طویل عرصہ بعد جے یو آئی جیسی ملک گیر جماعت نے جنوبی وزیرستان میں بڑے عوامی اجتماع کے ذریعے جنگ زدہ خطے میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرکے سب کو حیران کر دیا۔ امید ہے یہ گداز سرگرمی مقامی آبادی کی تیزی سے سمٹتی ہوئی سوچوں کو قومی دھارے سے منسلک کرنے کا وسیلہ بنے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے جلسے کا پیغام یہ تھا کہ نہایت سرعت کے ساتھ نسل پرستی اور لسانی تعصبات کی طرف بڑھتی قبائلیوں کی نوجوان نسل کو پھر سے اپنی اساس سے جوڑا جائے۔ اگرچہ مولانا صاحب کے مقاصد ارفع اور تمنائیں نیک تھیں لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ حالات کے جبر نے قبائل کی مصیبت زدہ نسلوں کو اپنی روایتی زندگی سے اتنا دورکر دیا کہ اب وہ شدت کے ساتھ تحفظ، سماجی نظم و ضبط اورغیر مشروط امن کے خواہشمند ہیں۔ افغانستان میں لڑی جانے والی تاریخ کی طویل ترین جنگ نے جس طرح پورے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی تمدن کو متاثر کیا اِسی طرح اِس مہیب جنگ کی پیچیدہ حرکیات نے ان قبائلی معاشروں کے ثقافتی رجحانات اور معاشی مفادات کو بھی تبدیل کردیا جو صدیوں سے ایک گنبد ِبے در میں مقید رہ کے ہر آن بدلتے زمانے کے تقاضوں سے بے خبر رہا کرتے تھے۔ انگریز کے ایف سی آر قوانین اور پولیٹکل ایڈمنسٹریٹو سسٹم کے تحت ریگولیٹ کرکے کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک ریاست نے قبائلیت کو دوام دے کر انہیں فروغ پذیر انسانیت کے اجتماعی دھارے سے جدا رکھا؛چنانچہ اس پس منظر میں متعین ریاستی پالیسی کے تحت مغربی سرحد کے دونوں اطراف محوِ خرام رہنے والے ان قبائل کو سنبھالنے کی خاطر پہلے جنرل ایوب خان کے دور میں یہاں انجینئرنگ و میڈیکل کالجز اور سی ایس ایس میں ان کا کوٹہ مقرر کراکے قبائلی سماج کو قومی ترقی کے ہموار دھارے سے ہم آہنگ کرنے کی موہوم سی کوشش ہوئی؛ تاہم سقوطِ بنگال کے بعد 1970کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد میں یہاں نہ صرف رزمک کیڈٹ کالج جیسے بہترین ادارے اور سراروغہ لیدر فیکٹری بنی بلکہ قبائلیوں کو سبز پاسپورٹ دے کر جب گلف کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کھپایاگیا تو افلاس زدہ اس خطے میں مادی خوشحالی در آئی۔
اسی زمانے میں ملک بھر میں قبائلیوں کوجائیداد کی خرید و فروخت کی اجازت اور تجارت کرنے کے مواقع دے کر پاکستان میں ان کے معاشی مفادات تخلیق کیے گئے تاکہ مملکت کے ساتھ ان کی وابستگی استوار ہو سکے لیکن ان ساری عنایات کے باوجود یہاں کے عام لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو سیکولر طرزِ سیاست کے باعث اپنا سب سے بڑا مخالف اور نفسیاتی طور پہ خود کو پاکستان سے الگ آزاد معاشرہ تصور کرتے تھے۔ ہرچند کہ جنوبی ایشیا میں ابھرنے والی طویل جنگوں کے باوجود یہاں کی انتظامی اتھارٹی نے اپنی بہترین حکمت عملی سے 1979ء میں روسی مداخلت کے خلاف افغانوں کی مزاحمتی جدوجہد سے قبائلیوں کو الگ رکھا۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد وہاں بھڑک اٹھنے والی خانہ جنگی اورطالبان تحریک سے بھی یہ خطہ لاتعلق رہا لیکن بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد افغانستان پہ امریکی جارحیت کے نتیجہ میں بکھرنے والے عسکری گروہوں کو پہلی بار قبائلی سماج میں سرایت کرنے کا موقع ملا تو نوجوانوں کی بڑی تعداد نہ چاہتے ہوئے بھی اس جدلیات کا حصہ بن گئی جس کے نتیجے میں یہ خطہ عمیق بدامنی اور تشدد کی لپیٹ میں آ گیا۔
تقریباً پندرہ سو کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں پھیلے عسکریت پسند گروہوں کو کچلنے کیلئے 16 مارچ 2003ء کو پہلی بار فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں میں آپریشن لانچ کیے گئے۔ ابتدا میں جنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر وانا میں مولوی نیک محمد وزیر کے جیش القبا گروپ نے طاہریلدش، ابومصف بلوشی، خالدشیخ اور حمزہ ربیعہ جیسے عرب، ازبک اور چیچن جنگجوئوں کے ساتھ مل کر امریکا اور اس کی اتحادی فورسز کے خلاف شدید مزاحمت کی آگ بھڑکائی جس کے بعد اپریل 2004ء میں گورنمنٹ اور مولوی نیک محمد کے ساتھ شکئی معاہدہ طے پایا جس میں پاک فورسز پہ حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی تھی لیکن یہ معاہدہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ نیک محمد کو اگرچہ امریکا نے جون 2004ء میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا لیکن اس وقت تک اس کے افکار و نظریات پورے وزیرستان میں پھیل چکے تھے۔ بعد میں مولوی نذیر گروپ اس کا جانشین بنا جس کے غیر ملکی جنگجوئوں کے ساتھ تنازعات پیدا ہوئے تو یکے بعد دیگرے بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، شہریار اور سجنامحسود گروپوں نے غیرملکی مزاحمت کاروں کو محسود ایریا میں پناہ دے کر اس کشمکش کو پورے ریجن میں پھیلا دیا۔ ایک طرف آپریشنز کی وجہ سے پولیٹکل سسٹم کی انتظامی اتھارٹی تحلیل ہوئی تو دوسری جانب معاشرتی نظم و ضبط کی علامت قبائلی سرداروں کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے یہاں کے روایتی سماجی نظام کو اندر سے توڑ ڈالا جس سے قبائلی معاشرہ بیک وقت روایات کے بندھن اور قانونی تحفظ سے محروم ہوکر پوری طرح عسکریت پسندوں کی گرفت میں پھنس گیا ؛چنانچہ 19 جون 2009ء کو پاک فوج نے آپریشن راہِ نجات شروع کرنے سے قبل لدھا، مکین، سروکئی، تیارزہ اور سراروغہ جیسی تحصیلوں سے مقامی لوگوں کو نکالا تو کم و بیش 44 ہزار خاندان نقل مکانی کرکے ڈیرہ اسماعیل خان آ پہنچے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صدیوں پہ محیط ایف سی آر کا نظام اور قبائلیت کا نفسیاتی سحر ٹوٹا اور لاکھوں قبائلیوں کو زندگی کے جدید پہلوئوں کو دیکھنے کے مواقع ملے۔
بلاشبہ تشدد کی لہریں اور نقل مکانی کی کلفتیں نہایت اذیتناک تھیں جنہوں نے کئی معصوم لوگوں کی جان لیں لیکن خود محسود اہل الرائے کہتے ہیں کہ فوجی آپریشن اور نقل مکانی کے بعد اس خطے کے لوگوں کا معیارِ زندگی قدرے بلند اور سماجی شعور میں بہتری آئی، نقل مکانی کرکے شہروں میں آنے والوں کو بنیادی سہولتوں سے آشنائی اورروزگار کے نئے مواقع ملے۔ پہلے گھر کا ایک فرد کماتا‘ چھ کھانے والے ہوتے تھے، اب ہر فرد کو روزگار پیدا کرنے کی ترغیب اور سہولت مل گئی۔ تخریب و تعمیر کے اس عمل سے جہاں اس خطے میں عالمی معیار کی سڑکوں، ہسپتالوں، سکولز، کیڈٹ کالجوں، آبنوشی اور آبپاشی کی سکیموں، موبائل فون سروسز، گھرکی تعمیر کیلئے نقد امداد اور دور افتادہ علاقوں تک بجلی کی سہولت کے ذریعے ترقیاتی عمل کو مہمیزملی وہاں اسی تغیر کی بدولت یہاں پر بسنے والے نوجوانوں کے سوچنے اور بولنے کے انداز بھی بدل گئے۔ آزمائش کی انہی گھڑیوں میں قبائلی نوجوانوں نے ایف سی آر جیسے کالے قوانین کے خلاف منظم مہم چلا کے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کے علاوہ قبائلی ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا ہدف حاصل کیا۔ پہلے انہیں کے پی اسمبلی میں 12 نشستیں ملیں، اب اگلے انتخابات تک ان کی نشستیں 24 تک بڑھ جائیں گی لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں کی نوخیز نسلوں کا اضطراب ختم کیوں نہیں ہوتا؟
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قبائلی سماج اپنی عملی زندگی میں ہمیشہ ان منجمد روایات کا سہارا لیتا رہا جو اسے لامحدود سماجی آزادیوں کی ضمانت دیتی تھیں، اس لئے وہ محبت اور لڑائی جھگڑوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کو دلچسپ بنا لیتے تھے لیکن نائن الیون کے بعد عسکریت پسندوں نے بندوق کے زور پہ جب انہیں اطاعت پہ مجبور کیا تو قبائل کو ان سماجی آزادیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جنہیں وہ سرمایۂ حیات تصور کرتے تھے؛ چنانچہ معاشرتی آزادیوں کے چھن جانے کے دکھ نے قبائلیوں کی نوجوان نسل کو مذہبی سیاست سے برگشتہ کرکے سیکولر قوم پرستی کے اُن پُرفریب نعروں میں پناہ لینے کی راہ دکھائی جس کی گونج میں مرکزگریز تنظیمیں مقبول ہو رہی تھیں۔ یہی وہ اڑچن تھی جس نے ارباب حل و عقد کو مجبور کیا کہ وہ ضم شدہ اضلاع میں سیاسی سرگرمیوں کی راہ کھول کے ملک گیرجماعتوں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیں تاکہ اس معاشرے کو زندگی کے روشن امکانات سے متعارف کراکے بے چینی و اضطراب کی کیفیت سے نکالا جائے۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن نے وزیرستان میں جلسہ منعقد کرکے سیاسی عمل شروع کیا ہے، اسی طرح پی ٹی آئی سمیت نواز لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی ملک گیر جماعتیں بھی یہاں سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے خوف اور بے یقینی کے آشوب میں گھرے قبائلی بھائیوں کوہمدردی اور اپنائیت کا پیغام دے سکتی ہیں۔