"AAC" (space) message & send to 7575

رودادِ سیاست

معروف صحافی نواز رضا کے مضامین پہ مشتمل ''رودادِ سیاست‘‘ اس وقت میرے زیرِمطالعہ ہے۔ تین جلدوں کی اس کتاب میں مصنف نے کم و بیش تین دہائیوں پہ محیط قومی سیاست کے نشیب و فراز کا احاطہ کیا ہے۔ یہ روایتی کالموں یا تجزیات کا مجموعہ نہیں جن میں سیاسی نظام میں کارفرما عوامل اور ادارہ جاتی نظام کے تحت ہونے والے فیصلوں کے قومی مستقبل پہ مرتب ہونے والے اثرات کی تحلیل و تفہیم کی جاتی ہے بلکہ یہ روز مرہ سیاسی واقعات کا ایسا سرسری مشاہدہ ہے جنہیں مصنف نے قریب سے دیکھا بلکہ بعض اوقات ان معاملات کا خود حصہ بھی بنے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز رضا صحافت کے جس مکتبِ فکر سے وابستہ رہے‘ ان کی تحریریں اسی زاویۂ نگاہ سے واقعات کی توضیح کرتی ہیں؛ تاہم آپ ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن ان کی پیشہ ورانہ مہارت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں صحافتی تنظیمیں دو حصوں میں بٹ گئی تھیں۔ منہاج برنا اور نثار عثمانی کی قیادت میں بائیں بازو کے صحافیوں نے اپنے قلم کو جمہوری آزدایوں کی بحالی کیلئے استعمال کرنے کی پاداش میں ملازمتوں سے برخاستگی اور قید وبند کی صعوبتیں جھلیں جبکہ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت کے ہاتھوں دکھ بھوگنے والے دائیں بازو کے صحافیوں نے صلاح الدین شہید(تکبیر)، مجید نظامی اور صلاح الدین صدیقی(مشرق لاہور) کی قیادت میں ضیاء الحق کی آمریت کی حمایت میں عافیت تلاش کرلی لیکن پھر وقت کی چند کروٹوں کے بعد ملکی فضائوں نے وہ ماحول بھی دیکھا جس میں جمہوری آزادیوں کیلئے لازوال قربانیاں دینے والے بائیں بازو کے صحافی اپنے غرورِ عشق کے بانکپن کو ترک کرکے مشرف آمریت کے دائیں جانب آ ٹھہرے اورمذہبی پس منظر رکھنے والی دائیں بازو کی صحافتی تنظیمیں مشرف کی سیکولر آمریت کے خلاف مزاحمت پہ کمر بستہ ہو گئیں۔ نوازرضا اسی جدلیاتی پس منظر اور انہی سیاسی تغیرات کی پیدوار ہیں۔ ان کی تحریروں میں اس کشمکش کا خروش صاف دکھائی دیتا ہے۔
کتاب کی دوسری جلد پہ لکھے گئے تبصرے میں عرفان صدیقی ان کی صحافتی ثقاہت کے بارے میں لکھتے ہیں ''نواز رضا پختہ کار صحافت کا زندہ نمونہ ہیں، اپنے پیشے سے سچی لگن اور دلِ بے نیاز رکھنے کے باعث وہ اب دبستان کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے‘ رپورٹنگ سے کالم نگاری کی طرف آنے والے صحافی اچھے کالم نویس بنتے ہیں، وہ ہماری طرح حکایتِ گل ولالہ کے بجائے سیاسی مرکبات پہ نگاہ رکھتے ہیں، معاملات کی ٹوہ لگاتے اور خبریت کے جوہر کو برقرار رکھتے ہوئے کالم لکھتے ہیں‘‘۔ نواز رضا اپنی تحریروں میں دائیں بازو کے سیاستدانوں خاص طور پر نوازشریف، چودھری نثار علی خان، جاوید ہاشمی اورمولانا فضل الرحمن سے نفسیاتی قربت کا لطف لیتے نظر آتے ہیں لیکن ناگزیر پیشہ ورانہ تعلقات کے باوجود بائیں بازو کے آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے بارے ان کے تاثرات تلخ ہو جاتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تحریروں کا محور(جیسا کہ کتاب کے ابتدائیے میں انہوں نے خود تسلیم کیا)چودھری نثار اور نوازشریف کی شخصیت سازی رہی لیکن بعدازاں ان دونوں کے مابین پڑنے والی کھنڈت نے ان کے صحافتی ادراک کو متزلزل کر دیا، جس کی نشاندہی عرفان صدیقی کچھ یوں کرتے ہیں ''برسبیل تذکرہ‘ نواز رضا بیک وقت میاں نواز شریف اور چودھری نثار کے قتیل ہیں، دونوں نواز رضا کے عشق کے قائل ہیں، جب تک نوازشریف اور چودھری نثار کی رفاقت قائم تھی‘ ان کو کوئی مشکل نہ تھی لیکن جب سے دونوں کی راہیں جدا ہوئیں‘ یہ عجیب الجھن میں ہیں‘‘۔
مولانا فضل الرحمن سے ان کے عرض و نیاز کا عالم یہ تھا ''مولانا فضل الرحمن مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں، وہ الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرتے ہیں، جملہ بازی میں کوئی انہیں شکست نہیں دے سکتا، شگفتہ بیانی اور بزلہ سنجی ان کا طرۂ امتیاز ہے، برجستہ جواب دینے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں‘‘ لیکن دوسری جانب ''مینڈھا سائیں‘‘ میں فرماتے ہیں ''جب یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ابتدائی ایام میں وزیراعظم ہائوس میں ایک انٹرویو کے دوران جب میرے تعارف کا مرحلہ آیا تو انہوں نے پُرجوش انداز میں مصافحہ کرتے ہوئے کہا ''آپ تو ہمارے جیل کے ساتھی ہیں‘‘۔ اس طرح انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے پراناجانتے ہیں، وہ کہتے بھی ٹھیک تھے، میں جاوید ہاشمی سے ملاقات کیلئے جیل جاتا تو وہ یوسف رضا گیلانی کو بھی ملاقاتیوں کے کمرے میں بلوا لیتے، وہیں گیلانی صاحب سے بھی ملاقات ہو جاتی‘‘۔ بلاشبہ ان کے مضامین میں واقعات کی تمثیل کے علاوہ پڑھنے والوں کو ملکی اوربین الاقوامی سطح کی وقیع معلومات بھی ملتی ہے۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں ان کے گداز تبصرے نہایت دل کشش اور مسلم لیگ نواز سے ان کی لازوال وابستگی کی کلاسیک مثال ہیں۔ لکھتے ہیں ''عمران خان کا نیا پاکستان کیا قائم ہوا کہ آئے روز وزرا کی گوہر افشانیوں نے پورے ملک میں تحریک انصاف کے ''نیا پاکستان‘‘ کے نعرے کو مذاق بنا کے رکھ دیا۔ پچھلے پندرہ روز میں اوپر نیچے ایسے واقعات ہوئے جو نئے پاکستان کی، نئی نویلی، حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو اسی انتظار میں تھا؛ چنانچہ اسے وزراء کی گوہر افشانیوں نے خوف موقع فراہم کیا، سب سے پہلے تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی کے رکن عمران شاہ کی وڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی جس میں اُنہیں ایک بزرگ شہری پہ بلاوجہ تھپڑوں کی بارش کرتے دکھایا گیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے رکن اسمبلی کی اس حرکت کا نوٹس لے کر معاملے پہ مٹی ڈالنے کی کوشش کی لیکن عمران شاہ کے تھپڑوں کی گونج جب سپریم کورٹ میں سنائی دی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس معاملے پہ مٹی نہ ڈالنے دی‘‘۔ نرم خُو نواز رضا کی گداز تحریریں تندی و تلخی سے عاری ہیں، وہ سخت بات بھی نرم ترین الفاظ میں لکھ لیتے ہیں لیکن جونہی پیپلزپارٹی کی قیادت کا ذکر آئے‘ ان کا تنقیدی شعور غیر ہمدردانہ ہو جاتا ہے۔ نواز شریف سے آصف زرداری کی تاریخی ملاقات کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں ''رائیونڈ ‘جاتی امرا میں آصف زرداری میاں نوازشریف کی طرف سے دی گئی ضیافت سے فارغ ہو کر مخاطب ہوئے ''میاں صاحب ججوں کی بحالی سے پہلے ہمیں پرویز مشرف کو صدرات سے ہٹا دینا چاہئے، اس کے چوبیس گھنٹوں بعد جج بحال کر دیے جائیں گے، اگر مسلم لیگ تعاون کرے تو یہ کام دنوں میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔ نوازشریف نے استفسار کیا: یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہو گا؟ تو زرداری صاحب نے یقین دلایا: میں نے تمام سٹیک ہولڈر سمیت ان قوتوں سے بھی بات کر لی جو پرویز مشرف کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ انہوں نے نوازشریف سے کہا کہ آپ اپنی جماعت کے لیڈروں سے مشاورت کر لیں جس پہ میاں صاحب نے کہا ''آپ بھی اپنے لوگوں سے مشاورت کر لیں‘‘۔اس موقع پہ آصف علی زرداری نے اپنے لوگوں بارے جو کلمات کہے‘ وہ ضبطِ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے، یہی وہ الفاظ ہیں جن کا بارہا خواجہ آصف پارلیمنٹ میں ذکر کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کو جواب دینے کی جرأت نہیں ہوئی‘‘۔ اسی تحریر میں آگے جا کر چودھری نثار کی آفاقی دانائی کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا۔ آصف زرداری کے چلے جانے کے بعد چودھری نثارعلی خان نے نوازشریف سے کہا ''مبارک ہو! آپ کے اگلے صدر آصف علی زرداری ہوں گے‘‘ چودھری نثار جہاندیدہ سیاسی شخصیت ہیں‘ وہ سیاسی نجومی یا پنڈت ہونے کے دعویدار تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت دی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی تحریروں میںچوہدری ظہور الٰہی، اصغرخان، جہانگیربدر اور حاجی عدیل کے علاوہ مریم نواز کی سیاسی بصیرت پہ بھی سیرحاصل تبصرے کیے ہیں۔ اگرچہ تحریریںپیشہ ورانہ صحافت کے ارتقا سے نسبتِ معکوس رکھتی ہیں لیکن بہرحال ہماری صحافت کی نظریاتی گروہ بندی سے ان کی ذہنی وابستگی حب الوطنی کی قابلِ قدر مثال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں