الیکشن کمیشن نے بالآخر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا کے ایک اہم سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔ اس پیش دستی نے ہماری بحرانی سیاست کے بارے میں کچھ دیرینہ مفروضوں کی تصدیق اور کچھ اساسی تصورات کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی جمہوری اداروں اور طرزِ عمل سے کمزور وابستگیوں کے باعث ملکی سیاست بدستور غیر مستحکم اور انتشار میں الجھی دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک باقی نہیں رہا کہ کئی حوالوں سے ہماری جمہوریہ بدل رہی ہے یعنی خوف و ترغیب کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایک نئی پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بائیس کروڑ عوام کو معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار کے دلدل میں دھکیل کر کمزور کرنے کے بعد ہی ملکی نظام پر تصرف پانے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں لیکن قومی قیادت عوامی قوت کی مظاہر پارلیمنٹ کو فعال بنا کے داخلی خود مختاری کا تحفظ یقینی بنائے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ہماری روایتی سیاسی بصیرت نے مفاہمت کی سیاست کرنے والوں کو ہمیشہ سنگِ ملامت کا نشانہ بنایا اور ٹکرائو کی پالیسی کی تعریف میں یہ رطب اللسان رہی۔ لاریب یہاں قومی اداروں کے تصادم میں‘ خواہ اس کے نتائج کتنے بھی مہلک کیوں نہ ہوں‘ لوگ لذتِ خیال محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی شاید دو سو سالوں پہ محیط دورِ غلامی کے استرداد کی اُن نفسیاتی روایات کا تسلسل ہو جس میں انگریز حکومت کے خلاف سیاسی اور مسلح جدوجہد کرنے والوں کو ہمیشہ ہیرو کا درجہ دیا جاتا تھا لیکن جس طرح ہر بار معروف جمہوری اصولوں پر عملدرآمد مثبت نتیجہ نہیں دیتا‘ اسی طرح مفاہمت کی سیاست کے نتائج بھی جمہوریت کے لیے ہمیشہ منفی نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات خاموش مزاحمت ایسا خوبصورت موقع بن جاتی ہے جس سے پُرامن اصلاحات کی راہیں کشادہ ہو سکتی ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال اکبرایس بابر کی خاموش اور صبرآزما جدوجہد تھی جس نے بالآخر قومی سیاست کے پورے تناظر کو بدل ڈالا۔
بلاشبہ اکبر ایس بابر ہمارے سیاسی افق پہ ایک اعلیٰ پائے کے سیاستدان بن کر نمودار ہوئے ہیں‘ ان کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو لیکن وہ قومی سیاست کا صحتمند استعارہ اور توانا آواز بن کے سامنے آئے ہیں اور اب وہ نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح تنہا ایک جماعت کی حیثیت سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ چونکہ اب بھی قومی سیاست کے گرم کرداروں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ اس لیے فی الحال ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اصلی کردار کے بجائے پوری قوم کی توجہ برسرپیکار سیاستدانوں کی نئی چالوں پر مرکوز ہو گئی ہے؛ تاہم جس دن جذبات کی آندھیاں تھمیں اور ماحول میں ایک گونہ سیاسی استحکام پیدا ہوا تو ہمارے معاشرے کو اکبر ایس بابر جیسے کرداروں کو پذیرائی دینا پڑے گی۔ اکبر ایس بابر کا تعلق بلوچستان سے ہونے کی وجہ سے ان کے قومی کردار کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پسماندہ اورنظرانداز خطے سے قومی سیاست کو پختہ کار اور باوقار سیاستدان کا ملنا قوم کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہو گا۔
نوازشریف سمیت بہت سے سیاستدانوں کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم کا اس مرحلے پر حکومت لینے کا فیصلہ تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا۔ بظاہر لگتا بھی یہی تھا کہ عمران خان کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار کی سیاسی و معاشی ناکامیوں کا وبال اپنے سر لے کر نوازلیگ ٹریپ ہو گئی ہے لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ پی ڈی ایم کا حکومت بنانے کا فیصلہ حالات کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ اگر آج شہبازشریف وزیراعظم نہ ہوتے تو آفتاب سلطان جیسے غیر متنازع شخص کی بطور چیئرمین نیب تقرری ممکن نہ ہوتی۔ اسی طرح ای وی ایم اور کم و بیش ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسی پی ٹی آئی کی متنازع قانون سازی کی راہ کیسے روکی جاتی؟ یہ شہازشریف کی وزارتِ عظمیٰ ہی تھی جس نے ادارہ جاتی نظام پہ تصرف کی پلاننگ کو ناکام بنا کر مستقبل کی سیاست میں جمہوری قوتوں کے لیے راہیں کشادہ بنانے کے علاوہ ایک شفاف نظام کے قیام کی طرف پیشقدمی کی راہ بھی متعین کر دی۔ حکومت کی اس مساعی کو ملک بھر کی وکلا تنظیموں کے علاوہ صحافتی انجمنوں کی طرف سے بھی سراہا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ بڑھتا ہوا سیاسی شعور اور عوام کے حقِ حاکمیت کی توقیر ہی ہمیں اقوامِ عالم کی صف میں باوقار قوم کی حیثیت سے کھڑا کر سکتے ہیں۔ اب اگر میاں نواز شریف جلد وطن لوٹ آئے تو قومی سیاست کا توازن ایک بار پھر بدل سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران ہم نے تصادم اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست سے کسی کو کچھ حاصل کرتے نہیں دیکھا۔ اس سے ریاستی اداروں سمیت سیاسی جماعتیں بھی کمزور ہوئی ہیں۔ اسی کشمکش کی کوکھ سے کئی نامطلوب آزمائشیں نمودار ہوئی ہیں۔ قومی سیاست کے پس پردہ ہاتھ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنا پائے نہ سیاسی استحکام حاصل کر سکے۔ اسی جدلیات کی بدولت جمہوریت اور معاشی پالیسی نہ صرف ابتری کا شکار ہوئیں بلکہ سابقہ حکومت کی بعض سکیموں کے باعث ادائیگیوں کے توازن کا بحران بھی پیدا ہوا جس کا مقابلہ نئی حکومت کو بہرطورکرنا ہوگا۔ ابھی تو صرف چین نے عارضی سٹاپ گیپ کے طور پر 2.5 بلین ڈالر کا قرض ریلیز کیا ہے جبکہ سعودی حکومت اور دیگر مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
حکمران اتحاد کچھ انتظامی اور قانونی تبدیلیوں کے پیکیج کو نافذ کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے والا ہے کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے نے اسے سیاسی افتراق کے اصل محرکات پر قابو پانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی سابقہ حکومت کی بدعنوانیوں اور اختیارات کے غلط استعمال کی کہانیاں آہستہ آہستہ سامنے آتی رہی ہیں لیکن وہ ماضی کی طرح کا کوئی اثر نہیں ڈال سکیں؛ تاہم اب جب فنانشل ٹائمز کی سٹوری سامنے آئی ہے اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں چونتیس ممالک کی کمپنیوں سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ پایۂ ثبوت کو پہنچا ہے تو خان صاحب کی شخصیت کا طلسماتی ہالہ ٹوٹنے لگا ہے۔ عمران خان کے شخصیاتی کرشمے کی کئی وجوہ ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان کلٹسٹ پاپولسٹ لیڈر ہیں یا پھر ایک مسیحا قسم کی شخصیت یعنی ایسی شخصیت‘ لوگ بہت زیادہ ثبوت مانگے بغیر جس کی پیروی کرتے ہیں۔ دوسرا انہیں عام سیاستدان نہیں بلکہ ایسا دیومالائی کردار بنا کر پیش کیا گیا جس پر لوگوں نے اندھا یقین کیا کیونکہ انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ باقی سب کچھ دھوکا ہے‘ صرف خان صاحب ہی حقیقت ہیں؛ چنانچہ جب عمران خان 2018ء میں برسرِ اقتدار آئے تو عام خیال یہی تھا کہ انہیں کم از کم دس سال کے لیے لایا گیا ہے تاکہ روایتی سیاستدانوں کی جگہ لے کر ملک میں قائم دو پارٹیوں کا جمود توڑ سکیں۔ یہ اس بنگلہ دیشی ماڈل کی یاد دلاتا ہے جسے 2007ء میں نافذ کر کے ملک کا سیاسی ڈھانچا تبدیل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی اور پھر بنگلہ دیش نے جمہوری پٹڑی پہ چڑھ کر سیاسی اور معاشی استحکام پا لیا۔
کچھ شک نہیں ہے کہ اب تک کے تجربات سماجی و سیاسی تقسیم کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے ہیں اور انہی تجربات نے میڈیا، بیورو کریسی، سابق سفارت کاروں سمیت تمام طبقہ ہائے زندگی میں گہری تقسیم پیدا کر دی ہے جسے فراموش کرنا نادانی ہو گی۔بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ سوال بھی اہم ہے کہ خان صاحب اگر دوسری بار زیادہ قوت کے ساتھ برسراقتدار آتے ہیں تو ملکی منظر نامہ کیسا ہو گا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا پی ڈی ایم ان کی راہ روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کیا وہ ایسے انداز سے اپنا کیس عوام کے سامنے پیش کر سکے گی جس سے خان صاحب کے بیانیے کا توڑ ہو سکے۔