رومیؒ فرماتے ہیں اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ابھرے تو یہ اس امر کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے سینے میں پنپ رہی ہے۔ خدا اگر ہمیں محبت اور شفقت سے لبریز دکھائی دے تو یقینا ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔ (2) سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے دماغ کا نہیں۔ دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ‘ عقل کو نہیں۔ نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کیلئے دل کی مدد لو کیونکہ تمہاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔ عشق‘ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے۔ عشق نہ ہو تو شرع و دیں‘ بتکدۂ تصورات۔ (3) قرآن پڑھنے والا ہر شخص‘ قرآن کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے (یہاں شمس تبریزؒ اپنے فہم کو معیارِ حق بنا کر قرآن فہمی کے چار درجات فرض کرتے ہیں) پہلا درجہ ظاہری معانی‘ اکثریت اسی پر قانع ہے۔ دوسرا باطنی معانی‘ تیسرا باطنی معنوں کا بطن اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنی کا حامل ہے کہ زبان اس کے بیان پر قادر نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں۔ علما و فقہا جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں‘ یہ پہلے درجے پہ ہیں۔ دوسرا درجہ صوفیا کا ہے‘ تیسرا اولیا کا ہے‘ چوتھا درجہ صرف انبیا و مرسلین اور ان کے ربانی وارثین کا ہے (حضرت نے ربانی وارثین کا تعارف نہیں کرایا)۔ پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کرو (شمس تبریزیؒ کے افکار کا یہی وہ مرحلہ ہے جہاں وہ اپنے قیاس کو قطعیت کے ساتھ پیش کرنے کے بعد دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں کہ میرے تعلق باللہ کے دعویٰ کو قیاس سے جانچنے کی کوشش مت کیجئے) ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے‘ اظہارِ بندگی کی الگ نوعیت ہے۔ خدا بھی الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ مذہبی رسم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں‘ اصل چیز دل کی پاکیزگی ہے۔ (4) تم کائنات کی ہر شے اور ہر شخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد‘ مندر یا کسی گرجے تک محدود نہیں لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہو تو خدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈو (کسی عاشق کے دل میں جھانکنا تو درکنار‘ دنیا میں کسی عاشقِ صادق کو تلاش کرنا بھی ناممکنات کے قریب ہے کیونکہ اس کا کوئی معیار موجود نہیں‘ ڈھونڈنے نکلے تو صدیوں درکار ہوں گی)۔ ( 5) عقل و دل‘ دو مختلف چیزیں ہیں‘ عقل لوگوں کو کسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے‘ کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی لیکن دل ہر بندھن سے آزاد ہوکر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے‘ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ‘ ہمت کرو اور ڈوب جاؤ کیفیت میں۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھر جانے اور فنا ہو جانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے ۔یہاں حضرت نے انسانی جبلتوں کی آبائی قوت کا اندازہ لگانے میں سہل انگاری سے کام لیا۔ پند و نصائح کے بعد اب شمس تبریزی اپنی بات سمجھانے کی خاطر Mythology کا سہارا لیتے ہوئے فرماتے ہیں‘خزانے بھی تو ویرانوں میں ملبے تلے ملتے ہیں‘ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے۔
(6) دنیا کے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معانی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خود کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو الفاظ بیان اور زبان و اظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہو سکے‘ اس کو صرف خاموشی سے ہی ''سمجھا‘‘ جا سکتا ہے۔ (7) تنہائی اور خلوت‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب ہم تنہا اور اکیلے ہوتے ہیں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جانا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ ہم سیدھے راستے پر ہیں۔ لیکن خلوت یہی ہے کہ آدمی تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہ ہو۔ بہتر ہے کہ ہماری تنہائی کسی ایسے شخص کے دم قدم سے آباد ہو جو ہمارے لیے ایک بہترین آئینے کی حیثیت رکھتا ہو۔ یاد رکھو کہ صرف کسی دوسرے انسان کے دل میں ہی تم اپنا درست عکس دیکھ سکتے ہو اور تمہاری شخصیت میں خدا کے جس مخصوص جلوے کا ظہور ہو رہا ہے‘ وہ صرف کسی دوسرے انسان کے آئینۂ قلب میں تمہیں دکھائی دے گا۔ (8) زندگی میں کچھ بھی ہو جائے‘ زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ لگنے لگے‘ مایوس مت ہونا۔ یقین رکھو کہ جب ہر دروازہ بند ہو جائے تب بھی خداوند کریم اپنے بندے کیلئے کوئی نہ کوئی نئی راہ ضرور کھول دیتا ہے۔ ہر حال میں شکر کرو۔ جب سب کچھ اچھا جا رہا ہو‘ اس وقت شکر کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک صوفی نہ صرف ان باتوں پر شکر گزار ہوتا ہے جن میں اس کے ساتھ عطا اور بخشش کا معاملہ گزرے بلکہ ان تمام باتوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے جن سے اسے محروم رکھا گیا۔ عطا ہو یا منع‘ ہر حال میں شُکر۔ (9) صبر اس بات کا نام نہیں ہے کہ انسان عضوِ معطل ہوکر بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گزرتا رہے۔ بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگاہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسا رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمہیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گھپ اندھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبح صادق کا اجالا بھی دکھائی دے۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پر نظر ڈالنے سے قاصر رہ جائے۔ عاشقانِ الٰہی صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہِ کامل میں تبدیل ہونے کیلئے کچھ وقت ضرور لگتا ہے۔ (10) مشرق‘ مغرب‘ شمال‘ جنوب‘ ان سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘ تمہارے سفر کی سمت کوئی بھی ہو‘ بس یہ دھیان رہے کہ ہر سفر ذات کا داخلی سفر ضرور بنے۔ اگر تم اپنی ذات کے اندرون میں ایک سے دوسرے مقام تک کا باطنی سفر کرو تو تمہارے ساتھ یہ پوری کائنات اور جو کچھ اس سے ماورا ہے‘ وہ بھی شریکِ سفر ہو جاتے ہیں۔
(11) جس طرح ماں بچے کو جنم دینے کیلئے دردِ زہّ کے مرحلے سے گزرتی ہے‘ اسی طرح نئی شخصیت کو جنم دینے کیلئے تکالیف ضرور اٹھانی پڑتی ہیں۔ جس طرح دن کو اپنی روشنی پوری شدت کے ساتھ بکھیرنے کیلئے‘ شدیدگرمی اور حدت برداشت کرنی پڑتی ہے‘ اسی طرح محبت بھی دکھ اور درد کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ (12) محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گزرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو‘ تمہارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔ (13) آسمان پر شاید اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کیلئے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا بلکہ اس کے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متعارف کرائے گا۔ سچے اور کامل مرشد شیشے کی مانند شفا ف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چھن کر تم تک پہنچ سکے (14) زندگی میں جو بھی تبدیلی تمہارے راستے میں آئے‘ اس کے استقبال کیلئے تیار رہو‘ اس کی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گزر کر اپنا راستہ بنا سکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آرہے ہیں۔ تمہیں کیا پتا کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟ (15) ہر انسان ایک تشنۂ تکمیل فن پارہ ہے۔ جس کی تکمیل کیلئے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے‘ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شاہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ (جاری)