"AAC" (space) message & send to 7575

مسلم دنیا فلسطینیوں کو بھلا چکی ہے؟

11 مئی کو مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے کے شہر جنین میں الجزیرہ کی رپورٹر شیرین ابو عقالہ کو اسرائیلی فورسز نے گولی مار کے اس وقت شہیدکر دیا‘ جب وہ پریس کے نشان والی حفاظتی جیکٹ پہنے دیگر صحافیوں کے ہمراہ مظاہرے کی کوریج میں مصروف تھی۔ فائرنگ کے اس واقعے میں فلسطینی صحافی علی السمودی کو بھی پیٹھ میں گولی لگی؛ تاہم اب ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ 51 سالہ امریکی نژاد فلسطینی صحافی شیرین کی موت اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے صحافیوں کی طویل فہرست میں تازہ اضافہ ہے۔ فلسطینی وزارتِ اطلاعات کے مطابق 2000ء سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کم و بیش 45 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ پچھلے سال مئی میں غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مقامی وائس آف الاقصیٰ ریڈیو سٹیشن کے براڈکاسٹر یوسف ابو حسین کو اسرائیلی فضائیہ نے گھر کے اندرنشانہ بنایا تھا۔ اِسی سال 10 سے 21 مئی تک جاری رہنے والی 11 روزہ بمباری میں کم از کم 260 مظلوم فلسطینی شہید کیے گئے تھے۔ مسلسل حملوں کے وسط میں 15 مئی کو اسرائیلی فضائیہ نے الجزیرہ اور دیگر میڈیا تنظیموںکے دفاتر کی عمارتیں بھی تباہ کر دی تھیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں صحافیوں کے قتل کا سلسلہ ابھی تک رکا نہیں۔ اپریل 2018 میں اسرائیلی فوج نے صرف سات دنوں میں دو فلسطینی صحافیوں کوگولی مار کر شہیدکیا تھا۔ 24 سالہ نوجوان احمد ابو حسین کو 13 اپریل کو جبیلہ کے قریب غزہ کی سرحد پر مظاہرے کی کوریج کے دوران پیٹ میں گولی مار کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس سے چند روز قبل7 اپریل کو غزہ میں قائم عین میڈیا ایجنسی کے فوٹوگرافر یاسر مرتضیٰ بھی ناگہاں اسرائیلی فورسز کی گولی لگنے سے شہید ہوئے تھے۔ 30 سالہ مرتضیٰ کو غزہ کے جنوب میں خزاعہ کے احتجاجی مظاہرے کی کوریج کے دوران ''پریس‘‘کے نشان والی نیلی جیکٹ پہننے کے باوجود پیٹ کے نچلے حصے میں گولی ماری گئی تھی۔
2014ء فلسطینی صحافیوں کے لیے سب سے مہلک سال تھا۔ اسرائیل فورسز نے 8 جولائی سے 26 اگست 2014ء کے دوران غزہ پر درجنوں تباہ کن حملے کیے جن میں کم و بیش 2100 معصوم شہری شہید اور 11 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ یہ سال فلسطین میں صحافیوں کے لیے بھی نحس ثابت ہوا۔ فلسطینی وزارتِ اطلاعات کے مطابق 2014ء میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کم از کم 17 صحافی مارے گئے تھے۔ عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل کے احتساب سے گریز کے باعث صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے خلاف اسرائیلی فوجی حملوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ حالیہ دنوں میں شیرین کا قتل انسانی برادری کی سرد مہری اور احتساب کی کمی پر ایک بار پھر روشنی ڈال گیا۔ حسبِ روایت اسرائیل نے فلسطینی حکام کو شیرین کے قتل کی مشترکہ تحقیقات کرنے کی پیشکش کی جسے فلسطینی حکام نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس طرح کی تحقیقات اسرائیل کے داغ دھونے کے مشق کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ گزشتہ دنوں الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے بتایا کہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اسرائیل پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اسرائیلی حکام کے جارحانہ اقدامات کی بات آتی ہے تو عالمی برادری اس قسم کی زیادتیوں کے لیے کسی مؤثرجوابدہی کا نہیں سوچتی۔
یورپی یونین، امریکا اور اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے شیرین کے قتل کی مکمل، آزادنہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن ٹریک ریکاڈ بتاتا ہے کہ عملاً یہ بات خالی خولی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھے گی۔ شیرین مشرق وسطیٰ کی انتہائی قابلِ احترام صحافی تھیں جن کی غیر متزلزل کوریج کے لاکھوں ناظرین معترف تھے، اس لیے ان کی موت کی خبر پوری دنیا میں گونج اٹھی ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ مغربی کنارے میں نئے آبادکاروں کے لیے 4000 سے زیادہ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے شہری آبادیوں پہ مہلک حملوں کے ذریعے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا بے دریغ قتل عام کرکے مقامی لوگوں کو نقل مکانی پہ مجبور کیا۔ فوج کی جانب سے کئی علاقوں میں اصل مکینوں کے مکانات مسمار کرکے سینکڑوں فلسطینیوں کو اپنے آبائی گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ اُس خطے میں اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کی چونکا دینے والی مثالیں ہیں جس پر اُس نے تقریباً 55 سالوں سے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے تین بڑے گروپوں سمیت ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پالیسیاں مقامی فلسطینیوں کی نسل کشی کی بدترین مثال ہیں لیکن ان الزامات کو اسرائیل نے اپنی قانونی حیثیت پر حملہ کہہ کر مسترد کردیا ہے۔ 'اینٹی سیٹلمنٹ واچ ڈاگ گروپ‘، 'پیس ناؤ‘کی بستیوں کی ماہر ہیگیٹ آفران نے کہا ہے کہ فوجی منصوبہ بندی کے ادارے نے گزشتہ دنوں ہونے والی ایک میٹنگ میں 4427 ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ اسرائیلی حکام نے ہیگیٹ کے تبصرے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ نئے آباد کاروں کے لیے تعمیراتی منصوبوں کی سب سے بڑی پیشرفت ہے۔ وائٹ ہاؤس بظاہر تو نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت اور اسے فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی حتمی امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے لیکن عملاً ایسی جارحیت کو روکنے سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر بین الاقوامی برادری نئی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی سمجھتی ہے لیکن اسرائیل کو ان کی تعمیر اور توسیع کو روکنے کے لیے کسی قسم کی ترغیب نہیں دیتی۔ وزیر اعظم نفتالی بینٹ‘ جو کسی زمانے میں یہودی آباد کاروں کی مرکزی تنظیم کے متعصب رہنما تھے‘ امریکا کے دو ریاستی فارمولے کے ناقد اور اب بھی فلسطین کو ریاست کا درجہ دینے کے مخالف ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسرائیل نے اپنے مہربان مربی امریکا کی سرزنش کو پس پشت ڈالتے ہوئے اکتوبر میں یہودی آبادکاروں کے لیے تقریباً 3000 گھروں کی تعمیر کی منظوری دی تھی‘ جس کا ایک حصہ اس علاقے پر مشتمل ہے جو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے درکار ہے۔
مسلم ریاستوں کی جانب سے فلسطینیوں کو فراموش کر دینے کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے امن مذاکرات کا سلسلہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے منقطع ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی فوجیوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد مغربی کنارے میں کم از کم 18 عمارتوں اور بنیادی سہولتوں کے شہری ڈھانچے کو مسمار کر دیا‘ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کم و بیش 1000 فلسطینیوں کو ان علاقوں سے باہر نکال دیا جائے جنہیں اسرائیل نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں فائرنگ زون کے طور پر نامزد کیا تھا۔ صہیونی حقوق گروپ B'Tselem نے کہا کہ مغربی کنارے کے شہر ہیبرون کے جنوب میں شاداب پہاڑیوں کے دیہاتوں میں 12 رہائشی عمارتیں مسمار کی گئی ہیں لیکن مسافریٹا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے سے بہت پہلے، کئی دہائیوں سے اس خطہ کے مستقل مکین ہیں۔ بھیڑ، بکریوںکی گلہ بانی اورصحرائی زراعت پر ان کی زندگیوں کا انحصار ہے لیکن اسرائیلی سپریم کورٹ نے فوج کے حق میں فیصلہ سنا کر نادار مسلم دیہاتیوں پر ظلم کرنے کا لائسنس عطا کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس علاقے کو تربیتی زون قرار دینے کے بعد یہاں کے رہائشی ڈھانچے کو مسمار کر دیا۔ جب اسرائیلی فوج نے اس انہدام پر موقف لینے کی کوشش کی گئی تو اس نے اس پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں 130 سے زائد بستیاں تعمیر کی ہیں جہاں آج تقریباً 5 لاکھ یہودی آباد کاروں کے گھر ہیں، جن کے پاس مستقل اسرائیلی شہریت موجود ہے۔ انہی علاقوں میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی کھلے عام اسرائیلی فوجی حکمرانی میں بے کسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر محدود خود مختاری کا حق تو رکھتی ہے؛ تاہم'سلامتی‘کے معاملات میں وہ اسرائیلی ریاست کے تابع ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے‘ مشرقی یروشلم اور غزہ کے علاوہ ان علاقوں کو مستقبل کی ریاست کا اہم حصہ بنائیں‘ جو اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں ان سے چھین لیے تھے۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کرنے کے اقدام کو مینج کرکے 2007ء میں فلسطینی حریت پسند گروپ حماس کی انتخابات میں کامیابی کو جواز بنا کر مصر کے تعاون سے غزہ کی طویل ناکہ بندی کر دی تھی جس کے ذریعے فلسطینیوں کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی زندگی کواب تک مفلوج کر رکھا ہے۔ مغربی دنیا ٹھنڈے پیٹوں ان اقدامات کو اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم کے جواز کے طور پہ قبول کر لیتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں تسلیم کیا گیا کہ جب کسی قوم کے لیے جائز آئینی و قانونی طریقوں سے اپنا حق پانے کی راہیں مسدود کر دی جائیں تو مجبور لوگ عزت سے جینے کا حق پانے کی خاطر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن مغربی دنیا یوکرینی شہریوں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے مزاحمت کے الگ الگ معیارات رکھتی ہے۔ فلسطینی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی توسیع کو مستقبل کے کسی بھی امن معاہدے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اس زمین کو اپنی آزاد ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں