"AAC" (space) message & send to 7575

سیاسی بحران اور بنیادی تغیرات

بالآخر اُس سول سوسائٹی نے بھی عمران خان کے فوری الیکشن بیانیے کی تائید کر دی ہے جو ملک میں سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی کی علمبردار سمجھی جاتی ہے۔ عمران خان سے ملنے والے سول سوسائٹی کے وفد نے سیاسی بحران کے حل کی خاطر جہاں قومی قیادت کے مل بیٹھنے کی خاطر آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز دی‘ وہیں عمران خان کے لیے وہ تمام سیاسی حقوق اور جمہوری آزادیاں بھی مانگ لیں جن کے حصول میں خود خان صاحب اور ان کے حامی ان دنوں مشغول ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہیئت اور تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی حالات کے تناظر میں ہماری مملکت معاشی اور سیاسی لحاظ سے مشکل مراحل سے گزر رہی ہے؛ تاہم موجودہ صورتحال کا نازک پہلو یہ ہے کہ کوآرڈی نیشن کے فقدان کے باعث اتحادی حکومت کی قوتِ فیصلہ بتدریج گھٹ رہی ہے‘ اسی لیے اقتصادی بحران کو سنبھالنے اور سیاسی مسائل کو کنٹرول کرنے کی کوئی تدبیر کار گر ثابت نہیں ہورہی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ملکی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے چند بڑے فیصلے لینے کی راہ میں پیپلز پارٹی حائل ہے‘ ابھی حال ہی میں ایوانِ وزیراعظم کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی عدم شرکت اسی تفریق کی غماز تھی۔ پیپلز پارٹی کا بیس کیمپ سندھ‘ چونکہ پُرسکون اور شہری سندھ کی سیاسی قوت ایم کیو ایم مضمحل ہے؛ چنانچہ ان سیاسی جدلیات سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کا سوچنے کا انداز مختلف اور سیاسی ترجیحات کے پیمانے الگ ہیں۔
اگر ہم موجودہ سیاسی منظرنامہ کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کی جدوجہد کا محور پنجاب اور خیبر پختونخوا ہیں‘ جہاں (ن) لیگ اور جے یو آئی (ف) اُس کی سیاسی حریف ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بظاہر ذہنی سکون سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے وہ کسی بھی قسم کے ردِ عمل کے بجائے جمہوری اقدار کی کیفیت کو انجوائے کرنے میں محو ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں تحریک انصاف کی پنجاب میں (ن) لیگ اور خیبر پختونخوا میں جمعیت کے ساتھ کشمکش سے خود کو الگ کرنے میں سہولت تلاش کی اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے پنجاب میں (ن) لیگ اور خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ف) کے مخالف ووٹ کو جذب کرکے دونوں صوبوں سے پیپلز پارٹی کا راستہ صاف کیا تھا‘ بالکل اسی طرح آج بھی پیپلز پارٹی نے لاہور میں جاری رسہ کشی سے خود کو دور رکھ کے میدان (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے حوالے کر دیا ہے‘ جس کے نتائج انہیں متوقع عام انتخابات میں مل جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو وزارتِ خارجہ سنبھالنے کے بعد سے پارٹی پالیٹکس کے تقاضوں کو فراموش کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب‘ جہاں پی ٹی آئی کے منحرف جہانگیر ترین گروپ کو انگیج کرکے پیپلزپارٹی کو قدم جمانے کے وسیع امکانات میسر آئے‘ وہاں زرداری صاحب نے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر کر دی۔ اسی طرح لاہور میں علیم خان جیسے بااثر سیاسی رہنما کو پارٹی میں لانے کی کوشش کو بھی تنازعات میں الجھایا گیا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو جنوبی اور وسطی پنجاب میں تقسیم کرکے دونوں دھڑوں کو کمزور کیا۔ اس سے پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نالاں اور جنوبی پنجاب کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر اشو لعل فقیر مایوس ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ جنوبی پنجاب میں صرف یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی اپنے حلقۂ نیابت کے عوام سے جڑے رہنے کے باعث شاید قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں نکال لیں۔ راجہ پرویز اشرف کو بھی گوجر خان سے قومی اسمبلی کی نشست مل سکتی ہے۔ مگر ان دو‘ تین گھرانوں کے علاوہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں پیپلز پارٹی کا دم بھرنے والا کوئی نمایاں گروہ دکھائی نہیں دیتا۔
آصف علی زرداری کے برعکس عمران خان نے جمشید دستی‘ اعجاز الحق اور پرویز الٰہی سمیت ہر اس شخص کو پارٹی میں شامل کیا جس کا تھوڑا بہت سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ بہرحال‘ ہماری قومی سیاست کی روایت یہی رہی کہ جو سیاستدان ناپسند ٹھہرا‘ وہ سیاست سے باہر ہو گیا۔ آصف علی زرداری سمیت بیشتر سیاستدانوں نے اسی جبر کو قبول کیا اور مزاحمت ترک کرکے مروجہ اصولوں کے تحت مفاہمت میں بقا تلاش کی۔ چند برس قبل تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیے جانے کے بعد پہلی بار نواز شریف نے بیٹی سمیت جیل جانے کا انتخاب کرنے اور جارحانہ طرزِ سیاست اپنانے کو ترجیح بنایا۔ بعد ازاں عمران خان نے بھی انتخابات کے حوالے سے وہی جارحانہ طرزِ سیاست اپنایا؛ تاہم خان صاحب کے حامیوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں گرفتاری سے بچانے کے لیے‘ لاہور میں ان کی رہائش گاہ کے باہر ڈیرے ڈال لیے۔ یہی وجہ ہے کہ بارہا کوشش کے باوجود پولیس خان صاحب کی گرفتاری عمل میں نہ لا سکی۔ گوکہ عمران خان کی سیاسی مزاحمت ملک میں سویلین بالادستی کے لیے ہے لیکن وہ انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے متعین حدود سے کچھ آگے نکل گئے ہیں کیونکہ ماضی میں کوئی مزاحمتی سیاسی جماعت ایسا نہیں کر سکی‘ لیکن ہمارا ریاستی ڈھانچہ تاحال خان صاحب کے حامیوں کو مینج کرنے میں کامیاب ہوا ہے نہ ہی حکومت ان کے بیانیوں کا کوئی توڑ کر سکی ہے۔ خان صاحب آئے روز کوئی نیا بیانیہ متعارف کراتے رہتے ہیں۔ فروری میں انہوں نے حکومت پر الیکشن کا دباؤ بڑھانے کیلئے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا‘ چند رہنما جیل گئے بھی لیکن خود خان صاحب نے متعدد مقدمات میں پیشگی ضمانتیں لے لیں۔ یوں جیل بھرو تحریک ازخود ختم ہو گئی لیکن زمان پارک اور جوڈیشل کمپلیکس میں پولیس اور تحریک انصاف کے حامیوں کے درمیان ہونے والے تصادم سے یہی پیغام ملتا ہے کہ اب سیاسی افراتفری سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نہیں بچا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کی‘ خان صاحب نے آمادگی کا عندیہ دیا مگر ہر دو پہلا قدم اٹھانے کے منتظر رہے۔ ہمارے روایتی ثالث متنازع ہو چکے ہیں؛ چنانچہ اس مخمصے سے نکلنے کی خاطر سول سوسائٹی کا سہارا لینا پڑا تاکہ گزشتہ چند سالوں میں پنپنے والے سیاسی اختلافات کو ختم کیا جا سکے۔
پاکستان تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں انارکی‘ پاپولزم اور آمریت کے مابین التباسات کی دھند بڑھ رہی ہے۔ غیرملکی نشریاتی ادارے کو دیے انٹرویو میں خان صاحب نے جن حلقوں پر ہچکچاتے ہوئے اعتراضات اٹھائے‘ وہ خود ان کی حمایت کے متمنی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف کی کامیابی اسی حمایت کی مرہونِ منت تھی۔ اس حمایت کے تسلسل کے لیے خان صاحب نے تاحیات توسیع کی پیشکش بھی کی لیکن جب یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو خان صاحب کی طرف سے امریکی سازش کا بیانیہ سامنا آیا جسے سچ ثابت کرنے کیلئے اُنہوں نے ایسی شخصیات کو بھی اس سازش کا حصہ ٹھہرایا جو ماضی میں ان کی حامی رہی تھیں۔ تجزیہ کار خان صاحب کے ان متضاد بیانیوں کی توضیح سے قاصر ہیں‘ جن میں وہ روایتی سیاسی اشرافیہ اور کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی سیاسی اشرافیہ ان کی جماعت میں بھی شامل ہے اور اس سیاسی اشرافیہ کی کرپشن کی کئی داستانیں سامنے آ چکی ہیں۔ خان صاحب لیکن نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے انہیں غیر آئینی طریقے سے حکومت سے باہر کیا۔ اصل مدعا مگر اب یہ ہے کہ کیا خان صاحب کے حامیوں پر الیکشن تک ان کی مقبولیت کا جادو برقرار رہ سکے گا؟ 2023ء میں جیربولسونا اور 2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں سے سیکھے گئے اسباق کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے؛ البتہ تحریک انصاف کے حامیوں کی مزاحمت ایک وارننگ ضرور ہو سکتی ہے کہ اپنی کمزور معیشت اور منقسم سیاست کے ساتھ پاکستان اقتدار کی متنازع منتقلی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں