مشرقِ وسطیٰ میں ٹوٹ پھوٹ اور تشدد کی آگ اگرچہ بدستور سلگ رہی ہے لیکن مقامی اور عالمی میڈیا نے موت کے اِس رقص ابلیس کو ابہام کے پردوں میں مستور رکھنے کی پالیسی اس لئے اپنا لی کہ مڈل ایسٹ کی تباہی کے آرکیٹیکٹ‘ یورپ‘ کو مایوسی کے آشوب سے نکلنے کی مہلت مل سکے، بالخصوص لیبیا، شام اور لبنان کی کبھی نہ تھمنے والی شورش کے جو شعلے یورپ کے دروازے پہ دستک دے رہے ہیں‘ وہ ایسی نئی دنیا کی تشکیل کے متقاضی ہیں جس کی بنیاد مغربی تہذیب کی لحد پہ رکھی جائے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں معاشروں کو منتشر کرنا آسان ہے لیکن اجڑے ہوئے سماج کی تشکیلِ نو ناممکنات سے قریب تر ہو چکی ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے مغربی اشرافیہ کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ پہلے جنہوں نے شوقِ جنوں میں مڈل ایسٹ کی مضبوط آمریتوں اور قدامت پسند معاشروں کوتحلیل کیا‘ وہی اب ان خطوں کی تشکیلِ نو کی سکیم کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔
مغربی دانشور کہتے ہیں کہ معاشروں کو منتشر اور کئی دہائیوں پر مشتمل حکومتوں کو کمزور کرنا، فرقہ وارانہ تضادات کو گہرا اور سرحدوں کو نرم کرنا، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو پھاڑ دینے والی خوفناک شورش کو وسعت دینے کے علاوہ غیر ریاستی عسکری عناصر کے پھیلائو سے خانہ جنگیوں کو بھڑکا کے تباہ کن انسانی بحرانوں کا مجموعہ تشکیل دینا تو آسان تھا لیکن اجڑی ہوئی اس دنیا کو من مرضی کی صورتوں میں ڈھالنا دشوار ہے۔ اسی خلجان نے اہلِ یورپ کو ایسی ذہنی آزمائش سے دوچار کیا ہے جس سے سرخرو نکلنا محال ہے۔ اب سوال یہی ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ہاتھوں سے لگائی گئی تشدد کی آگ سے یورپ کے عشرت کدوں کو کیسے بچایا جائے ؟اسی مخمصے میں اکثر حد سے زیادہ ردّعمل ظاہر کر کے یورپ اپنی بے بسی کا نقاب الٹ دیتا ہے۔ ان بحرانوں پر یورپی یونین کے رکن ممالک کا ردعمل، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں اصلاح کی سبیل ڈھونڈنے کے بجائے اکثر ملکی مفادات کو درپیش خطرات کی نوعیت اور سیاسی پیمانوں کی غلط تشریحات پر مبنی رہا ہے۔
اس وقت لیبیا، سوڈان اور لبنان سے ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندان اُس یورپ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، جہاں بتدریج سفیدفاموں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے، اسی طرح شام اور غزہ میں پھیلتی جنگوں کی وجہ سے انسانی اور مہاجرین کا بحران خوشحال یورپ سے زیادہ دور نہیں‘ جہاں امریکا اور اسرائیل کے پالیسی سازوں نے 10 ملین سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا ہے۔ ان مسائل کے پائیدارحل کے بجائے یورپی رہنما قلیل مدتی مفادات کے حصول کو سیاسی طور پر اس لئے مفید سمجھتے ہیں کہ ان کے معنی و مفاہیم سے عاری خوبصورت الفاظ کے اندرچھپے اصل عزائم کو جانچنے کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ اس کے برعکس طویل المدتی اہداف کی پالیسی سینکڑوں مراحل سے گزرنے کے باعث اپنے حقیقی مقاصد کو اُگل دیتی ہے؛ تاہم فوری رد عمل والے اقدامات بھی بعض اوقات اپنے محرک کو کمزورکر دیتے ہیں۔ فوری ردعمل اور قلیل مدتی اختلاط کا نتیجہ شاذ و نادر ہی اچھا نکلا بلکہ یہی متضاد سٹاپ گیپ ردعمل تنازعات کے حل میں مددکے بجائے انہیں مزید الجھاتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں خانہ جنگیوں کو بھڑکانے کا کوئی بھی قدم یورپ کے فائدے میں نہیں رہا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انسانی فلاح کے طویل المدتی مقاصد اور مشرقِ وسطیٰ کا استحکام نہ صرف قابلِ عمل ایجنڈا تھا بلکہ یہ یورپ کیلئے براہِ راست سکیورٹی فوائد، تجارت، سرمایہ کاری اور توانائی کے ذرائع تک محفوظ رسائی کا قدرتی وسیلہ تھا لیکن یورپ نے محوری پالیسی کی بنیاد اسلامو فوبیا کے لامتناہی خوف پر رکھ کے خود اپنی بقا کے اسباب کو برباد کر ڈالا۔ مغرب والے پناہ گزینوں کے بہاؤ کو روکنے، تنازعات کے حل اور انتہا پسندوں کو یورپ پر حملوں سے روکنے کے متمنی تو ہیں لیکن مشرقِ وسطیٰ کی اجڑی ہوئی دنیا کے مسائل کو کسی پالیسی فریم ورک میں رکھ کے مربوط زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کے روادار نہیں، گویا یورپی اشرافیہ، امریکا اور اسرائیل کے پالیسی سازاپنی ذہنی صلاحیتوں اورعلاقائی مفادات کے بے لاگ ادراک سے عاری ہیں۔
درحقیقت یورپی یونین، باقی بین الاقوامی برادری کی طرح، مشرقِ وسطیٰ پہ وارد ہونے والی حالیہ آفات سے نمٹنے کو تیار نہیں تھی بلکہ کبوتر کی مانند آنکھیں بندکرکے اُن مصائب کا انتظار کرتی رہی جن سے یورپی عوام اب بھی لاعلم ہیں یعنی ایسی مہیب خانہ جنگی جسے ہائی ٹیک جنگی مشین سے روکا نہیں جا سکتا؛ چنانچہ انہوں نے سیاسی مسائل کے مستقل حل کے بجائے اپنے حفاظتی اقدامات پر حد سے زیادہ انحصارکر لیا، جس سے ایسے پیچیدہ نتائج پیدا ہوئے جو مغرب کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کا سبب بنے۔ اب شاید یورپ والوں کو مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے خود ساختہ دشمنوں سے بات چیت کرنا پڑے۔ یورپ اکثر اُن گروہوں بارے کج فہمی کا مظاہرہ کرتا رہا جو بلادِ مشرق کے متنوع گروہوں کو باہم جوڑ کے علاقائی مفادات اور اپنی تہذیب و تمدن کا دفاع کر رہے ہیں؛ اگرچہ ان میں تمام پُرتشدد نہیں تھے لیکن تنگ نظری پہ مبنی سوچ کی بدولت انہیں بھی خطرہ باور کرانے میں جھجک محسوس نہیں کی گئی جیسا کہ شام اور لیبیا میں منحرف سیاسی گروہوں بارے سوچا گیا، جنہیں اسلحہ فراہمی کے بجائے اگر تصفیہ کے وسائل فراہم کئے جاتے تو نتائج مختلف ہوتے، لیکن یورپی یونین داخلی کمزوروی کی بدولت اپنے اتحادیوں کو سمجھانے یا انہیں سیاسی مخالفین سے بات چیت کی ترغیب نہ دے سکی۔ شام کے بشار الاسد یا احرار الشام گروپ، مصر کی اخوان المسلمون یا یمن کے حوثیوں کو انگیج کرنے کے بجائے تصادم کی طرف دھکیلنے کی پالیسی میں وقتی مفاد تلاش کیا گیا اور یہی طرزِ فکر مغربی بیانیے کی ناکامی کا سبب بنا۔ لاریب یورپ کو پہلے سے کہیں زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایسی پالیسیاں ہیں جو خطے میں تنازعات کے ڈرائیوروں کو کنٹرول کرسکیں۔
یورپ کو مزید نقصان سے بچنے کی خاطر شام یا لیبیا میں فوجی مداخلت کی توثیق نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ یہ ایسی وسیع البنیاد حکمت عملی پہ مبنی نہ ہو جو خطے میں موجود انسانی المیوں کو جڑ سے ختم کر سکے۔ لیبیا کے تنازع کا مذاکراتی حل ہی ہجرت کا پائیدار حل تھا لیکن یورپی یونین کے کلیدی رکن فرانس کے معاشی مفادات وہاں خانہ جنگی کے متقاضی ہیں۔ اسی طرح عراق میں داعش پر حملے صرف ایسی حکمت عملی کے باعث کامیاب ہو سکتے تھے اگر ریاستی اداروں کی جامع قومی معاہدے کی بنیاد پر دوبارہ تعمیرِنو میں مدد کی جاتی بلکہ کامیاب حکمت عملی ملحقہ ریاستوں(ایران)کو نظرانداز نہیں کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے امریکی و اسرائیلی مفادات ایسی سرگرانی کے متحمل نہیں ہو سکے۔ بلاشبہ حالیہ انسانی بحران میں یورپی یونین کو شامی پناہ گزینوں کی مدد پر توجہ دینی چاہئے لیکن تنازع کے اصل حل کے بغیر شام سے نئے آنے والے انسانوں کے سیلاب کو روکنا ممکن نہیں۔ یورپ کیلئے ضروری ہے کہ وہ پہلے ان مخصوص چیلنجز سے ہم آہنگ ہو جن سے نمٹنے کی اسے ضرورت ہے‘ اس میں کچھ ایسے گروہوں سے بات کرنا ہوگی جنہیں وہ دشمن سمجھتا ہے۔ افسوس کہ ملحقہ ممالک میں یورپی یونین کی مداخلت عوام کے بجائے اداروں کے گرد گھومتی ہے جیسے مصر میں، جہاں جنرل السیسی کو اسلام پسندوں کیلئے سدِ راہ بنایا گیا لیکن مصری ریاست اور معاشرہ‘ دونوں اسی حکمت عملی کا شکار ہو گئے۔ مصر اور لیبیا کی شورش بحیرہ روم کے راستے ہونے والی تیل کی تجارت کو متاثر کرے گی۔ بجٹ کی رکاوٹوں اور یونین کے اندر متضاد مفادات نے یورپی یونین کوصرف''ادا کنندہ‘‘ بنا دیا ہے۔ یہ ادارہ انسانی اور ترقیاتی امداد کیلئے فنڈز تو مہیا کرتا ہے لیکن متضاد مفادات کے باعث مشترکہ حکمت عملی بنانے کی اہلیت سے عاری ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ذہنی ہم آہنگی اور مقاصد میں ربط مفقود ہے؛تاہم خود یورپ کی بقا کا تقاضا یہی ہے کہ وہ زیادہ فعال کردار ادا کرے بلکہ بعض اوقات واشنگٹن کی قیادت سے آگے کی پوزیشن میں قدم رکھیں‘ خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ امریکا خطے کے عدم استحکام سے پیدا ہونے والے خطرات سے براہِ راست متاثر نہیں ہوتا۔