دنیا بھر میں عوامی حقِ حاکمیت پہ مبنی جمہوری ریاستوں کے مستقبل پر نسلی، لسانی اورعلاقائی قوم پرستی کے تعصبات غلبہ پاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو ڈیموکریسی کے نقیب مغربی ماہرین بھی یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ جمہوریت ناکام ہو رہی ہے، مقبول جمہوری نظامِ سیاست کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن بنیادی وجہ وہ ڈیپ سٹیٹ بنی جس نے ریاستی قوت اور دجل و فریب کے ہتھیاروں سے کروڑں انسانوں کی اجتماعی خواہش کی رخ گردانی یا پھر طریقہ کار کے ہتھکنڈوں سے سوادِ اعظم کے ارادوں کو ملتبس رکھا۔ اس ادارہ جاتی جبریت میں بظاہرایک محدود اشرافیہ نے اپنی فہم و فراست کو معیار بنا کر اُن انسانی جبلتوں کو مسخ کرنے کی جسارت کی‘ شوپن ہار کے مطابق جن کی کشش نے عقل و خرد کو ہمیشہ اپنا اسیر بنائے رکھا۔ اسی متنوع جمہوری نظام کی رضاکارانہ ناکامی کی سب سے کلاسیک مثال امریکا کی وہ جمہوریت بنی جسے ڈیپ سٹیٹ کے مہیب سائے نے سینڈروم میں بدل دیا۔ 6 جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر سفیدفاموں کی جارحانہ یلغارکے بعد امریکی جمہوریت کے بارے میں مایوسی کے آثار نمایاںہونے لگے۔ تازہ ترین سروے میں 64 فیصد امریکیوں نے تصدیق کی کہ یہاں جمہوریت بحران اور ناکامی کے خطرے سے دوچار ہے، اس قسم کے جذبات ریپبلکن کارکنوں میں زیادہ شدت سے پائے گئے۔ جی پی او سروے کے دو تہائی جواب دہندگان نے منظم دھاندلی کے تصدیق شدہ جھوٹے دعوے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن 2020ء کا الیکشن فراڈ کی مدد سے جیتے۔ اس ''بڑے جھوٹ‘‘ کے محرک ڈونلڈ ٹرمپ خود ہیں‘ جو برملا کہتے ہیں ''انتخابات دھاندلی زدہ تھے‘‘۔ نصف سے بھی کم ریپبلکنز نے 2020ء کے انتخابی نتائج قبول کیے۔ یہ ریپبلکنزہی ہیں جو اس یقین کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھوکا دہی ہوئی، جس سے انتخابی نتائج تبدیل ہوئے۔
سروے کے تقریباً دو تہائی رائے دہندگان اس خیال سے متفق ہیں کہ امریکی جمہوریت امسال پہلے کی نسبت زیادہ خطرے میں ہے۔ ریپبلکنز میں یہ تعداد 80 فیصد یعنی ہر5 افراد میں سے4 تک جا پہنچی ہے۔ مجموعی طور پر 70 فیصد رائے دہندگان سمجھتے ہیں کہ امریکا کو بحران اور ناکامی کے خطرے کا سامنا ہے۔ 6 جنوری کو جو کچھ ہوا اس کے بارے میں گہری متعصبانہ تقسیم کی بدولت ریاست یہ فیصلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھی کہ کیپٹل ہل حملے کو کیا نام دیا جائے۔ سروے کے جواب دہندگان میں سے صرف6 فیصد نے کہا کہ یہ معقول احتجاج تھا لیکن اس سے بہتر وضاحت پر بہت کم لوگوں نے اکتفا کیا۔ 6 جنوری کو پیش آنے والے واقعات پر امریکیوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ نصف سے زیادہ ڈیموکریٹس 6 جنوری کے حملے کو ''بغاوت‘‘ سمجھتے ہیں۔ ریپبلکنز اسے ''قابو سے باہر ہونے والے فساد‘‘کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے 74 ملین کے مقابلے میں بظاہر بائیڈن کو81 ملین سے زیادہ ووٹ ملے لیکن ریپبلکن سٹیفن ویبر مصر ہیں کہ ''بائیڈن کو کون ووٹ دے گا؟ڈیموکریٹس نے انتخابات میں دھاندلی کی‘‘۔حالانکہ بائیڈن نے بظاہر 306 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، ٹرمپ کو 232 ووٹ پڑے، پھر بھی ویبر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ''وہ میلنگ ووٹنگ پر بھروسہ کرتے ہیں نہ ہی یہ مانتے ہیں کہ ڈیموکریٹک قانون سازوں کے پیشِ نظر ملک کا بہترین مفاد ہے۔ وہ دراصل مملکت کو کسی اور چیز میں بدلنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں تبدیل نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
اگرچہ ڈیموکریٹس نے بھی جمہوریت کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا ہے لیکن دونوں کی وجوہات مختلف تھیں۔ لائم این ایچ کی سوسن لیونارڈ نے 2020ء کے انتخابات کے تناظر میں دھاندلی کے افسانے‘ جو ٹرمپ نے تشکیل دیا اور لوگوں کو مستقل یقین دلانے کی کوشش کی‘ پر کہا کہ جب وہ پہلی بار اپنے ''بڑے جھوٹ‘‘ کے ساتھ سامنے آئے تو مجھے کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنے زیادہ ریپبلکنز اس''جھوٹ‘‘پہ یقین کر لیں گے۔ لیونارڈ نے کہا: یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی گروپ کو ذہنی بیماری اپنی لپیٹ میں لے لے۔ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب کچھ امریکا میں ہو رہا ہے۔ سروے پول کے مطابق انتخابی دھاندلی اور 6جنوری کے حملوں کی حمایت وقت کے ساتھ غیر معمولی طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر‘ ٹرمپ کے ووٹروں میں سے ایک تہائی کا کہنا ہے کہ کیپٹل ہل حملہ دراصل ''ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف حکومتی ایجنٹوں‘‘ نے کرایا۔ یہی وہ سازشی تھیوری تھی جسے حملے کے بعد نسل پرست میڈیا نے فروغ دیا۔ ڈِس انفارمیشن اور زیادہ وسیع سازشی نظریات پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلنے لگے ہیں۔ انتخابات کے نتائج کو متاثر کرنے والی دھاندلی کے الزمات اگرچہ غلط ثابت ہوئے لیکن ریپبلکن ووٹروں کی بڑی تعداد اب بھی غیرمطمئن ہے۔ ٹرمپ کے وکیل‘ نیویارک کے سابق میئر روڈی جیولیانی کی انتخابات کے فوری بعد نیوز کانفرنس سب کو یاد ہو گی، ان کے پاس ''ثبوت‘‘ کے طور پر کاغذات کا ڈھیر تھا۔ ریپبلکن وکیل دہائیوں بعد وفاقی عدالت میں پیش ہوئے اور جج سے پنسلوینیا میں ووٹوں کی تصدیق روکنے کی درخواست کی۔ اس درخواست کو عدم ثبوت کی بنا پر خارج کر دیا گیا اور نیویارک کی عدالت نے بعد میں ٹرمپ کے 2020ء کے انتخابات میں شکست کے بارے میں ''جھوٹے اور گمراہ کن دعوے‘‘ کی وجہ سے جیولیانی کا لائسنس معطل کر دیا۔ جیولانی کو اب ایک ارب ڈالر کے ہتک عزت کے مقدمات کا سامنا بھی ہے۔ ڈیموکریٹس سانحہ 6 جنوری کا مزید احتساب چاہتے ہیں لیکن حالات کی نزاکتیں صدر بائیڈن کو ایسا کرنے سے روکتی ہیں کیونکہ سروے میں 6 جنوری کے حملے کی قیادت میں ٹرمپ کے کردار کے بارے میں بڑے پیمانے پر متضاد خیالات پائے جاتے ہیں۔ یہ تراشیدہ التباسات دیر تک حقائق پہ سایہ فگن رہیں گے۔ ڈیموکریٹس کے دو تہائی حامی اس امر پہ متفق ہے کہ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے انتخابی نتائج کو الٹانے کی کوشش میں قانون توڑا لیکن ریپبلکنز کا خیال ہے کہ وہ اپنی مشق کر رہے تھے یعنی وہ حد سے آگے نہیں بڑھے بلکہ احتجاج کا درست قانونی حق استعمال کیا۔ ڈیموکریٹس نے 6 جنوری کے حملے کی تحقیقات کرنے والی ہاؤس سلیکٹ کمیٹی کی سست رفتاری پہ مایوسی کا اظہار کیا۔ کچھ لوگوں نے کیپٹل ہل حملے میں ملوث مجرموں کو اب تک دی گئی سزاؤں کو ناکافی سمجھا۔ بظاہر امریکیوں کی اکثریت سیاسی تشدد کو مسترد کرتی رہی لیکن ایک مؤثر اقلیت ایسا نہیں کرتی۔ اگرچہ دونوں طرف زیادہ تر امریکی اب بھی تشدد میں ملوث ہونے کو تیار نہیں لیکن رائے شماری کے ہر 5 میں سے 1سے زیادہ جواب دہندگان کا کہنا تھاکہ جمہوریت اور امریکی اقدار کا تحفظ بسا اوقات تشدد کوگوارا بنا دیتا ہے۔ ریپبلکنز، ڈیموکریٹس کے مقابلے میں کچھ زیادہ اس خیال سے متفق ہیںکہ امریکی جمہوریت کے تحفظ کے لیے تشدد میں ملوث ہونا ٹھیک ہے۔
جمہوریت جوابدہ اور ذمہ دارانہ طرزِ حکومت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، عوامی شرکت اور انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار کی پُرامن منتقلی کو ممکن بناتی ہے، ان میں سے ہر عنصر منظم معاشرے کی تشکیل کو بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ امن کے تقاضے ہمیں اُن جمہوری اصولوں اور جمہوریت سازی کی تکنیکوں کی تعلیم دیتے ہیں جو سماجی تنظیم اور مؤثر حکمرانی‘ دونوں کیلئے اہم ہیں۔ جس میں جوابدہ اداروں اور جوابدہی کرنے والی مضبوط سول سوسائٹی کی تشکیل ایسی گورننس کو مضبوط بنانے کا وسیلہ بنتی ہے جس کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا تحفظ، سماجی انصاف، قانون کی حکمرانی اور فیصلہ سازی کے عمل میں وسیع عوامی شرکت کو فروغ ملتا ہے لیکن ان پُرکشش تصورات کے باوجود غیرمشروط جمہوری آزادیوں کا فسوں مغرب میں خاندانی نظام اور مقامی ثقافت کو نگل گیا جس کے نتیجے میں آج سفید فام نسلوں اور وہاں کی لوکل ثقافتوں کو مٹ جانے کے خوف نے آ لیا۔ حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اس وقت جو کچھ امریکا میں پنپ رہا ہے، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی کچھ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی دہرایا جا رہا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ دونوں خطے اپنے تہذیبی پس منظراور سماجی روایات کے تضادات کے باوجود ایک ہی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔