"AAC" (space) message & send to 7575

اردو نعت کا تعظیمی بیانیہ …(1)

ہمارے ہاں اردو شاعری اور ادب میں تنقید کا رجحان اگرچہ نیا نہیں لیکن اس میں تاحال وہ گہرائی اور وسعت پیدا نہیں ہو سکی جو مغربی محققین کے ہاں ملتی ہے بلکہ ابھی ہم علمی تنقیدکے بنیادی تقاضے یعنی غیرجانبداری کواپنانے کی پوری صلاحیت نہیں پا سکے جو محقق کو کسی نتیجے تک پہنچانے کا ابتدائی محرک ہے۔ عام طور پہ تاریخ، مذہب، فلسفہ اور شعر و ادب جیسے امور پہ تحقیقی کام کرنے والے خالی الذہن نہیں ہوتے بلکہ وہ پہلے اپنے دماغ میں ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں اور پھر اسی مقدمے کو بنیاد بنا کر آسمانی صحیفوں، تاریخی کتب اور شعرا کے کلام اور معاصر ادب سے دلائل ڈھونڈتے ہی جس کی بنیاد پر وہ مفروضہ صحیح یا غلط ثابت ہوتا ہے۔ وِل ڈیورنٹ نے کہا تھا کہ اس دنیا میں کوئی ایسی مہمل بات باقی نہیں بچی جو فلسفیوں، شاعروں اور ادیبوں نے نہ کہی ہو‘ اس لیے فلسفہ و ادب میں ہر کسی کو اپنی ضرورت کا مواد مل جاتا ہے۔ ڈاکٹرجمیل جالبی کے مطابق: کسی فن پارے کے بارے میں رائے، کوئی نقطۂ نظر، کوئی وضاحت، مختلف فن پاروں سے اس کا مقابلہ اور ان کے باہمی فرق کا اظہار'تنقید‘ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زیرِ بحث موضوعات پہ غیرجانبداری سے سوچنے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن زیادہ ترمشرقی محققین کے لیے ذاتی تعصبات، مذہبی عقائد اور سیاسی و نظریاتی وابستگیوں سے دامن چھڑانا ممکن نہیں ہو پاتا خاص طور پر وہ شعرا و ادیب‘ جو عام طور پر اپنے مقاصد پہ تنقید برادشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘ وہ فکری جدلیات کے ارتقائی عمل سے خود کو ہم آہنگ نہیں رکھ پاتے، حالانکہ ہر خیال اور ہر عمل وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن اہلِ ادب اس محاسبے میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے بلکہ قدیم یونان کے شعرا تو دیوتائوں کی ذات میں عیوب کی نشاندہی اور انہیں درست راہ عمل سمجھانا اپنا فرض سمجھتے تھے، جیسے ہومر نے اپنی نظموں میں دیوتائوں کو بُرے کام کرتے اور انجامِ بد سے دوچار ہوتے دکھایا۔
اس وقت میرے پیش نظر مایہ ناز نقاد ڈاکٹرطارق ہاشمی کے گرانقدرتنقیدی کام پر مشتمل کتاب ''اردو نعت میں تعظیمی بیانیہ‘‘ ہے، جس میں اردو نعت میں نعت کو دنیاوی شہنشاؤں کی عظمت و سطوت کے استعاروں میں بیان کرنے، طبقاتی مقام و مراتب میں منعکس کرنے اور صنفی عشق و محبت میں بروئے کار آنے والی اصطلاحوں میں شانِ رسالت بیان کرنے کو حضور کون و مکانﷺ کے اعلیٰ ترین مقام سے فروتر کہہ کر نعت کے لیے کچھ نادر و منفرد اصطلاحات کی ضرورت پہ زور دیا ہے۔ طارق ہاشمی لکھتے ہیں ''اردو نعت میں تشکیل دیے گئے تعظیمی بیانیے کی بنیاد جس تصورِ عظمت پر ہے، اس کے کچھ ایسے نفسیاتی اسباب کا ہونا بعیدازقیاس نہیں کہ بہت سے ایسے شعر پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں یہ واضح محسوس ہوتا ہے کی تخلیق کار اس عظمت کا پوری طرح ادارک نہیں کر سکا جو اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ کو عطا کی ہوئی ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے ماحول خصوصاً جہاں پیداواری اقدار کی اہمیت مسلم ہو چکی ہو‘ وہاں عظمت کا تصور ان طبقات کے ذریعے متعین ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں فرمانروائی کا اختیار ہو۔ اشرافیہ طبقے کی بودوباش اور رویوں سے انسانی لاشعور کے پردے پر عظمت کا جو تصور ثبت ہوا‘ وہ اس طبقے کی تشکیل کردہ اقدار اور مناصب ہی سے تعلق رکھتا ہے، یعنی انسانوں میں سب سے اشرف وہی ہے جو بادشاہ یا سلطان ہے اور حقیر وہ افراد ہیں جو اس کے زیر نگیں۔ طبقۂ اشرافیہ کی تشکیل کردہ اس نفسیات کے اثرات مذہب و تصوف کے ماحول میں بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں؛ چنانچہ اولیا اور صُوفیہ کی عظمت بیان کرنے کے لیے انہیں سلطان اور شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اردو نعت کے تعظیمی بیانیے پر غور کریں تو ہمارے بیشتر نعت گو شعرا عظمتِ رسولﷺ کے حقیقی ادراک اور شعور سے قدرے فاصلے پر نظر آتے ہیں اور اسی بُعد کی بنیاد پر وہ آپﷺ کی ہستی کو دنیاوی مناصب ومقامات پہ متمکن دیکھنے لگے جن کا تعلق ملوکیت کی تہذیب سے ہے‘‘۔ اس کتاب کا مرکزی خیال اسی متذکرہ پیرا گراف پہ محمول ہے کہ اکثر و بیشتر نعت گو شعرا شانِ پیغمبرﷺ کے حقیقی ادارک سے ناواقف ہونے کی وجہ سے تعریف و ستائش اور عظمت و سطوت کی مروجہ اصطلاحات میں نعت بیان کرتے ہیں؛ تاہم طارق ہاشمی اس حقیقی ادراک اور شانِ نبوت کے لیے مختص اُن مقدس اصطلاحات کی نشاندہی نہیں کر سکے‘ جو ان کے بقول شانِ نبوی بیان کرنے لیے موزوں ہیں۔
اس کتاب پہ سب سے بامعنی تبصرہ ناصرعباس نیّر نے لکھا ہے۔ حسبِ معمول انہوں نے اس کا جائزہ، اپنے نظام فکر کے بنیادی موضوع یعنی مذہبی عقائد اور فنونِ لطیفہ کے تناظر میں لیتے ہوئے نہایت محتاط الفاط میں نعت کے تعظیمی بیانیے کے مرکزی خیال کو ردّ کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ''کیا مذہبی عقائد اور فنونِ لطیفہ کی مجموعی شعریات میں کوئی بنیادی تضاد ہے؟پھر خود ہی جواب دیا کہ اس کا کوئی ایک اور قطعی جواب مشکل ہے، اس لیے کہ اس سوال کا ایک رخ تاریخی اور دوسرا علمیاتی ہے۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو قدیم اور کلاسیکی زمانوں میں فنونِ لطیفہ میں مذہب کی شمولیت ہوا کرتی تھی اور مذہب اپنے اظہار کے لیے فنونِ لطیفہ کو بروئے کار لاتے تھے۔ دوسری طرف علمیاتی رخ سے دیکھیں تو مذہب الوہی اور فنونِ لطیفہ بشری ہیں۔ مذہب کی اقدار روحانی، اخلاقی ومابعدالطبیعیاتی ہیں جبکہ فنونِ لطیفہ کی اقدار اول جمالیاتی اور بعد میں کچھ اور ہیں۔ قدیم زمانوں میں اس فرق کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ جدید عہد میں اس فرق پر باقاعدہ زور دیا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں جدیدیت کے ضمن میں ردعمل پایا جاتا ہے ان میں فنونِ لطیفہ کو مذہب کے تابع کرنے، مذہب کی بنیاد پر یکسر مسترد کرنے یا پھر دونوں میں ایسا امتزاج پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے جو ہمیں قدیم کلاسیکی عہد کی یاد دلاتی ہے‘‘۔ ناصر عباس نیّر کا تجزیہ بالواسطہ طور پر نعت کو فنونِ لطیفہ کی باقاعدہ صنف تسلیم کرنے کی نفی کرتا ہے۔ آگے اپنی پیش دستی کے مضمرات کو کم کرنے کی خاطر ناصر عباس لکھتے ہیں ''ڈاکٹر طارق ہاشمی نے 'اردو لغت کے تعظیمی بیانیہ‘ میں اور دیگر مضامین میں بنیادی طور پہ اسی سوال کو سامنے رکھا ہے لیکن ''بااندازِ دیگر‘‘۔ ہاشمی صاحب نے کتاب کے پہلے موضوع میں خدا سے شعرء کے شکوے ہی کو موضوع بنایا۔ ان کی وضاحت سے ظاہر ہے کہ خدا سے شکوے کا آغاز غالب(کے دیوان کے پہلے شعر)سے ہوتا ہے جو بجا طور پہ اردو کے پہلے جدید شاعر ہیں؛ تاہم آگے وہ اس بات کے حامی نظر آتے ہیں کہ مذہب اور فنونِ لطیفہ میں کسی زمانے میں بھی تضاد نہیں رہا۔ کتاب کا عنوان بننے والا مضمون''اردو نعت کا تعظیمی بیانیہ‘‘ اردو نعت کی تنقید کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس میں مدحتِ رسولﷺ کے لیے وضع کیے گئے تعظیمی بیانیے کی ردّ تشکیل کی گئی ہے، یعنی اس کے مطابق نعت میں تعظیم و عظمت کے معنوں میں استعمال کیے جانے والے الفاظ دراصل ملوکیت کی فرہنگ سے ماخوذ ہیں اور ان کا اوصافِ نبوی سے کوئی تعلق نہیں۔ شعرا نے عقیدت و عشق میں عظمت کا جو بیانیہ تشکیل دیا‘ وہ حقیقی نہیں،(یہاں ناصر عباس نیّر نے یہ نہیں بتایا کہ پھرحقیقی کون سا ہے) سماجی و عمرانی اثرات کا حامل ہے۔ ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں کہ یہاں یہ سوال ہماری توجہ چاہتا ہے کہ آخر نعت گو شعرا نے عظمتِ پیغمبر کا تصور دنیوی شاہوں کی شوکت کے تحت کیوں لیا، آخر مسندِ شاہی ہی کیوں عظمت کا استعارہ بنتی چلی آ رہی ہے؟اس کا تعلق مسلمان جمہور کی اجتماعی نفسیات سے ہو سکتا ہے۔ ہاشمی صاحب بجا طور پہ کہتے ہیں کہ صُوفیہ کے سلاسل میں بھی یہی ملوکیت پسندی دکھائی دیتی ہے، ان کے لیے مدحیہ وتعظیمی جذبات کا اظہار شاہ و سلطان کے الفاظ میں کیا جاتا ہے حالانکہ انبیاء کرام اور بعدازاں صُوفیہ، مساواتِ انسانی کے علمبردار رہے ہیں، ملوکیت اور باشاہت انسان کو شاہ و گدا میں تقسیم کرکے عام انسان کی تحقیر کرتی ہے، یہ ایک اور طرح کی استعماریت ہے۔ یہ مضمون نعت گو شعرکو خصوصاً اور عام قارئین کو عموماً پڑھنا چاہئے‘‘۔
امر واقع یہ ہے کہ زبان کا وجود ان مادی وظائف کے متواتر مشاہدے سے نمودار ہوا جو انسانی زندگی کے روزہ مرہ تجربات کا حصہ بنے، اس لیے ہر زبان میں بنیادی اصطلاحات زندگی کے قریب ترین اشیاء اور روزہ مرہ معمولات سے متشکل ہوئیں، جیسے جب ہم کہتے ہیں کہ میرا دل بھر گیا، تو یہ جملہ باشعور اور گنوار انسان کو یکساں سمجھ آتا ہے، کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جس طرح پانی کا گلاس بھر جائے تو اس میں مزید کچھ لینے کی گنجائش نہیں رہتی اور وہ ابل پڑتا ہے، حالانکہ دل نہ پیالہ ہے نہ اس میں پانی بھر سکتا ہے لیکن پھر بھی دل بھر جانے کا گداز مفہوم ہمیں گلاس یا پیالے کے لبریز ہونے کے مادی مظہر سے ملا یعنی بار بار ہمارے مشاہدہ کا حصہ بننے والے وظائف اور زندگی کے مسند تجربات کا نچوڑ ہماری زبان کو اصطلاحیں فراہم کرتے رہے۔ اسی لفظ نچوڑ ہی پر غور کر لیں، عملاً یہ کسی چیز سے بزور کچھ مائع مواد کو نکلنے کا عمل ہے جسے ہم اسی معنی میں زندگی کے غیرمرئی احساسات پہ منطبق کرکے ابلاغ کی مستقل اصطلاح بنا چکے ہیں اور جوں جوں ہمارے اجتماعی مشاہدے اور تجربات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا‘ یہ استعارے، تشبیہات اور کنایے ہمارا ذخیرۂ الفاظ بڑھاتے گئے جس کی وساطت سے انسان اپنی اُن کیفیات اور احساسات کو متشکل کرکے باہم ایک دوسرے کو منتقل کرنے کے قابل ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں