مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ (30) سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائے اور ہر سمت سے ملامت کی بوچھاڑ ہو‘ تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے‘ تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا‘ کوئی اس کا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ ''غیر‘‘ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے‘ چنانچہ وہ کس طرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟ (31) اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہو گی‘ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کیلئے پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں‘ حادثات‘ نقصان‘ تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لیے پیش آتے ہیں کہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں‘ ہمیں خود غرضیوں سے نکالیں‘ ہمارے نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ پوری انسانیت ان میں سما سکے اور اس کے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔ (32) امام‘ پادری‘ ربّی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی رب اور تمہارے بیچ حائل نہیں ہونا چاہیے حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشِد بھی نہیں۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو لیکن ان کو دوسروں پر مسلط مت کرو۔ اگر تم لوگوں کے دِلوں کو توڑتے رہتے ہو تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لیے سود مند نہیں۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اور معرفت ضرور حاصل کرو لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔ (33) اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن یہیں چھوڑنا پڑے گا‘ ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم برتن کی طرح ہیں‘ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں لیکن اس کا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اس کے اندر ہے‘ یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا بلکہ خالی پن کا یہی احساس ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔ (34) سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہو جائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation) ہے بلکہ یہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رِضا ہے‘ ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے‘ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی (Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں‘ وہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہو جائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ (35) اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں‘ یکسانیت اور ہمواریت ہمیں آگے لے کر نہیں جاتی بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لے کر جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی تضادات ہیں‘ وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر پائے جاتے ہیں؛ چنانچہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہیے۔ ایمان تدریجی سفر ہے جس کے لیے اس کے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان‘ انسانِ کامل کے مقام تک جا پہنچے۔ (36) دنیا عمل اور اس کے ردِعمل کے اصول پر قائم ہے‘ نیکی کا قطرہ یا برائی کا ذرہ بھی اپنا ردِعمل یا نتیجہ پیدا کیے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں‘ دھوکا دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ۔ اگر کوئی تمہارے لیے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو اللہ خیر الماکرین ہے۔ پتا بھی اس کے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اس پر سادگی سے پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرے‘ خوبصورتی سے کرتا ہے۔ (37) خدا باریک بین اور بڑا ہی ماہر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پذیر ہوتی ہے‘ نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے اور یہ عظیم گھڑی بغیر کسی استثنا کے‘ سبھی کیلئے بالکل ٹھیک اور درست کام کرتی ہے‘ ہر ایک کیلئے محبت اور موت کا لمحہ مقرر ہے۔ (38) کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ ''کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کیلئے تیار ہوں؟‘‘۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گزرے ہوئے دن کے مساوی گزرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ‘ ہر آن اور ہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہیے‘ نیاجنم لیتے رہنا چاہیے اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔ موت سے پہلے مر جانا۔ (39) جُز تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہو‘ اس کی جگہ لینے کیلئے نیا شخص پیدا ہو جاتا ہے اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ (40) محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی‘ ملکوتی یا ناسوتی‘ مشرقی یا مغربی۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان ہے نہ کوئی مخصوص تعریف۔ یہ تو سادہ اور خالص چیز ہے۔ محبت آبِ حیات ہے اور آتش کی روح بھی۔ جب آتش آب سے محبت کرے تو کائنات مختلف روپ اور نئے انداز میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے۔
مولانا جلا الدین رومیؒ نے عشق کے جو 40نرالے اصول وضع کیے‘ وہ بھی دراصل اسی عقل کی تخلیق ہیں جسے وہ ناقص کہہ کر ٹھکراتے ہیں اور وہ عشق کو شعور کے بغیر معقول مگر ماورائے ادارک بناتے ہیں حالانکہ اصول بجائے خود ایسی بنیادی سچائی یا تجویز ہے‘ جو عقیدے یا طرزِ عمل کے نظام یا استدلال کے سلسلے کی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے یعنی اصول فی نفسہٖ عقل کی اولادِ معنوی ہے‘ شاید اسی لیے پروفیسر احمد رفیق اختر کہتے ہیں رومیؒ صوفی نہیں بلکہ فلسفی تھے اور عشق کے 40اصولوں کو پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ رومیؒ نے مذہب سے قطع نظر کرکے عشق کے تصور کو خالص فلسفیانہ اصولوں پہ استوار کیا۔ جس طرح کنفیوشس نے کہا تھا ''تصوف مذہب نہیں یہ محض اخلاق ہے اور اخلاق بھی ان عالی دماغ لوگوں کے لیے جنہیں اخلاق کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن مذہب اخلاق کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے اور اس چیزکے بغیر اخلاق ایسی آگ ہے جو دور ہونے کی وجہ سے اپنی حرارت تم تک نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ یعنی تصوف حرارت کے نشتر کو کند کرکے انسانوں کو بغاوت اور الوالعزمی کے جذبات سے محروم کر دیتا ہے۔ اس لیے مولانا رومؒ کی عشق کی تمثیلی تعریف دراصل عقل‘ دین اور فطرت سے ماروا ایسا نرگسیت آمیز رومان ہے جس میں کسی طرح کی حدود کی پیروی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ یہی طریق ہمیں شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ''عبقات‘‘ میں بھی ملتا ہے‘ جو شریعت و سنت کو بائی پاس کرکے براہِ راست اس مبدا فیاض سے فیض پانے کا دعویٰ کرتے ہیں جہاں سے ابنیا ؑ فیضیاب ہوتے آئے‘ یہ تصوف کی وہ سیکولر اپروچ ہے جس کی اساس وحدت الوجود کے فلسفہ پہ رکھی گئی‘ اسی تصور سے مغلوب ہو کر منصور حلاج نے اَنالحق کہہ کر اپنی ذات کو وجودِ حق کا جُز تصور کر لیا تھا‘ تصوف کے اسی فلسفے کو مشرق و مغرب کے سیکولر اور ہندو مواحد بھی قبول کرتے ہیں اور ایسے ہی خیالات کی بازگشت ہمیں بابا بھلے شاہ‘ سرمد‘ شاہ حسین اور خواجہ فرید کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ (جاری)