"AAC" (space) message & send to 7575

سیاسی و معاشی بحران

سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور گورننس کی ناکامیوں کے باعث آنے والی سیاسی تبدیلی کی کوکھ سے نمودار ہونے والی سیاسی کشیدگی مملکت کو بدستور غیریقینی صورتحال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اقتدار کی ہموار منتقلی میں رکاوٹیں ڈال کر جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش بنانے کے علاوہ حکومت سے بے دخلی کے بعد اداروں پہ جارحانہ تنقید نے بھی معاشی اصلاحات کی کوششوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ خدشہ ہے کہ داخلی انتشار کی یہی لہریں عالمی اقتصادی بحران کے سایہ میں ملکی معیشت کو زیادہ مضمحل بنا سکتی ہیں‘ باہم دست و گریباں قوتوں کو سوچنا چاہیے کہ اس کشمکش کو طول ملا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے کے پہلے دو ماہ کے دوران آئی ایم ایف نے واضح کر دیا‘ اگر اسلام آباد ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کرے تو وہ 6 بلین ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت سے اگست میں صرف 1بلین ڈالر کی اگلی قسط جاری کرے گا‘ چنانچہ مہنگائی‘ جو مئی میں 13.8فیصد تھی‘ بڑھ کر تقریباً 21 فیصد تک پہنچ گئی لیکن پنجاب کی بیس صوبائی نشستوں پہ حالیہ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد حکمراں اتحاد بنیادی پیدواری یونٹس کے نرخوں میں مزید اضافہ کے ارادہ سے پیچھے ہٹ گیا جس سے آئی ایم ایف سے امداد کے حصول کا امکان بعید تر ہو جائے گا۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی گورنمنٹ ملکی بقا کی خاطر اپنے سیاسی مفادات قربان کرنے کو تیار ہے لیکن نواز شریف اور مریم نواز سیاسی ناکامیوں کو گلے لگا کر اپنی طویل مزاحمتی جدوجہد کی قربانی دینے کو تیار نہیں‘ چنانچہ آنے والے دنوں میں سیاسی تنازعات اور معاشی بحران مزید گہرے ہو سکتے ہیں‘ جس کا لامحالہ دباؤ اداروں پہ پڑے گا۔ قابلِ فہم طور پر مسلم لیگ (ن) چاہے گی کہ تمام اتحادی معاشی اصلاحات کا سیاسی بوجھ بانٹیں لیکن بدترین فکری انتشار سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو اپنی پوری صلاحیتوں کو بقا کے تقاضوں پہ مرتکز رکھنے سے روکتا ہے۔ مستقبل قریب میں بھی یہاں وسیع تر سیاسی مفاہمت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے زیادہ اہم یہ تھا کہ وہ سیاسی کشمکش سے بالاتر ہو کرقابلِ تجدید توانائی‘ زراعت اور مقامی گورننس کے نظام‘ جو ملک کے سیاسی اور اقتصادی استحکام اور طویل المدتی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں‘ میں اصلاحات کو ممکن بناتے تاکہ معاشی پالیسیوں کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے کے علاوہ فیصلہ سازی کے عمل میں شہریوں کی تلویث یقینی بنائی جاتی کیونکہ معاشرے کے متوسط طبقہ میں سماجی تفریق اور ادارہ جاتی تسلط کے خلاف اشتعال بڑھ رہا ہے‘ ملک کی طاقتور اشرافیہ کوتسلیم کر لینا چاہیے کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے یہ ملکی تاریخ کا غیرمعمولی مرحلہ ہے‘ اگر سابقہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کی طرح موجودہ بندوبست بھی ناکام ہو گیا تو وفاقی اکائیوں کو مربوط رکھنا دشوار ہو جائے گا۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا فورس کے ذریعے ایک ایسی ''اشرافیہ مخالف اشرافیہ‘‘ پیدا کر لی ہے جو نیشنل ازم کے بجائے لاشعوری طور پہ ملک کے سیاسی کلچر کو پارٹی آمریت کی طرف لے جانے پہ مُصر ہے۔ پی ٹی آئی کے پالیسی سازوں نے ہمارے سماج کے تاریخی اور نفسیاتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا متداول سیاسی بیانیہ تیار کر لیا‘ جس کے نعروں کی گونج میں نوجوانوں کو التباسات کی ایسی وادیٔ پُرخار تک پہنچا دیا گیا جہاں ذہنی انتشار‘ بدتہذیبی اور نفرتوں کے بھڑکتے الاؤ کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن حسن بن صبا کے فدائین کی طرح یہ لوگ اِسی دشت پُرآشوب کو فردوس بریں سمجھ کر آگے بڑھنے میں عافیت ڈھونڈتے ہیں۔ گیلپ پاکستان کے اپریل کے سروے میں ثانوی یا اس سے زیادہ تعلیم رکھنے والوں میں سے 62فیصد نے کہا کہ وہ عمران خان کی برطرفی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ عمران خان نے ''رجیم چینج‘‘ امریکی سازش کے نعروں کی گونج میں پہلی بار اُس اشرافیہ کے اندر مقتدرہ مخالف جذبات بھر دیے جسے ادارہ جاتی بالادستی کا بینی فشری سمجھا جاتا تھا لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے کہ لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں بلکہ عمران خان نے جمود کے بارے میں متوسط طبقہ کی ناراضگی کو بھی استعمال کیا‘ جیسے دنیا بھر کے پاپولسٹ لیڈر ہمیشہ سماج میں نفرت کی علامت سمجھے جانے والے بالادست طبقات کو تنقید کا ہدف بنا کے مظلوموں کی حمایت لیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت عوام کی اکثریت جس اشرافیہ کو اپنے دکھوں اور معاشی مسائل کا ذمہ دار سمجھتی ہے‘ عمران خان اسی کو ہدفِ تنقید بنا کر پسے ہوئے طبقات کی حمایت وصول کر رہے ہیں۔ ہرچند کہ ملک کا متوسط طبقہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بے روزگاری اور مہنگائی سے شدید متاثر ہوا لیکن تحریک انصاف کی سوشل میڈیا فورس نے نہایت چالاکی کے ساتھ انہی متاثرہ طبقات کی نفرت کا رخ مقتدرہ اور موجودہ حکومت میں شامل رہنماؤں کی طرف پھیر دیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مہنگائی کی حرکیات سے نمٹنے کی خاطر موجودہ حکومت اشیائے ضروریہ پہ سبسڈیز کو کم کرکے انتہائی غریب لوگوں کے لیے جو ٹارگٹڈ کیش ٹرانسفرز کررہی ہے اس سے اقتصادی تبدیلی ممکن نہیں بلکہ میکرو اکنامک استحکام زیادہ تر متوسط طبقہ کے آمدن میں اضافہ سے پیدا ہوتا ہے جس کے مثبت سیاسی اثرات بھی ملتے ہیں۔ تاہم پالیسیوں میں بگاڑ کی وجہ سے یہاں پائیدار‘ تیز رفتاری اور مساوی اقتصادی ترقی کے امکانات ناپید ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی سربراہی میں پاکستانی محققین کی ٹیم کی طرف سے تیار کردہ UNDP کی رپورٹ ہماری سیاسی معیشت کی غیرمعمولی ڈی کنسٹرکشن پیش کرتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا کہ پچھلے چار برسوں میں کارپوریٹ‘ جاگیردار اور حکمراں اشرافیہ نے ''فوائد اور مراعات‘‘ کی مد میں موجودہ ڈالر کے لحاظ سے 13بلین ڈالر کے مساوی وصول کیے جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 7 فیصد بنتا ہے۔ رپوٹ کے مطابق یہاں سماجی تحفظ کے لیے مختص رقم کی منصفانہ تقسیم اور زیادہ پیداواری صلاحیت کو ترغیب دینے کے لیے تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آنے والے برسوں میں ملک کے لیے چیلنجز‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں تیزی سے اضافہ کے باعث مزید گہرے ہوں گے۔ ہمارا ملک پہلے ہی دنیا کے دس سے زیادہ آبادی والے ان ممالک میں شامل ہے‘ جہاں آنے والی دہائیوں میں آبادی میں مزید اضافہ ہونے سے وسائل میں کمی اور مسائل میں اضافہ سے پیچیدگیاں بڑھیں گی‘ ہماری مملکت تاحال ہیومین ریسورس کو ترقی دینے کی پلاننگ نہیں کر سکی‘ اس لیے نئی نسل کے کارآمد افراد میں بڑھتی ہوئی مایوسی انہیں نسلی‘ لسانی و مذہبی تشدد کا ایندھن بن سکتی ہے۔ ہماری نواجوان نسل کو پائیدار‘ تیز رفتار اور مساوی اقتصادی ترقی کی جانب ایسا راستہ درکار ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو پیداواری عمل کا حصہ بنا کر ان کی توانا صلاحیتوں کو قومی ترقی کے عمل میں کھپا سکے لیکن پاکستان چونکہ توانائی کا خالص درآمد کنندہ ہے جس کی برآمدات کی بنیاد بتدریج تنگ ہوتی جا رہی ہے‘ اس لیے بہت ضروری ہے کہ موجودہ حکومت برآمدات کی نمو اور زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے علاوہ گھریلو ایندھن کی پیداوار کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے قابلِ تجدید توانائی کی طرف شفٹ ہو جائے۔ ہمارے زرعی شعبے نے مالی سال 2017ء کے بعد سے اوسطاً 2 فیصد سے بھی کم شرح سے ترقی کی۔ گرتی ہوئی زرعی پیداوار‘ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی‘ پانی کا بڑھتا ہوا تناؤ اور موسمیاتی تبدیلی کے بگڑتے اثرات یہ سب پہلے سے ہی سنگین غذائی تحفظ کے چیلنجز کو بڑھا رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کے علاوہ زراعت کی صنعت بھی بڑے پیمانے پر بجلی کی صنعت کے بقایا جات کو بڑھاتی ہے‘ گورنمنٹ کو زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے سالانہ کروڑوں ڈالر کی الیکٹرک پاور سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس سمت میں کچھ نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پہ اچھی کارکردگی کے حامل آبپاشی نظام کی تشکیل کی خاطر شمسی ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے کم شرح سود پہ قرضوں کی فراہمی یا نیٹ میٹرنگ کی اجازت دینے سے پانی کی بچت کو فروغ ملا‘ ان پٹ لاگت میں کمی اور پاور سیکٹر کے قرض کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں