افغانستان تاریخی اعتبار سے سیاسی، اقتصادی اور سفارتی طور پہ کبھی خود مختار مملکت یا منظم قوم کی حیثیت سے شناخت حاصل نہیں کر سکا۔ یہاں صدیوں تک ایسی متنوع قبائلیت پروان چڑھتی رہی جس کی مہیب عصبیتوں نے انہیں کبھی بھی صحتمند سماج میں ڈھلنے یا ہم آہنگ سوچ کی حامل متحد قوم بننے کی مہلت نہیں دی۔ اسی جمود پرور کلچرکی بدولت افغانستان میں کسی عہد میں کوئی پروفیشنل آرمی استوار ہو سکی نہ آئین کی حکمرانی پہ مشتمل کوئی ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل پایا جو مملکت کے ارتقاء کو ریگولیٹ کرتا، یہاں ہمیشہ تلوار کے زور پہ قائم ہونے والی ایک نوع کی علامتی امارتیں بنتی ٹوٹتی رہیں جن کی حکمرانی کی حدود کابل سے باہر نہیں نکل سکتی تھی؛ تاہم جفاکیش افغان محبت اور لڑائی جھگڑوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کو دلچسپ بنا لیتے تھے۔ بلاشبہ افغانستان قبائلی عصبیتوں میں منقسم ایسا ملک تھا جسے جس نے جب چاہا مسخر کر لیا لیکن انیسویں صدی کی گریٹ گیم کے بعد برطانوی سامراج نے افغانستان کو شورشوں کا جہنم بنا کر گرم پانیوں تک روس کی پیشقدمی تو روک لی لیکن یہاں سے ابھرنے والی اضطراب کی لہروں نے جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا؛ چنانچہ نائن الیون کے بعد مغربی قوتیں یہاں مربوط ریاستی ڈھانچہ اور جدید معاشرے کے قیام کی خاطر بے رحم جنگی مشین کے علاوہ اربوں ڈالرز اور ابلاغی ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود اِسے جمہوری تمدن اور مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ نہ سکیں۔ دو سو سالوں پہ پھیلے اس طویل جدلیاتی عمل اور بیس سالوں پہ محیط مہیب جنگی تطہیر کے بعد بھی افغانستان نادر شاہ افشار کے عہدِ زوال جیسی مشکلات میں پھنسا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں آج بھی ریاستی ڈھانچے کی تشکیل عالمی طاقتوں کے مابین پیکار میں الجھی نظرآتی ہے۔ آج بھی افغانوں کو دنیا میں منظم قوم اور مربوط مملکت بن کے ابھرنے جیسے چیلنجز درپیش ہیں؛ تاہم بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود اب پہلی بار طالبان کی قیادت بتدریج سماج پہ اپنی گرفت مضبوط کرکے اس لینڈ لاک مملکت کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
تمام تر اشتعال انگیزیوں کے الرغم کابل کے نئے حکمرانوں نے ایران کے دارالحکومت تہران میں شمال سے تعلق رکھنے والے مخالفین سے بات چیت کرکے جس ذہنی لچک کا مظاہرہ کیا اس کے بغیر وسیع تر قومی اتفاقِ رائے کا حصول ممکن نہیں تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جس میں طالبان کی جانب سے سیاسی مخالفین کو امورِ مملکت میں شمولیت کی فراخ دلانہ پیشکش کے علاوہ وطن واپسی کی صورت میں تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ قومی مزاحمتی محاذ کے نام سے بنائے گئے اس اتحاد کی قیادت سابق جنگجو کمانڈراحمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کر رہے ہیں، جوکابل پہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کے علامتی مزاحمتی محاذ بنا کے اُن اجڑے ہوئے مغربی ممالک کی حمایت ڈھونڈتے پھرتے ہیں جنہیں طویل جنگ نے مضمحل کر دیاتھا۔ ان بدلے ہوئے حالات میں محدود سفارتی تعاون کے سوا مغرب کی موقع شناس اشرافیہ ان کی مزاحمتی سوچ کو مادی مدد نہیں دے پائے گی، اس لئے یہ زخم خوردہ گروہ اپنے لیے باعزت واپسی کی راہیں تلاش کرنے میں بھی سرگرداں ہے۔ طالبان نے اگست میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد دبائو بڑھا کے شمالی علاقوں میں ایسی کسی مسلح موومنٹ کو ابھرنے نہیں دیا جیسی 1995 میں نجیب حکومت کے خاتمے پہ احمدشاہ مسعود کی قیادت میں اٹھی تھی۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے آخری دنوں میں طالبان مخالف جنگجوؤں کو شمال کی طرف پنج شیر کی وادی میں اڈے قائم کرنے کی سہولت دی گئی لیکن امریکی اشیر باد کے باوجود وہ اپنے حامیوں میں طالبان کے خلاف لڑنے کا عزم پیدا نہیں کر سکے۔ مغربی میڈیا اسی پنج شیری الائنس کو طالبان مخالف دھڑوں کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن طالبانی مقتدرہ نے اپنی بہترین تزویراتی کوشش سے سب مسخر کر لیا تھا۔
تہران میں طالبان اور ان کے مخالفین کے درمیان میل جول ان پہلی علامتوں میں سے ایک ہے جن سے مملکت پہ طالبان کے مؤثر قبضہ کی توثیق ہوئی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی میڈیا کے منفی پروپیگنڈا کے برعکس سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مصالحتی کونسل کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت سابقہ افغان حکومتوں کے کئی سرکردہ رہنما طالبان کے زیر تصرف کابل میں معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردگرد کی ہمسایہ مملکتیں طالبان سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں؛ اگرچہ ایران نے سرکاری طور پر ابھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا؛ تاہم ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ طالبان وفد سے مذاکرات مثبت رہے، افغانستان کی موجودہ صورتحال ایران کیلئے باعث تشویش رہی، افغان وفد کا دورہ انہی خدشات کے دائروں پہ محیط تھا۔ اگست میں امریکا کی زیرقیادت نیٹو افواج کے انتشار انگیز انخلا کے بعد طالبان وفد کا یہ پہلا باضابطہ دورۂ ایران تھا۔ کابل پر قبضے کے فوری بعد سے طالبان اور ایران کے درمیان فعال روابط استوار ہو گئے تھے؛ تاہم ایران کا سرکاری مؤقف یہی رہا کہ وہ طالبان کو اسی صورت تسلیم کرے گا جب وہ معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندہ حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی پس منظر میں ایران کے خصوصی ایلچی حسن کاظمی نے حالیہ مہینوں میں افغانستان کے کئی دورے کیے۔ اتوار کی ملاقات سے پہلے بھی فریقیں نے کہا کہ وہ سیاسی، اقتصادی، راہداری اور پناہ گزینوں کے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ایرانی وزیرخارجہ حسین عبداللہیان نے ملاقات کے دوران افغانستان میں امریکی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ''امریکا کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان سے پابندیاں ہٹا کے افغان عوام کی مشکلات کے ازالہ میں مدد کرنی چاہیے‘‘۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ ایران اپنے پڑوسی ملک کے عوام کو انسانی امداد بھیجتا رہے گا۔ ادھر چین نے جولائی میں طالبان وفد کی میزبانی کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی استواری کا اشارہ دیا تھا۔ خطے کی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بیجنگ کے تعلقات دہرے ہوں گے، پہلے یہ محض تجارتی ہوں گے جن کے تحت چین افغانستان کے اندر کاروباری منصوبوں کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا، جس کی ممکنہ طور پر طالبان کو ضرورت بھی ہو گی کیونکہ غیرملکی سرمایہ کاری انہیں اچھی آمدنی فراہم کرے گی۔ افغان معیشت کمزور اور مغربی ڈونرز کی غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار رکھتی ہے، جو اگلے چند مہینوں تک یقینی طور پر منقطع ہو جائے گی لہٰذا کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کا طالبان کی طرف سے خیر مقدم کیا جائے گا۔ ملا عبدالغنی برادر اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی جولائی 2021ء میں ہونے والی ملاقات میں بھی یہی طے ہوا تھا کہ باہمی تعلقات کا انحصار اس امر پہ ہوگا کہ فریقین ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ طالبان کاافغانستان چین کا بہترین ساتھی بن جائے گا۔
چینی حکومت کے افغانستان میں معاشی مفادات اہم اور فیصلہ کن ہیں، افغانستان کے پاس خام مال کے چند بڑے ذرائع موجود ہیں اس کے علاوہ وہ چین کو وسطی ایشیا کے تیل اور گیس کے ذخائر اور مشرقی یورپ کی مارکیٹوں تک زمینی رسائی کی سہولت بھی دے سکتا ہے۔ افغانستان میں چین بہت سے پروجیکٹس پر کام کرنا چاہے گا لیکن تاحال اس کا دائرہ اس لیے محدود ہوگا کہ افغانستان ایک مستحکم ملک کے طور پر چینی منصوبوں بشمول بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو سے استفادے کے قابل ہو جائے۔ لہٰذا اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگلے چند سالوں میں چین افغانستان میں سرمایہ کاری کا جادوگر بن کے ابھرے۔ شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں چین کی مصروفیت دوسرے ممالک کو دکھا سکتی ہے کہ چین کس طرح قوموں اور مملکتوں کی تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ مغرب کیلئے اس وقت یہ بھی چیلنج ہے کہ افغانستان میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک کمزور ہوئے ہیں، اس لیے چین سمیت ایشیائی ممالک مغرب کو زوال کی طرف ڈھلکتا دیکھ رہے ہیں، جس سے ان کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔