استاد ریاض انجم کا سفر نامۂ ایران'' زندہ رود کے ساحلوں پر‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا، مصنف نے نہایت دلنشیں تمثیلات کے ذریعے زندگی کے بہتے دھارے کی تفہیم کرکے عہدِ حاضر کو ماضی بعیدکے تاریخی حوادث اور نامور شخصیات کے حوالوں سے جوڑ کر اس قدرواضح منظر کشی کی کہ چند لمحوں کیلئے قاری ماضی کے اُن پُرشکوہ واقعات میں کھوجاتا ہے۔ پیشہ کے لحاظ سے ریاض انجم ٹیچر تھے لیکن خطاطی، مصوری اور فوٹو گرافی جیسے فن سے والہانہ وابستگی نے انہیں بلند پرواز ِتخیل، گہری قوتِ مشاہدہ اور دل آویز اندازِ بیان عطا کیا، شاید اسی لئے انہوں نے مقصدیت اور دلچسپی کو یکجا کر کے اس گداز سفر کی خشک تفصیلات کو اس قدر دلکش بنا دیا کہ پڑھنے والوں کو بیش بہا تاریخی وجغرافیائی معلومات کے علاوہ ایسی لذتِ خیال بھی ملتی ہے جس میں یہ فانی زندگی نہایت پُرکشش دکھائی دیتی ہے۔ مصنف نے سفرنامہ کا آغازاس خیال آرائی سے کیا ''سڑک کی ڈھلوان سے اتر کر ساحلِ دریا پہ بکھرے پتھروں میں سے ایک پہ جا بیٹھا، کھجور کے چند درختوں پہ مشتمل جھنڈ مجھ پہ سایہ فگن ہونے کے باوجود دھوپ کی تمازت روکنے میں ناکام ہو رہا تھا۔ یہ مئی کا مہینہ ہے، دو موسموں کا سنگم !بہاریں اپنی مہک اور رنگینیاں سمیٹ کے رخصت ہوچکیں، آفتاب کی تیزکرنیں موسم گرما کی چوکھٹ پہ کھڑی دستک دے رہی ہیں، گردن گھما کے جانبِ شمال دیکھتا ہوں تو لہروں کے نشیب و فراز پہ جھولتی کشتی مسافروں کو لے کر میری جانب بڑھی چلی آرہی ہے، اسی کشتی کے پس منظر میں دھندلا سا پہاڑی سلسلہ پھیلا دکھائی دیتا ہے‘‘۔ اسی طرح مصنف دورانِ سفر جس بازار، ریلوے سٹیشن، مزار، خانقاہ یا جس بھی مقام پہ رکتا ہے، وہاں کے ماحول کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے حال کو ماضی کے دبستانوں سے منسلک کرکے اس قدر جامع منظرکشی کرتا ہے کہ کچھ دیر کیلئے ماضی و حال کے درخشندہ واقعات ہم آغوش ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
معروف ادیب اور سیاح مستنصر حسین تارڑ نے ریاض انجم کی کتاب بارے لکھا ''سفرنامہ ایسی آوارہ صنف ہے جسے محض قادر الکلامی اور زبان دانی سے نہیں لکھا جا سکتا، جب تک لکھنے والے کے اندر، جنون جہاں گردی نہ ہو، حیرت کی کائنات نہ ہو اور طبع میں خانہ بدوشی اور آوارگی نہ ہو، مصنف میں یہ تمام خصلتیں پائی جاتی ہیں، اسی لئے اس نے ' زندہ رود کے ساحلوں پر‘ ایسا کمال کا سفرنامہ لکھا‘‘۔ سفر نامہ کی شروعات مصنف نے اگرچہ اپنی جنم بھومی سے کی لیکن جب وہ ایران میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے کلاسیکی شعور کو ان بستیوں میں فن و ثقافت کے حیرت انگیز مظاہر، ماضی کی تہذیبوں کے خاموش آثار، عظیم شخصیات کے کردار اور گزرے ہوئے تاریخی واقعات کی گونج سنائی دینے لگی، وہ لکھتے ہیں ''ایران کا ذکر آتے ہی وہ تمام دلکش نقوش ابھرنا شروع ہو گئے جو ذہن میں محض معلومات کی حد تک سمیٹ رکھے تھے، سائرس اعظم سے لے کررضا شاہ پہلوی تک‘ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا گہوارہ‘ جہاں دارا و سکندر کی جولاں گاہ تختِ جمشید، رستم وسہراب کی سرزمین ماژندران، شاہ نامہ کے فردوسی کا شہر طوس، عمرخیام اور فرید الدین عطار کا وطن نیشیاپور، سعدی و حافظ کی دھرتی شیراز، زرتشت کے آتش کدوں کی باقیات یزد وکرمان، شاہ عباس صفوی کا دارالسلطنت اصفہان اور مدارس ومراجع کے مرکز قم مقدس کے علاوہ ان سب پہ فوقیت رکھنے والی امام ہشتم جناب علی موسیٰ رضا کی نگری مشہد کی پُرکیف فضا، یقین نہیں آ رہا‘ کیا یہ سب مقامات ہم دیکھ پائیں گے؟کیا یہ خواب و خیال تو نہیں، آنکھیں مل کے دیکھا تو یقین آگیا‘‘۔
ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: حرم امام ہشتم پہنچنے کیلئے ہم خیابانِ امام رضا پہ آ نکلے، سامنے شمال میں خیابان کے اختتام پہ روضہ مطہر دکھائی دینے لگا، صحن میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا، یہی صحن کسی زمانہ میں مسجد گوہرشاد کا باغیچہ ہوا کرتا تھا، دنیا میں غریب الغربا کا لقب پانے والے امام کی عظمت یہاں آکر دیکھئے تو امیرالامرا کا لقب بھی ہیچ نظرآتا ہے‘‘۔ مصنف صوبہ ماژندران میں داخل ہوتے وقت لکھتے ہیں ''بحیرہ کیسپین کا نام آتے ہی میرے ذہن میں صوبہ ماژندران کا تصور ابھرا، یعنی رستم وسہراب کی سرزمین کا تصور اور فلم رستم و سہراب کا یہ دلکش نغمہ بے ساختہ نہ صرف میرے ذہن کے پردوں بلکہ ہونٹوں پر بھی مچلنے لگا اور میں اسے قدرے بلند آواز میں گنگنانے لگا: پھر تمہاری یاد آئی ہے صنم، ہم نہ بھولیں گے تجھے اللہ قسم۔
مصنف جس شہر میں داخل ہوتا ہے، وہاں کے ریستورانوں کی تزئین و آرائش، کھانوں کی اقسام، ذائقوں کی چاشنی اورمقامی لوگوں کی بود وباش کے علاوہ وہاں کے فن و ثقافت کے معیارات اور تاریخی پس منظروں میں ضرور جھانکتا ہے۔ '' قدم گاہ سے آگے نیشاپور کا تاریخی شہرمحض بیس‘ پچیس میل کی مسافت پہ ہے، نیشاپورکے جنوب مشرق میں شاداب احاطۂ باغ میں مشہور و معروف بزرگ فریدالدین عطار کا مدفن ہے، جونہی باغ میں داخل ہوں تو ایک اور منقش طرزِ تعمیر آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے، شش محرابی ایوان‘ جس کے نیچے ایک قبر موجود ہے، سلیٹ پہ لکھا ہے ''خُلدآشیاں محمد غفاری کمال الملک کاشانی‘‘سنگی لوحِ مزار پہ مرحوم کی تصور کندہ ہے، یہ ایران کے مشہور مصور اور نقاش کی قبر ہے، ان کی مصورانہ دسترس اور کمالِ فن کے اعتراف میں شہنشاہ ناصرالدین قاچار نے انہیں کمال الملک کا خطاب دیا، کئی ایرانی عماراتوں کی خطاطی اور کاشی کاری انہی کے دستِ ہنرکی مرہونِ منت ہے، خصوصاً 1888ء میں بنایا گیا تہران کے تارا آئینہ (شیش محل)جیسا فن پارہ انہی کے ہاتھوں سے پایۂ تکمیل کو پہنچا‘‘۔ ''حکیم عمر خیام نیشاپوری کا نام رباعیات کے حوالے سے معروف ہے جبکہ وہ شاعر کے علاوہ ماہرِعلم نجوم و کیمیا اور ذہین ریاضی دان بھی تھے، 1074ء میں سلطنت بخارا کے سلجوقی حکمران ملک شاہ جلال الدین نے مروجہ کلینڈرکی اصلاح کیلئے چوٹی کے جن تین ریاضی دانوں کو بلوایا، اُن میں عمرخیام بھی شامل تھے، اُس وقت ان کی عمر چوبیس برس تھی‘‘ ۔یہاں سے مصنف شہر طوس کی جانب محوِ سفر ہوا، اس کی بیتاب نگاہیں سب سے پہلے شاہنامہ کے مصنف فردوسی جیسے عظیم شاعر کے مرقد کو تلاش کرتی ہیں۔ ''یہاں فردوسی آسودہ خاک ہیں، ہم اندر پہنچے تو کیا مقبرہ ہے؟خوبصورت و شاداب گلشن، ہرطرف درختوں کی بہار، سبزہ اور پھول، سامنے مرکزی حصہ میں سفید سنگ مرمر سے تراشا ہوا فردوسی کا عظیم الشان مزار، جس کے دیوہیکل حجم اورعظمت کو دیکھ کر چند لمحے ساکت و خاموش کھڑا سوچتا رہا، یہ سب کچھ توقع سے کہیں بڑھ کے تھا‘‘۔ یہاں مصنف نے ابن انشا کے سفر نامہ سے اُس اقتباس کو بھی نقل کیا، جس میں سلطان محمود غزنوی پہ فردوسی سے شاہنامہ لکھوانے کے عوض حسب وعدہ ساٹھ ہزار اشرفیاں نہ دینے کا الزام عائد کیاجاتا ہے۔
مصنف نے یہ سفر 1985ء میں اس وقت کیا، جب اسلامی انقلاب کے اثرات گہرے اور ایران‘ عراق جنگ شہریوں کے اعصاب پہ سوار تھی؛ چنانچہ مصنف کا رومانوی انقلاب اور جنگی مظاہرسے متاثر ہونا فطری تھا۔ لکھتے ہیں ''اگلا اہم شہر سمنان ہے جہاں ہم نصف گھنٹہ بعد پہنچنے والے ہیں، سرزمین ایران کا نقشہ میرے سامنے تھا، نگاہیں مختلف مقامات کے نام اور محل وقوع سے گزرتی ہوئی ایک جگہ رک گئیں، جہاں لکھا تھا ''دشت کویر‘‘یعنی ایران کا صحرائے اعظم، یوں تو اس سرزمین میں چھوٹے موٹے صحرا اور بھی ہیں لیکن بڑے صحرا دو ہی ہیں، دشت کویر اور دشت لُوت، دشت لُوت صوبہ کرمان میں ہے، جہاں سے ہمارا گزر واپسی پہ ہو گا، مجھے یاد آ رہا ہے، ایران عراق جنگ (1981) کی ابتداء میں اپنے یرغمالیوں کو چھڑانے کے مشن پر صحرا میں لینڈ کرنے والے چند امریکی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوگئے تھے، یہ واقعہ اسی دشت کویر میں پیش آیا تھا۔ اس سفرنامہ کا کلائمکس ایران کے قدیم شہر اصفہان کی منظر کشی پہ منتج ہوتا ہے، مصنف تہران کے بعد قم شہر سے ہوتا ہوا جب اصفہان میں داخل ہوا تو یہیں اسے حسنِ فطرت کی تمام رعنائیاں مل جاتی ہیں، شاید اسی لئے انہیں اپنے سفرنامہ کو اصفہان شہر کے مرکز میں بہنے والے دریا 'زندہ رود‘(دریائے زایندہ)سے منسوب کرنا پڑا۔