20 برسوں پہ محیط جنگ کے بعد اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکا کی شرمناک رخصتی نے چین کو جنوبی ایشیا کی سب سے بڑے علاقائی طاقت کے طور پر ابھارا جو مستقبل میں خطے میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وسطی ایشیا کی ریاستوں کی مارکیٹ تک بہ آسانی رسائی حاصل کر لے گا۔ تاریخی تناظر میں افغانستان سے چینی تعلقات کو تین ادوار میں تقسم کیا گیا ہے۔ پہلا دور سرد جنگ (1955ء تا 1990ء) کا دورانیہ، دوسرا افغانستان سے پھوٹنے والی دہشت گردی (1991ء تا 2000ء) کے اثرات سے اپنی جغرافیائی حدود کو بچانے کی سرگرانی اور تیسرا نائن الیون کے بعد جنوبی ایشیا میں امریکی موجودگی (2001ء تا 2020) کے اثرات کو کائونٹرکرنے کی حکمت عملی پہ محمول تھا۔ ماہرین کے مطابق اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بیجنگ نے افغانستان میں طالبان کے غلبے کو عملی طور پر قبول کرنے کے بعد پانچ جہتی پالیسی متعارف کرائی، جس میں افغان معاملات میں طالبان کے حق کو عملی اور محتاط طریقے سے قبول کرنے کے علاوہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے آشوب میں دوبارہ الجھنے سے بچانا، افغانستان میں جامع سیاست کی حوصلہ افزائی کرنا، انسانی ہمدردی اور امریکا و مغرب کو اپنی ذمہ داری سے منہ موڑنے پر شرمندہ کرنا جیسے نکات شامل ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے چینی پالیسی یقینی طور پر تعمیری ہو گی لیکن یہ ابھی چند بڑی رکاوٹوں سے دوچار رہے گی جس میں امریکا سے اس کی بڑھتی ہوئی دشمنی زیادہ مہیب ہے۔ یہی عوامل امریکی انخلا کے بعد چینی پالیسی میں تسلسل اور ناگزیر تبدیلیوں کا تعین کریں گے۔ چین کی مجموعی خارجہ پالیسی میں افغانستان کو زیادہ توجہ ملنے کا امکان ہے لیکن اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی درست حد کا تعین پالیسی سازوں کے چین کے مفادات اور اس کی کمزوریوں کے بارے میں تصورات سے منسلک رہے گا بلکہ سنکیانگ اور وسیع تر مغربی سرحدی علاقے میں استحکام جیسی ترجیحات اقتصادی امور پر بھی حاوی رہیں گی۔ چین کی کمزوریوں میں سب سے نمایاں طالبان حکومت کی نوعیت، اہلیت اور خطے میں امریکا کی سٹریٹیجک پوزیشن میں کمی بیشی ہو گی۔ چینی طالبان پر اثرانداز ہونے میں بیرونی مداخلت کی حدود سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے افغان تعمیر نو میں ان کا تعاون بتدریج بڑھتا رہے گا۔
واشنگٹن افغانستان سے نکل چکا ہے اور اپنے داخلی معاشی و سیاسی بحران کی وجہ سے کسی پڑوسی ملک کے تعاون کے بغیر افغانستان پہ دوبارہ سٹریٹیجک اثر و رسوخ حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتا خاص طور پر چین سے بڑھتی ہوئی دشمنی اسے افغانستان پر بامعنی اثر ڈالنے سے روکتی رہے گی۔ اپریل 1990ء میں سنکیانگ میں شورش شروع ہوئی تو اسی سے چین کی پڑوسی ممالک سے سفارتی حکمت عملی کے رجحان کو مہمیز ملی۔ دریں اثنا جب پورا افغانستان صدر نجیب کی حکومت اور مجاہدین کی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا تو 1993ء میں چینی سفارت خانے کا عملہ واپس بلا لیا گیا۔ 1996ء میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو بھی چین نے عالمی برادری کے احترام میں طالبان سے سفارتی تعلقات سے گریزکیا؛ تاہم اسی دوران چین نے روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ علاقائی سلامتی کا نیا ادارہ شنگھائی فائیو بنایا جو روس، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان کی شمولیت سے علاقائی قوتوں کے درمیان مشترک اقدار تلاش کرنے کا وسیلہ بنا اور جسے2001ء میں توسیع دے کر شنگھائی تعاون تنظیم بنا دیا گیا۔ ازبکستان کو بھی اس میں اضافی رکن کے طور پر شامل کر لیاگیا۔
افغانستان کے بارے میں چین کی پالیسی کا دوسرا مرحلہ2001ء سے شروع ہوا، جب امریکا نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کو جواز بنا کر افغانستان پر قبضہ کر لیا لیکن2021ء تک‘ 20 سال کی مہم جوئی کے بعد بالآخر واشنگٹن پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا۔ افغانستان پر امریکی جارحیت کے پہلے 10 سالوں میں چین نے امریکی مداخلت کے حوالے سے رد عمل کا رویہ اپنایا۔ البتہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے ارادے کو واضح کرنے کے بعد 2012ء میں بیجنگ نے کابل کے ساتھ سفارتی، سلامتی اور اقتصادی مشغولیت بڑھائی، شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان کے لیے مبصر کا درجہ پیداکیا اور جون 2012ء میں دوطرفہ شراکت داری کو سٹریٹیجک تعاون میں اَپ گریڈ کر لیا۔ ستمبر 2012ء میں داخلی سلامتی کیلئے ذمہ دار اعلیٰ چینی عہدیدار نے کابل کا دورہ کیا، یہ واضح اشارہ تھا کہ بیجنگ امریکی انخلا کے بعد افغان حکومت کے ساتھ سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے تعاون کا خواہاں ہے۔ 2014ء میں جب امریکا نے اپنے لڑاکا فوجیوں کا بڑا حصہ واپس بلا لیا تو چین نے کثیرجہتی سفارتی سرگرمیوں کو مزید تیز کر دیا۔ مبصرین اس سال کو چینی پالیسی کے ارتقا میں اہم سال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی سال دو اعلیٰ سکیورٹی حکام، پبلک سکیورٹی کے وزیر اور پیپلز لبریشن آرمی کے ڈپٹی چیف آف سٹاف نے کابل کا دورہ کیا جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے چین کا جوابی دورہ کیا۔ جلد ہی چین اور افغانستان کے مابین سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون نے ٹھوس شکل اختیار کر لی۔ کثیرجہتی محاذ پر اس عرصے کے دوران تین سہ فریقی میکانزم استوار ہوئے؛ چین، افغانستان اور پاکستان‘ چین، روس اور پاکستان اور چین، روس اور بھارت۔ ان فورمز پر امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال پہ مکالمے کا آغاز ہوا۔ اکتوبر2014ء میں چین نے افغانستان پر‘ ہارٹ آف ایشیا کی چوتھی وزارتی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں 46 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی۔ امریکا بھی 'معاون ملک‘کے طور پر شریک ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ آخر کار چین جنوری 2016ء میں افغانستان، پاکستان اور امریکا کے ساتھ چار فریقی رابطہ گروپ میں شامل ہو کر امریکی انخلا کو سہولت فراہم کرنے پہ آمادہ ہو گیا۔
اس وقت چین کے پیش نظر سنکیانگ اور مغربی سرحدی علاقے میں سلامتی اور استحکام یقینی بنانے کے علاوہ وسیع بین الاقوامی حکمت عملی میں افغانستان کا مقام اور سپر طاقت بننے کی خاطر امریکا سے مقابلہ جیسی مساعی زیادہ نمایاں ہیں۔ پہلے دو عوامل تو کم و بیش مستقل رہیں گے‘ اس لیے وہ چینی پالیسی کو تسلسل و استحکام فراہم کر سکتے ہیں؛ تاہم تیسرا عنصر بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور یہی چینی پالیسی میں نئی تبدیلیوں کا محرک بنے گا۔ حالیہ برسوں میں چین کو پاکستان میں بھی انتہا پسندوں کی طرف سے اپنے اہلکاروں اور بنیادی ڈھانچے کے خلاف حملوں کا سامنا رہا ہے، تخریب کاری افغان سرحد سے متصل ان علاقوں میں زیادہ دیکھی گئی جہاں پاک چین اقتصادی راہداری جیسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا فلیگ شپ منصوبہ زیرِ تعمیر ہے؛ تاہم پاکستانی اداروں نے ایسی کاروائیوں کو سختی سے کچل دیا۔ افغانستان کے بارے میں چین کی پالیسی کو متاثر کرنے والا دوسرا عنصر چین کی بین الاقوامی حکمت عملی میں افغانستان کا مقام ہے۔ 2012ء کے اواخر میں صدر شی جن پنگ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے‘ افغانستان چین کی عظیم سٹریٹیجک سوچ سے بمشکل مطابقت رکھتا تھا، یہ صرف اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب اس نے چین کی سلامتی کو متاثر کیا؛ تاہم 2013ء کے بعد سے دو نئی پیش رفتوں نے چینی پالیسی میں افغانستان کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا، پہلا، چینی خارجہ پالیسی میں پڑوس یا پیری فیری ڈپلومیسی کی بڑھتی اہمیت۔ اکتوبر 2013ء میں چین نے اپنے دائرۂ کار میں شامل ممالک کی طرف سفارت کاری پر اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی، صدر شی نے پڑوس کی سفارت کاری میں کامیابی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ چین کی ترقی کے لیے سازگار علاقائی ماحول مل سکے۔ یہ کانفرنس جدید چینی خارجہ پالیسی میں پڑوسی سفارت کاری کے پروفائل کو بڑھانے کیلئے سنگ میل ثابت ہوئی۔ یہ بات مشہور ہے کہ افغانستان تیل، قدرتی گیس، لوہے، سونا، تانبا، کوبالٹ، لیتھیم اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ سوچنا فطری ہے کہ اگر چین ان وسائل کو BRI کے ذریعے درآمد کر سکتا ہے تو وہ دور دراز، غیر مستحکم یا غیر دوست ممالک سے اپنی درآمدات کو متنوع بنا سکے گا۔ افغانستان کے ساتھ تجارت چین کے مغربی صوبوں کے ساتھ پاکستان اور وسطی ایشیاکی اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دے گی۔