگار ہونے کے علاوہ کم و بیش ساڑھے تین سو صحافی جیلوں میں سڑتے رہے، ان میں نیوز پیرز ایمپلائی کنفیڈریشن کے صدر حفیظ راکب جیسے مردِ درویش بھی شامل تھے، جنہوں نے عسرت کے باوجود آزادیٔ صحافت کی تحریک کے دوران ناقابل برداشت دکھ جھیلے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی احفاظ الرحمن کی ہزار صفحات پہ مشتمل کتاب''آزادیٔ صحافت کی آخری جنگ‘‘اسی گداز تحریک کے عظیم کارکن کی لازوال قربانیوں کی انمول داستان ہے۔ ضیاء الحق صاحب نے روزنامہ مساوات لاہور، صداقت اور ہلالِ پاکستان کو بند کیا توصحافیوں نے مظاہرے کرکے مساوات کو بحال کرا لیا۔ مساوات کراچی کی بندش کے خلاف مظاہروں کی پاداش میں منہاج محمد برنا تین بار جیل گئے۔ ضیاء الحق مرحوم نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران مجلس شوریٰ کے قیام کا اعلان کیا تو نثار عثمانی نے ان سے سوال پوچھا کہ جنرل صاحب آپ نے تو نوے دن میں انتخابات کرانے کے وعدہ پہ اقتدار سنبھالا تھا‘ اب یہ مجلس شوریٰ کہاں سے نکل آئی؟اگر جمہوریت بحال نہ ہوئی تو مجھے سڑکوں پہ کئی سر لٹکتے نظر آتے ہیں۔عثمانی صاحب کے سوال پہ ضیاء الحق کو چپ سادھ گئی؛ چنانچہ آزادیٔ اظہار کی تحریک کا زور توڑنے کی خاطرپی ایف یو جے کے مقابلے میں ایک متوازی تنظیم کھڑی کر دی گئی، جسے زیادہ تر حامی چھوٹے صوبوں سے مل گئے لیکن اس وقت پنجاب اور سندھ کے صحافیوں نے آزادیٔ صحافت کی تحریکوں میں زندگیاں کھپا دی تھیں۔ نثارعثمانی نے طویل قید و بند اور بے روزگاری کی اذیتیں برداشت کیں، انہوں نے گورنمنٹ سے پلاٹ لئے نہ کسی مخیر کی امداد قبول کی۔ افلاس کی وجہ سے ان کی بیوی اپنی آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھی اور بچے تعلیم سے محروم رہ گئے۔ ان عظیم لوگوں نے پوری متاعِ حیات لٹا دینے کے باوجود اپنی اصولی جدوجہد ترک کی نہ کبھی قربانیوں کا صلہ مانگا۔ اسی زمانے میں ناصر زیدی کو کوڑے مارے گئے، حمید چھاپرا، حبیب غوری، آئی ایم راشد، قیصر بٹ، محمود شام، عباس اطہر، غوثی اور ان جیسے کئی صحافیوں نے ناقابل بیان جبر برادشت کیا۔ ابتداء میں تو حکومت کی جانب سے بات چیت سے انکار کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں جب عالمی تنظیموں کا دبائو بڑھا تو صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے مذاکرات پہ آمادگی ظاہر کی گئی۔ مارشل لا کی ہرارکی اس زمانے میں صحافیوں کی تحریک پر بھٹو بچائو تحریک کی پھبتی کستی رہی لیکن امر واقعہ یہ تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں بھی پریس قدرے پابندیوں کی زد میں تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس ختم کر دیں گے لیکن جب انہیں اقتدار ملا تو وہ اپنا وعدہ وفا نہ کر پائے؛ چنانچہ صحافتی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ وہ وزیراعظم، چیف منسٹرز اور وزرا کی دعوتوں میں شرکت نہیں کریں گے۔ بھٹو صاحب کی آرزو تھی کہ انہیں کراچی پریس کلب میں دعوت دی جائے لیکن اس وقت یہ کہہ کر وزیراعظم کی دعوت کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ پہلے وہ پریس انیڈ پبلی کیشن آرڈیننس ختم کرنے کا وعدہ پورا کریں۔
اسی پس منظر میں جب ہم آزادیٔ صحافت کی تحریک کا ماضی سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں ماضی و حال میں بنیادی فرق یہ نظر آتا ہے کہ اس وقت کی لیڈرشپ اپنی ذات کی نفی کرکے مقصد کو فوقیت دیتی تھی اور اپنی جدوجہد کو ذاتی تلخیوں سے بچا کے صرف اصولی لڑائی پہ مرتکز رکھتی تھی لیکن اب یہ کشمکش اصولی دائروں سے نکل کے ذاتی زندگیوں تک پھیل گئی ہے، جس سے اصولی مقصد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بڑھ گیا۔ موصوف اپنی وضاحت سے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے جو بھی کہا وہ ایک صحافتی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کہا، اس لئے میڈیا کے کسی ادارے کو اس تنازعے میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی؛ تاہم بادی النظر میں ان کا موقف کمزور دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان کی شناخت اور محفوظ پناہ گاہ میڈیا کا ادارہ ہے۔ جب کسی پہ وار کر کے وہ اپنی حتمی پناہ گاہ کی طرف لوٹیں گے تو لامحالہ متاثرہ فریق کا رخ اس پناہ گاہ کی طرف ہو گا۔ اس مہم جوئی سے قبل اگر وہ ادارے کواعتماد میں لیتے تو شاید انہیں اس جدلیات کا سارا بوجھ تنہا نہ اٹھانا پڑتا۔ اس سے قبل 2014ء میں جو کچھ ہو چکا‘ یہاں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی کسی کے ماضی کو کریدنے کی ضرورت ہے؛ تاہم عام خیال یہی ہے کہ بعض افرادکی بے مقصد مہم جوئی اگرچہ ان کے شخصی وقار کا زینہ اور ذاتی شہرت کا وسیلہ ضرور بنی لیکن اس تعلّی نے ذرائع ابلاغ کے اداروں اور آزادیٔ صحافت کی گراں قدر جدوجہد کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔