"AAC" (space) message & send to 7575

پانسہ پلٹنے والا ہے؟

تیزی سے بدلتے سیاسی حالات نے نہایت سرعت کے ساتھ موجودہ نظام کے داخلی تضادات کو عیاں کر دیا ہے‘ جس سے 2018ء کا بندوبست اور مملکت کا انتظامی ڈھانچہ کم و بیش غیر فعال ہو کر رہ گیا ہے۔ حکمران جماعت ایسی ہمہ جہت نفسیاتی پسپائی کی طرف مائل ہے جو اسے سیاسی عمل کے پاتال تک پہنچا سکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہمیشہ جارحانہ روش اپنانے والی پی ٹی آئی کی صفوں پہ سکوت طاری ہے، کورس کی شکل میں چہچہانے والی وہ توانا آوازیں ڈوب رہی ہیں جو اپوزیشن کو لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کی تہمت دے کر ہمہ وقت کٹہرے میں کھڑا رکھتی تھیں۔ امرِ واقعہ بھی یہی ہے کہ گورنمنٹ کے مالیاتی ترقی کے تمام دعوے دھرے رہ گئے‘ سیاسی اصلاحات اور بدعنوانی کے خاتمہ کے بلند آہنگ نعروں کی گونج مدہم اورگرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اقتصادی ٹیموں کی مساعی بیکار ثابت ہوئی۔ مئی 2021ء میں جب وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ دعویٰ کیا کہ حکومت روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنے کے علاوہ ترقی کے عمل کو تیزتر بنانے کی خاطر تقریباً 6 بلین ڈالر خرچ کرے گی تو اُس وقت امید کی کرن پھوٹتی دکھائی دی‘ ان کا مقصد جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں 5 فیصد سے زائد اضافہ حاصل کرنا تھا لیکن اکتوبر میں وزیرِ خزانہ نے واشنگٹن میں سامعین کو بتایا کہ معاشی خطرات کو عملی شکل اختیار کرنے سے روکنے کیلئے ترقی کی رفتارکو ''اعتدال‘‘ میں رکھنا پڑے گا، گویا پاکستان زیادہ تیزی سے معاشی ترقی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ کایا کلپ صرف معیشت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں سیاسی و سماجی اصلاحات کے عمل کو التوا میں رکھنے کی سکیم بھی شامل تھی۔
افغانستان کی سرحد سے ملحقہ شمال مغربی علاقوں میں ابھرتی ہوئی مرکزگریز تحریکوں‘ اپوزیشن پارٹیوں کی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مہم اور مغربی صوبوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے صورتحال کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہی ہمہ گیر تضادات حکومت کے خلاف ایسا مہیب طوفان اٹھانے کا محرک بنے ہیں جو 2023ء کے عام انتخابات میں موجودہ حکومت کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات کو معدوم کر سکتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر قریب المدت معاشی عدم استحکام اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوا؛ تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ گورنمنٹ کی معاشی ٹیم کی کمزوریوں کی بدولت مہنگائی کے طوفان نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر دیگر ہم پلہ معیشتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر لی۔ جنوری 2020ء سے دسمبر 2021ء تک ملک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا، اس کے برعکس بھارت میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 6 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھیں۔ ماہرین کے مطابق اس تفاوت کا زیادہ تر تعلق پاکستان میں زرعی پالیسیوں کے فقدان اور گندم جیسی اہم جنس کی غیر فعال مارکیٹنگ سے تھا‘ جہاں حکومت ہر وقت ویلیو چین میں مداخلت کی مرتکب ہوتی رہی۔ مہنگائی کی ان لہروں کو وبائی مرض کے دوران عائد کردہ سماجی پابندیوں اورغیرمحدود تجارتی لاک ڈائون نے زیادہ مہلک بنا دیا جس میں ملکی معیشت نے 0.4 فیصد کی منفی شرحِ نمو کو چھو لیا تھا۔ وبا سے پہلے کی کفایت شعاری کی پالیسی نے بھی کروڑوں شہریوں کی قوتِ خرید کومتاثر کیا۔ اب منی بجٹ کے بوجھ نے تین سال سے زیادہ عرصے کی تکالیف کے ستائے شہریوں کو مزید مشکلات سے دوچار کرکے سیاسی و سماجی اضطراب بڑھا دیا ہے کیونکہ قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کا تازہ ترین مرحلہ معیشت کے ذریعے اپنا اثر دکھانے والاہے۔ آنے والے ہفتوں میں آئی ایم ایف کے پروگرام کی متوقع بحالی حکومت کے ہاتھوں کو مزید جکڑ لے گی جس کے نتیجے میں بجلی وگیس کے نرخوں میں اضافہ اور انتہائی غیر مقبول کفایت شعاری جیسے اقدامات کی واپسی اجتماعی حیات کا قافیہ مزید تنگ کر دے گی۔
بلند سطح کی مہنگائی اور کم معاشی نمو کے خطرناک امتزاج نے ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت مخالف تحریک برپا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے پہلے ہی حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے‘ اب پیپلزپارٹی بھی رائے عامہ کی توجہ حاصل کرنے کیلئے لانگ مارچ شروع کرنے پہ اتر آئی ہے۔ ممکن ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ٹی ایل پی جیسی دیگر جماعتیں بھی حکومت مخالف احتجاج میں شمولیت اختیار کرکے حکمران اشرافیہ کی دشواریاں بڑھا دیں۔ حکومت اور طاقتور حلقوں کے مابین ابھرتی ہوئی دراڑوں جیسی قیاس آرائیاں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کا محرک بنی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ ہوا‘ اس کے بارے میں متضاد خبریں سامنے آئیں لیکن وضاحت کی کمی نے یہی تاثر پیدا کیا کہ اب حالات ایک پیج کی اس تعریف پہ پورا نہیں اترتے جس پر وزرا کبھی فخر کیا کرتے تھے۔ اس وقت کیا چل رہا ہے‘ اس کے بارے میں اگرچہ ابھی مکمل وضاحت پیش کرنا ناممکن ہے؛ تاہم طاقت کی تکون کی بدلتی ہوئی سوچ نہ صرف پی ٹی آئی حکومت کے مستقبل بلکہ جاری معاشی ناکامیوں کے عمل پہ بھی دور رس اثرات مرتب کرے گی؛ تاہم ان تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود وسیع تناظر میں ملک 2007-08ء سے شروع ہونے والے جس جمہوری تجربے سے گزر رہا ہے‘ اس میں سرنگ کے دوسرے سرے پہ سیاسی استحکام کی جھلک ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جمہوری عمل میں کئی گداز عناصر کچلے بھی جائیں گے جیسے کہنہ مشق پیپلزپارٹی کا مستقبل اورحکمران جماعت کی جمہوری ساکھ زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی پیش قدمی کو قومی سطح کے اتحاد میں اضافے اور وسیع تر سیاسی شراکت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی سے متاثرہ صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان‘ جہاں جے یو آئی نے پامال شدہ قبائلی معاشروں اور نفسیاتی طور پر ٹوٹے ہوئے نوجوانوں کو جمہوری آزادیوں کے حصول کی امید دے کر قومی دھارے سے مربوط کرکے نفرتوں اور گریز کی دلدل میں گرنے سے بچا لیا۔ ہرچند کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سابقہ قبائلی علاقوں میں انتظامی بحران اور دہشت گردانہ حملے بڑھ رہے ہیں؛ تاہم یہی صحتمند سرگرمی ہمیں بے یقینی کے قعرِمذلت میں گرنے سے بچا سکتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ امن معاہدے کی ناکامی کے بعد ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل حکومتی بیانیہ 2022ء میں معیشت کو تیزی سے ترقی دینے‘ عوام میں دوبارہ مقبولیت پیدا کرنے اور آئندہ عام انتخابات جیتنے کیلئے ادارہ جاتی اتفاقِ رائے کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کا پرچار کر رہا تھا۔ حکومت کے ترجمان بڑے اعتماد سے یہ بتاتے تھے کہ ریاست کے پاس واحد قابلِ عمل آپشن پی ٹی آئی ہی ہے‘ اس لیے حکومت 2023ء میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپس آئے گی لیکن اب یہ اعتمادِ نفس ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ اب بھی کچھ حکومتی نمائندے محتاط امید کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے آزمائش کی گھڑی قریب آن پہنچی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کو ہوا دے رہی ہے۔ بالخصوص شہروں کے متوسط طبقات‘ جو پی ٹی آئی کے اہم ووٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں‘ میں حکومت کے خلاف غصہ اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک کی روایتی سیاسی اشرافیہ‘ خاص طور پر وہ الیکٹ ایبلز جنہوں نے ہر دور میں بدلتی ہواؤں کا رخ دیکھ کر اپنے کیریئر کو ترقی دی‘ اب اپنے سیاسی ریڈار کو تیزی کے ساتھ ری ایڈجسٹ کرنے میں سرگرداں ہے۔ حزبِ اختلاف کے رہنما بلوچستان میں تبدیلی سے خوش ہیں‘ جہاں حکومت کے اتحادی وزیراعلیٰ کو زبردستی نکال کے اتحاد میں دراڑیں ڈال دی گئیں۔ ہوسکتا ہے کہ حکومتی ترجمان بالکل درست ہوں کہ یہ کسی بھی چیز کے بارے میں بہت زیادہ بیزاری کی نفسیاتی علامات ہیں اور پی ٹی آئی جلد ان ہنگامہ خیز حالات سے نکلنے کی راہ نکال لے گی‘ اس لیے کہ متبادل سیاسی انتخاب زیادہ قابلِ قبول نہیں ہو گا لیکن جو لوگ پاکستان کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں وہ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہمیشہ عارضی واقعات نے تاریخی طور پر چند مہینوں کے اندر جمود کو ختم کرکے ایسی زبردست تبدیلیوں کی راہ نکالی جنہیں اقتدار کے گلیاروں میں بہت سے لوگوں نے تصورکے طور پر بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں