"AAC" (space) message & send to 7575

جمہوری مینڈیٹ اور شخصی حاکمیت

2014ء کے لانگ مارچ اور پھر طویل دھرنے سے شروع ہونے والی وہ پولرائزیشن ابھی تک تھمی نہیں‘ جس نے معاشی مشکلات کے دلدل میں اتارنے کے علاوہ مملکت کو ایسی ہنگامہ خیزی کے حوالے کیا جس کا مداوا ہو نہیں پا رہا۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد زخم خوردہ سیاسی جماعتوں کی کہنہ مشق لیڈر شپ نے برسرزمین حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے طوعاً وکرہاً انتخابی نتائج کو قبول کرکے اسمبلیوں میں بیٹھنے کی ہامی بھر لی لیکن اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عمران خان کو آئینی طریقے سے ہٹانے کے لیے 8 مارچ کو پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد سے لے کر 9 اپریل کو ووٹنگ تک‘ پی ٹی آئی کی قیادت نے ڈرامائی انداز میںسازشی تھیوریوں کا سوانگ رچا کر جس طرح معاشی مسائل میں الجھی مملکت کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیلا‘ اس نے پوری دنیاکو ششدر کر دیا۔ یہ دھچکا دراصل ان کے جمہوریت پہ یقین اور سیاسی شعور کا امتحان تھا جس میں وہ بہرحال کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہیں شاید ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مملکت کسی فردِ واحد یا خاندان کی نجی سلطنت نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کی اجتماعی ملکیت ہے‘ جسے فردِ واحد کی مرضی پہ نہیں بلکہ عوامی خواہشات کے مظہر متفقہ آئینی نظام کے تحت چلایا جا سکتا ہے لیکن وہ شاید کسی مغل بادشاہ کی طرح اسے اپنی کھوئی ہوئی میراث سمجھ کے واپس لینے کی جدوجہد میں الجھ رہے ہیں؛ چنانچہ ایک طرف نئی حکومت قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے تو دوسری جانب سابق وزیر اعظم لانگ مارچ کرکے حکومتی جواز کو چیلنج کر رہے ہیں۔
قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرز پہ اگر کوئی فرد یا گروہ حقِ حاکمیت کو طاقت اور تشدد کے ہتھیاروں سے پانے کی کوشش کرے گا تو اس کا یہ عمل نہ صرف مملکت کیلئے مضرات کا حامل ہو گا بلکہ خود اس کی ذات اور سیاست کیلئے بھی تباہ کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس عہدِ جدید کی قومی مملکتوں کے مربوط عالمی نظام میں جہاں تقسیم ِ اختیارات کا آئینی ڈھانچہ مقدم ہو اور جہاں رائے عامہ ہی حکمرانوں کے عزل ونصب اور سیاسی تضادات کو ہموار کرنے کی حقیقی محرک ہو‘ وہاں اقتدار کی سیاست کے اس بے رحم کھیل میں اونچ نیچ اور دھوپ چھاؤں کو بسر وچشم قبول کرکے آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے۔ اس کھیل میں کئی لوگوں نے اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنی جانیں بھی گنوا دیں لیکن وہ قومی وجود اور مسلمہ سیاسی اقدار سے روگرانی کی جسارت نہیں کر سکے۔1952ء میںمسلم لیگ نے لیاقت علی خان کے بعد حسین شہید سہرودی جیسے ہمہ جہت لیڈرکو کھو دیا لیکن ریاست کے خلاف ردعمل نہیں دیا۔ انہی تغیرات میں مسلم لیگ جیسی پاکستان کی خالق جماعت اپنا وجود تک گنوا بیٹھی لیکن مملکت کے اقتدارِ اعلیٰ پہ مستقل دعویٰ نہیں اٹھایا۔ پیپلزپارٹی نے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اور بعد میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا دکھ جھیلنے کے باوجود ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر سیاست میں دوام پایا۔ آج وہ سندھ جیسے دوسرے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ اور وفاقی حکومت میں وزارتِ خارجہ جیسے اہم منصب لیے بیٹھی ہے۔ اس کے برعکس شاہنواز اورمرتضیٰ بھٹو نے لشکرکشی کے ذریعے اپنی ''کھوئی ہوئی سلطنت‘‘کو واپس پانے کے خبط میں سب کچھ گنوا دیا۔
مسلم لیگ نے نوازشریف کی خاندان سمیت جلاوطنی اور لامحدود مقدمات کی زنجیروں کے باوجود ملکی نظام سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھ کے چوتھی بار حصولِ اقتدار کی راہیں کشادہ بنائیں۔ اگر وہ بھی مملکت کو خاندانی سلطنت سمجھ کے آمادہ بہ جنگ ہو جاتی تو بہرصورت مٹ جاتی لیکن مسلم لیگ نواز نے سیاسی عمل سے وابستہ رہ کر عوامی مینڈیٹ پانے کی کوشش کی اور اپنی اور مملکت کی سلامتی ممکن بنائی۔ پرویز مشرف جیسے کمانڈو نے عدالت سے موت کی سزا پانے کے الرغم مملکت کے خلاف ایک لفظ تک بولنے کی جسارت نہ کی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقتدار کی سیاست کے اس کھیل میں سب سے اہم ریاست ہے‘ اس لیے وہ ہر حال میں اپنی مملکت کے ساتھ رسم وفا نبھاتے رہے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر عمران خان اپنی حکومت کی پونے چار سالہ معاشی و سیاسی ناکامیوں سے سیکھنے اور سیاسی تنہائی سے نکلنے کی خاطر مفاہمت کی راہ اپنانے کے بجائے وفاقی حکومت پہ لشکر کشی کی بے مقصد مہم میں مشغول ہو کر خود اپنی سیاست کے اختتام کے اسباب مہیا کر رہے ہیں۔ افسوس کہ جس طرح اقتدار میں رہتے ہوئے وہ کوئی قابلِ عمل معاشی پالیسی اور مؤثر سیاسی حکمت عملی کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے‘ اُسی طرح سیاسی آشوب سے نکلنے کے لیے بھی ان کے پاس کوئی واضح نصب العین دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے الگ کیے جانے کے خالص آئینی عمل کوامریکی سازش قرار دے کر جمہوری طریقۂ کارکو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی‘ جسے عدالت نے مداخلت کر کے زائل کیا، پھر جذبات سے مغلوب ہو کر‘ بغیر سوچے سمجھے اسمبلیوں سے مستعفی ہو کرسسٹم کو ڈی ریل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اِس سے بھی کچھ نہ بنا تو اداروں پہ الزام تراشی کر کے اپنے لیے نئے مصائب چُن لیے، اور پھر جب مضمرات کا پتا چلا تو دل پہ کوئی بوجھ لیے بغیرپسپائی اختیار کر لی۔ وہ مضطرب و پریشان انسان کی طرح جمہوریت کو ایک ہاتھ سے پرے دھکیلتے اور ناآموختہ عمل سمجھ کے دوسرے ہاتھ سے سینے سے لگاتے ہیں۔ وہ ایک طرف تو اپنی پارٹی کے منحرف اراکین کو غدار قرار دے کر انہیں دھتکارتے ہیں تو دوسری جانب ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہنے میں بھی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے تیس ممبران کا گروپ فلورکراس کرکے پی ٹی آئی جوائن کرنے کو تیار تھا لیکن انہیں روک دیا گیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نواز لیگ کی صفِ اول کی لیڈر شپ کو سزائیں دلوا کے سیاست سے آئوٹ کرنے کے حامی تھے لیکن انہیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ کچھ ایسی ہی ذہنی الجھنوں نے انہیں قول و فعل کے تضادات کا شکار بنا دیا ہے۔ اب وہ خیبر پختونخوا میں مورچہ زن‘ وفاقی حکومت کے خلاف مہم جوئی کرکے وفاق اور اکائیوں کے درمیان تفریق کا سبب بن رہے ہیں۔
25 مئی کو ان کے حامیوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون اور بلیو ایریا میں پُرتشدد مظاہرے کرکے جمہوری سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ عمران خان نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں اُس پیپلزپارٹی کو چین سے بیٹھنے کی مہلت نہ دی جو اگر اپنا کندھا پیش نہ کرتی تو ان کا حکومت میں رہنا ممکن نہ ہوتا لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کے بجائے انہیں مقدمات میں الجھا کے کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنا کر عارضی نفع حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی اور طویل المدت سیاسی مفادات کو ضائع کر دیا گیا۔ اسی طرح اُن تمام چھوٹی جماعتوں‘ جن کے تعاون کی بدولت ان کی پارٹی وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہوئی‘ سے عہد و پیماں نبھائے نہ جا سکے‘ نہ ہی انہیں کبھی اپنائیت یا ہمدردی کا احساس دلایا گیا حتیٰ کہ وہ شرکت اقتدار کا احساس پانے میں بھی ناکام رہیں۔ اگر چاہتے تو تھوڑی سی لچک سے کام لے کر مسلم لیگ نواز کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کو بھی انگیج کرکے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کو شاندار بنا سکتے تھے لیکن مطلق العنان بادشاہوں کی مانند اپنی تلخ نوائی سے تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی عناصر کو مغلوب رکھنے میں لذت محسوس کی گئی۔ بلاشبہ خان صاحب ابھی تک تاریخی شعور سے نابلد ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ تاریخ کس طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے‘ اس لیے وہ اجتماعی ذہانت کو بروئے کار لانے کے بجائے من مانی کرنے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ ایک رومی حکایت ہے کہ تمام رحمتوں سے بڑی رحمت اچھی قسمت ہے اور اس کے بعد اچھا مشورہ‘ جو کسی طرح بھی کم اہم نہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے جو اچھی قسمت کی بدولت حاصل ہوا ہو۔ اگر وہ چاہتے تو سمجھوتے یا مفاہمت کو فتح پہ ترجیح دے سکتے تھے لیکن انہوں نے بڑے بڑے دعووں کی گونج میں فرضی حقائق کے جال میں پھنسنے کی راہ چن لی۔ ان لوگوں کے الفاظ کتنے ٹھیک ہوتے ہیں جو کوئی دعویٰ کیے بغیر خاموشی سے اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا ''جمہوری سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں