14 مئی 2022ء کو اُس تنازعِ فلسطین کو چوہتر سال بیت گئے‘ جس میں ہماری تین نسلیں کھپ گئیں۔ جن لوگوں کی آنکھوں نے اسرائیل کی تخلیق کے مظاہر کو دیکھا وہ اسی دَرد کو سینیوں میں لے کر فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ فلسطینی مسلمانوں کی حق رسی کی جدوجہد کرنے والی دوسری نسل بھی بے کسی کے عالم میں تہِ خاک سو گئی اور مسائل کی آگ میں جلنے والی تیسری نسل نے خود کو حالات کے جبر سے مانوس کرکے فلسطینیوں کو بھلا دیا۔ ہماری نوخیز نسلوں کو معلوم نہیں کہ کرۂ ارض کے مسلمانوں کی داخلی تقسیم اور قبلۂ اول پہ یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے محرکات اور اصل ذمہ دار کون ہیں۔ 14 مئی 1948ء کو صہیونی تحریک کے سربراہ ڈیوڈ بین گوریون نے برطانوی ایما پر آدھی رات کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اسی روز امریکی صدر ٹرومین نے نئی عبوری صہیونی گورنمنٹ کو ڈی فیکٹو اتھارٹی کے طور پہ تسلیم کر لیا۔ 31 جنوری 1949ء کو اسی تسلیم کو قانونی توسیع دی گئی۔ بالفور اعلامیہ برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کی طرف سے لیونل والٹر روتھشائلڈ کو لکھا گیا وہ خط تھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست کے لیے برطانوی حکومت کی حمایت کا اعادہ شامل تھا۔ اعلانِ بالفور‘ جس نے فلسطینیوں کی زندگیاں کو لامتناہی رنج و الم سے دوچار کیا‘ نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی صورت میں صہیونی مقاصد کو حقیقت کا روپ دیا۔
15 مئی 1948ء کو برٹش گورنمنٹ نے 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے دروان کیے گئے اُس وعدے کے مطابق‘ فلسطین سے دستبردار ہوکر‘ یہودیوں کی حمایت کے عوض عثمانیوں کے زیر کنٹرول فلسطین میں یہودیوں کے ''قومی گھر‘‘ کے قیام کا عہد نبھایا۔ 1947ء میں فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی تقسیم کے منصوبے پر ووٹنگ میں تمام غیر مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے لاکھوں فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزیں بنا دیا، اسی کے ساتھ 1947ء میں فلسطین جنگ شروع کراکے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین سے بے دخل کردیا گیا۔ بظاہر امریکی کانگرس نے برطانوی حکومت کے صیہونی مقاصد کی تکمیل کے منصوبوں کی مذمت اور فلسطین میں یہودیوں کے لیے ''قومی گھر‘‘ کے وعدے کو بین الاقوامی قانون‘ جنگ کے اتحادیوں کے وعدوں اور ملک کے باشندوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہہ کے مسترد کر دیا لیکن کانگرس کی طرف سے اسرائیلی ریاست کے استرادا کی گونج دراصل مسلمانوں کے دل و دماغ میں بھڑکنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی مینجمنٹ ثابت ہوئی۔ امریکی صدر ٹرومین نے یہودی حکومت کو تسلیم کرکے امریکیوں کو اسرائیل تسلیم کرنے والی پہلی قوم بنا دیا۔ اسرائیل نے فلسطین کی سرکاری زمینوں کو ہتھیانے کے لیے لاوارث جائیداد کے قانون کا بے دریغ استعمال کیا اور وہ تمام غیر رجسٹرڈ اراضی‘ جو عثمانی اور برطانوی قابضین نے چھوڑی تھی‘ کو ''ریاستی‘‘ ملکیت ڈیکلیئرکرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد 14 مئی 1948ء کو پہلی عرب‘ اسرائیل جنگ کو جنم دیا گیا، جو 1949ء میں اسرائیل کی فتح پہ منتج ہوئی۔ اس جنگ میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے علاوہ فلسطین کو 3 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ جس میں اسرائیل، (دریائے اردن کے) مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی شامل تھے۔ اگلے چند سالوں میں مغربی اشرافیہ نے اسرائیل، مصر، اردن اور شام کے درمیان کشیدگی بڑھائی۔ 1956ء کے سویز بحران اور جزیرہ نما سینا پر اسرائیلی حملوں کے خدشہ کے باعث مصر، اردن اور شام نے دفاعی معاہدہ کر لیا۔ جون 1967ء میں، مصری صدر جمال عبدالناصر کی مشتبہ فوجی مشقوں کے ردعمل میں اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کر کے مصری اور شامی فضائی قوت کو تباہ کر دیا۔ اس چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا اور غزہ کی پٹی، اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم اور شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین لیں۔ اقوم متحدہ نے جنگ بندی کرا کے ان علاقوں پہ اسرائیلی تسلط کو دوام دینے میں مدد دی۔ چھ سال بعد یوم کپور جنگ میں مصر اور شام نے کھوئے ہوئے علاقوں کو واپس حاصل کرنے کے ٹریپ میں آ کر بغیر کسی منصوبہ بندی کے اسرائیل سے جنگ چھیڑ دی۔ اس بے مقصد مشق میں اسرائیل کا تو کچھ نہ بگڑا؛ البتہ مصر اور شام معاشی اور دفاعی اعتبار سے خاصے کمزور ہو گئے۔ اس کے باوجود صدر انور السادات نے جنگِ کپورکو مصر کی فتح قرار دے کر اسرائیل سے بات چیت کا جواز بنا لیا۔ جنگ بندی اور امن مذاکرات کے لامتناہی ادوارکے بعد بالآخر 1979ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرکے اسرائیل کو تسلیم کر لیا لیکن فلسطینیوں کی خود مختاری کا سوال پھر بھی حل طلب رہا۔ یہی شرمناک معاہدہ انور السادات کے قتل کا سبب بنا جس کے بعد مصر میں بھڑکنے والی خونریزی تاحال تھم نہیں سکی۔
1987ء میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے لاکھوں فلسطینی پہلی انتفاضہ تحریک برپا کرکے اسرائیلی گورنمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جس کے نتیجہ میں 1993ء کے اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کیلئے مغربی کنارے اور غزہ میں داخلی خود مختاری کا فریم ورک تیار کرکے نئی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے مابین بقائے باہمی کا پیچیدہ راستہ استوار کیا گیا۔ 1995ء میں دوسرے اوسلو معاہدے میں توسیع کرکے ایسی نئی شرائط شامل کی گئیں جو مغربی کنارے کے 6 شہروں اور 450 قصبوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کو لازمی قرار دیتی تھیں لیکن امریکی انتظامیہ عملاً ان شرائط پہ عمل درآمد کرانے سے گریزاں رہی۔ 2000ء میں مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے باعث ''امن عمل‘‘جمود کا شکار رہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے ردعمل میں ستمبر 2000ء میں فلسطینیوں نے دوسری انتفاضہ شروع کر دی جو 2005ء تک جاری رہی۔ ترمیم شدہ اوسلو معاہدے کی رو سے عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے ممانعت کے باوجود اسرائیل نے 2002ء میں مغربی کنارے کے گرد دیوار کی تعمیر شروع کر دی۔ 2013ء میں امریکا نے مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین امن عمل بحال کرانے کیلئے مذاکرات کا سوانگ رچایا؛ تاہم مذاکرات میں اس وقت خلل پڑ گیا جب 2014ء میں فلسطینی اتھارٹی کی حکمران جماعت الفتح نے حریف دھڑے حماس کے ساتھ مل کر فلسطین میں متحدہ حکومت بنا لی۔ حماس 1987ء میں پہلی انتفاضہ کی تحریک سے پیدا ہوئی تھی اور فلسطین کی دو بڑی جماعتوں میں سے ایک تھی۔ 2014ء کے موسم گرما میں فلسطینی علاقوں میں عوامی جھڑپوں نے اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کی جس میں اسرائیل نے غزہ کی شہری آبادیوں پہ بڑی کارروائی کرکے عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا۔ یہ جھڑپیں 73 اسرائیلی ہلاکتوں اور 2251 فلسطینیوں کی شہادتوں کے بعد اگست 2014ء کے آخر میں مصر کی ثالثی سے جنگ بندی معاہدے پہ منتج ہوئیں۔ مارچ تا مئی‘ 2018ء میں غزہ کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر ہفتہ وار مظاہروں کا آغاز کیا؛ اگرچہ مظاہرین پُرامن تھے لیکن اسرائیلی فوج نے گولہ باری کرکے 183 افرادکو ہلاک 6000 سے زائد کو زخمی کیا۔ مئی 2018ء میں حماس اور اسرائیلی فورسز کے مابین دوبارہ جنگ چھڑگئی جسے اسرائیل نے 2014ء کے بعد تشدد کا بدترین دور بنا دیا۔ صدر ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کی ترجیح کے طور پر اسرائیل‘ فلسطین معاہدے کے حصول کو ہدف قرار دیا لیکن اسی سال‘ 2018ء میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر کے اس ایشو کو مزید بھڑکا دیا۔ اگست 2020ء میں متحدہ عرب امارات اور پھر بحرین نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کیا۔ فلسطینی رہنما محمود عباس اور حماس نے ''ابرہیمی معاہدے‘‘ کو مسترد کرکے تیسرے انتفادہ کی شروعات کی۔ ''ابراہم ایکارڈ‘‘ کے ذریعے مشرق وسطیٰ پہ اسرائیلی بالادستی قائم کرنے کے بعد امریکا کو اب اسرائیل کی سلامتی اور اسرائیل اور فلسطین کے مابین پائیدار معاہدے کے حصول میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔