انسانی مشاہدات، محسوسات، تجربات اوراحساسات مجتمع ہو کر بالآخر علم کی صورت میں ڈھلتے گئے، یوں زندگی کے مقاصد کیلئے اس چیز کو کافی سمجھا گیا کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی مانیں جن کے متعلق مختلف لوگ ایک جیسی شہادت دیں۔ گویا حقیقت اجتماعی طور پہ مربوط احساسات کا نام ہے؛ چنانچہ جب بھی انسان اپنے جذبات اور احساسات کا اظہارکرنا چاہے گا‘ وہ انہی اصطلاحات کے استعمال پہ مجبور ہو گا جن کے ذریعے ابلاغ ممکن ہوتا ہے۔ خود خدا پاک نے بھی اپنے اُس عربی زبان کو ابلاغ کا وسیلہ بنایا جسے عام بدو بھی سمجھ سکتا تھا۔ فرمایا''ہم نے سمجھنے کیلئے قرآن کو آسان بنا دیا‘‘، یعنی مروجہ زبان ہی ٹول آف انڈرسٹینڈنگ ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بھی اصطلاح اصلاً ادنیٰ و اعلیٰ نہیں لیکن انسان نے انہیں ادنیٰ و اعلیٰ مقاصد کیلئے استعمال کرکے خود ہی اسے مقدس اور ناگوار میں منقسم کرلیا۔ اسی طرح جن اصطلاحات کو آج ہم استعماری یا شاہی حوالوں سے پہچانتے ہیں‘ یہ بھی اصلاً الوہی تھیں۔ بادشاہ، حاکم، مولیٰ اور مالک کے مفاہیم پہ مبنی تمام الفاظ سب سے پہلے دیوتائوں اور اَن دیکھے خدا کیلئے استعمال ہوئے۔ ہماری معلوم تاریخ میں پہلی بار بادشاہ کا لفظ نینوا کے حمورابی نے اپنے لیے استعمال کیا یعنی شہنشاہ کی اصطلاح حمورابی کی قوت کی مظہر نہیں تھی بلکہ حمورابی نے اپنی ہستی کو پُرشکوہ بنانے کیلئے شہنشاہ جیسی خداکے جاہ و جلال اور عظمت کی علامت اصطلاح کا سہارا لیا۔ جیسے مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے لیے ظلِ سبحانی کی اصطلاح مستعار لی تھی۔ چنانچہ حمورابی کے بعد رفتہ رفتہ وہ تمام اصطلاحات جو دیوی‘ دیوتاؤں اور خدا کیلئے مختص تھیں‘ دنیاوی حاکموں کیلئے استعمال ہونے لگیں بلکہ بعض مقامات پہ فطرت نے اس کی خود بھی اجازت دی ہے۔ جیسے قرآن پاک نے ماں‘ باپ کو بچے کا ''رب‘‘ کہا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے مالک کے لیے ''رب‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی۔
محبت کی وہ تمام اصطلاحات جو حسن و عشق کی داستانوں میں استعمال ہوئیں، انہیں ہم اپنے ماں باپ، بچوں، دوستوں، رہنمائوں اورروحانی پیشواؤں کیلئے بہ آسانی استعمال کرتے ہیں، جیسے عشق و محبت کی اصطلاحیں ''حب اللہ‘‘ اور ''حب الرسول‘‘ کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی جہاں اپنے آخری نبیﷺ کیلئے حبیب کی اصطلاح استعمال کی‘ وہیں ''الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہہ کے انہی الفاظ کو مزدور سے محبت جتانے کیلئے بھی استعمال کیا۔ خداؤں اور بادشاہوں کیلئے مختص اصطلاحات کا عمومی استعمال اُن شعرا کا معمول ہے جو اظہار کی من مانی عادتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ غالبؔ و میرؔ کو خدائے سخن، مہدی حسن کو شہنشاہِ غزل اور درویشوں کو سلطان العارفین کہنے سے کبھی خدا کی شان میں کمی آئی نہ بادشاہوں کی عظمت مجروح ہوئی بلکہ یہ تال میل ہمارے ادارک کے تنوع کا گداز مظہر دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح حضور کریمﷺ کی بعثت سے قبل سیّد کا لفظ سردارانِ عرب کیلئے مستعمل تھا لیکن جب آقائے دو جہاںﷺ تشریف لائے تو لفظ سیّد ان کی ذاتِ اقدس سے منسوب ہو کر حرمتِ ابدی پا گیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ الفاظ کو حرمت اس کے حامل کی بدولت ملتی ہے۔ اسی طرح لفظ جنت، جہنم، حق و باطل اور ابلیس و فرشتوں جیسی اصطلاحات کا استعمال ہمارے شعوری ابلاغ کا مؤثر ٹول بن گیا اورشاید فطرت کی منشا بھی یہی تھی۔ اس لیے میری داسنت میں طارق ہاشمی نے جس مقدمے کی بنیاد رسول کریمﷺ کیلئے سیاسی، سماجی اور طبقاتی اصطلاحات کے استعمال کے امتناع پہ رکھی‘ وہ شخصی عقیدت میں غلو کے سوا کچھ نہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مروجہ اصلاحات انبیاء کرام علیہم السلام کے کسرِ شان ہیں تو پھر وہ ایسی متبادل اصلاحات بھی پیش کرے جو انبیاء کرام، اولیا عظام اور صلحا کیلئے مخصوص ہوں۔ اگر کوئی کج کلاہ ایسی اصطلاحات وضع بھی کر لے تو ان اصطلاحات کے غیرقدسی استعمال کو کیسے روک پائے گا ؟جیسے ماضی میں خدا اور مقدس ہستیوں کیلئے مختص اصطلاحات رفتہ رفتہ بادشاہوں، سپہ سالاروں اور دنیاوی محبت کے اظہار کیلئے مستعمل ہوئیں، اسی طرح یہ مختص و مخصوص نئی اصلاحات بھی بالآخر ادنیٰ و حقیر اور استعماری قوتوں کیلئے استعمال ہونا شروع ہو جائیں گی اور اسے روکنا ممکن نہیں ہو گا اور یہ لامتناہی سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ بالکل اسی طرح پیغمبرانِ کرام کے اخلاقی مقام اور کردار کیلئے مستعمل اصطلاحات کو بھی خود شاعروں اور ادیبوں نے اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کے اظہار کیلئے مستعار لے کر زبان زد عام بنایا۔ طارق ہاشمی مزید لکھتے ہیں ''اقبالؒ فارسی و اردو شاعری کی روایت میں پہلے ایسے قابلِ ذکر شاعر ہیں جو روایتی تعظیمی بیانیے کے برعکس آپﷺ کی ذات کی تکریم سماجی، علمی اور انقلابی حوالوں سے کرتے نظر آتے ہیں‘‘۔ تمام سماجی و علمی حوالے الوہی نہیں بلکہ بجائے خود انسانی تجربات کے مرہونِ منت ہیں، خود انقلاب بھی عام سیاسی اصطلاح ہے جو استعماری مقاصد کیلئے بھی استعمال ہوئی۔ جدید دور کا پہلا انقلاب نپولین کی بدترین شخصی آمریت کا وسیلہ بنا۔ علیٰ ہذا القیاس!
اس حقیقت سے مفر نہیں کہ ہر فلسفی اور شاعرکو خارج میں اپنے ذہنی تضادات کا عکس دکھائی دیتا ہے، اس لیے شاعروں نے ہمیشہ یہ بتانے کی جسارت کی کہ انسان اور دنیا کو ایسا ہونا چاہئے حتیٰ کہ یونانی اور رومی شعرا تو دیوتائوں کو ڈانٹنا اور نصیحت کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ہمارے ہاں بھی غالب اور اقبالؒ نے بظاہر شکوہ کے انداز میں خالقِ کائنات کو دنیا کی اصلاح اور مسلمانوں کی مدد کی ترغیب دی۔ یہ ماضی کے اُنہی یونانی، رومی اور ایرانی شعرا کے پُرشکوہ تصورات کی تکرار تھی جنہوں نے خود کو اس پورے نظام ہستی سے ماورا سمجھ کر اس دنیا کو ری ڈیزائن کرنے کی جسارت کی تھی؛ تاہم انسان ہونے کے ناتے تمام شعرا پہ ایسی کیفیات وارد ہوتی رہیں جو انہیں نفسِ انسانی کی بوقلمونی اورفطری کمزوریوں کے اعتراف پہ مجبورکرتی تھیں۔ اس ضمن میں جوابِ شکوہ سمیت اقبالؒ کے کئی دیگر اشعار میں اس کم مائیگی کے اعتراف کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت اقبالؒ جہاں یہ فرماتے ہیں کہ:
یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ
حیرت ہے کہ اقبالؒ خود تو خدا پہ کمند ڈالنے کی ہمتِ مردانہ کے قائل ہیں لیکن سائنسدانوں پہ طنز کے تیر چلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
کہ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والے اس مردِ مومن کو اپنے انکسارِ فکر اور عجزِ دانش کا جواز ان الفاظ میں تلاش کرنا پڑا:
تیری دعا سے قضا تو نہیں بدل سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے
اقبالؒ کے یہ گداز الفاظ بھی اٹل حقیقت کی نہیں بلکہ ان کی لذتِ خیال اور شکستہ آرزوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ افلاطون نے یہ کہہ کے اپنی جمہوریہ سے شعرا کو نکال دیا تھا کہ یہ فاطر العقل ہوتے ہیں، اسی طرح نشاۃِ ثانیہ کے فلسفیوں(ہیگل) نے شاعری کو انسان کے عہد طفلیت کا کھلونا کہہ کے سنجیدہ علم کے دائرہ سے خارج کر دیا تھا۔ اس سے قبل توریت اور زبور میں بھی شاعروں کو جھوٹ کی وادیوں میں ٹھوکریں کھانے والوں سے تشبیہ دی گئی۔ البتہ عبرانی کہاوتوں میں شعر وخطابت کی تعریف و توصیف ملتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے ''بیشک شعرمیں نصیحت اور تقریر میں جادو ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں شعرا زندگی کے مقاصد کو جانچنے کیلئے اپنی بیباک اور ضعیف عقل، عمیق و تاریک وجدان اور حواس کے بے نظم فیصلوں سے مدد لے کر فرضی حقائق کے پیمانے تیار کرتے ہیں اور پھر تمام عمر انہی طبع زاد معیارات پہ کائنات کے اٹل حقائق کو جانچنے کی آشفتگی میں سرگرداں رہتے ہیں۔