"AAC" (space) message & send to 7575

ایک عہد تمام ہوا ؟

اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ پانچ اگست کو توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنا چکی ہے۔عدالتی فیصلے میں لکھاہے کہ ''عمران خان نے سرکاری خزانہ سے فوائد حاصل کیے مگر اسے جان بوجھ کر چھپایا‘ جس سے وہ بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے ہیں‘‘۔مذکورہ فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 174 کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ '' انہیں یہ الزام ثابت ہونے پر تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔یہ فیصلہ آتے ہی چیئرمین پی ٹی آئی کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے اٹک جیل پہنچا دیاگیاجس پر ماحول میں اک معمولی سا ارتعاش ضرور پیدا ہوا تاہم کوئی بامعنی سیاسی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔توشہ خان کیس میں خان صاحب اور ان کے رفقا عدالت میں قانونی جنگ لڑنے کے بجائے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے قانونی عمل کو التوا میں ڈالنے اور ان تکنیکی امور کو سیاسی رنگ دینے کی تگ و دو کے سوا مؤثرسیاسی مزاحمت یا مربوط قانونی چارہ جوئی میں ناکام رہے۔ اس سزا سے ان کا سیاسی کیریئر ختم اور مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے‘ بظاہر وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔
خان صاحب اپنے سیاسی سرمایے کو اگر تشدد اور نفرت کی تلقین کے ذریعے ریاستی مقتدرہ کے ساتھ ٹکراؤ میں ضائع کرنے کے بجائے نوازشریف کی طرح خاموش مزاحمت کرتے تو آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف ہوتی کیونکہ اس وقت معروضی حالات کافی مختلف ہیں۔آج سے پہلے دنیا بھر میں ان استبدادی حکومتوں کو برداشت کیا گیا جو عالمی قوتوں کے غلبہ کو قبول کرنے پہ آمادہ ہوتی تھیں لیکن ماضی کے برعکس افغانستان میں شکست کے بعد مغربی طاقتیں یہاں آمریت کے بجائے ایسی پاپولر جمہوری لیڈرشپ کی متمنی ہیں جیسی پاپولسٹ قیادت انڈیا کے سیاسی ماحول پہ سایہ فگن نظر آتی ہے۔قبل ازیں مغرب کی مہذب اقوام کے عالمی مفادات پاکستان میں جمہوری قوتوں کی بیخ کنی اور آمریتوں کی آبیاری کے متقاضی رہے‘اسلئے لیاقت علی خان سے لے کر حسین شہید سہروردی اور ذولفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف تک مقبول سیاسی لیڈرشپ کو پُراسرار انداز میں عبرتناک انجام کا مزا چکھانے میں عالمی مقتدرہ کی مہارتیں کام آتی رہیں۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بدلتے موسموں میں خان صاحب کے پالیسی ساز یہی سمجھتے رہے کہ جیسے 1971ء میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی عالمی سکیم نے مقتدرہ کی شکست کے اسباب مہیا کیے تھے‘اسی طرح پی ٹی آئی کی پُرتشدد جدوجہد بھی مقتدرہ کے خلاف عالمی برادری کا تعاون حاصل کر لے گی لیکن جنوبی ایشیا کے معروضی حالات اور عالمی نظام کی زبوں حالی کے علاوہ 2023ء کے ایٹمی پاکستان کی وجہ سے خطہ میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے‘چنانچہ ہماری سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں امریکی اثر و رسوخ بتدریج ختم ہو رہا ہے ۔
ادھر وزیراعظم شہبازشریف نے مدت سے تین دن پہلے قومی اسمبلی تحلیل کرکے 2018ء سے شروع ہونے والے اس ہنگامہ خیز عہد کو اختتام تک پہنچایا جس نے قومی سیاست کی پوری حرکیات کو بدل ڈالا تاہم اس سال کے آخر میں ہونے والے متوقع عام انتخابات کو نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں پہ جاری کام کے ذریعے تین ماہ تک التوا میں رکھا جا سکتا ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC)جیسے غیرمعمولی فورم کی تشکیل کے علاوہ جس طرح کی قانون سازی کو وجود بخشا اس سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والی مالیاتی خود مختاری غیر موثر ہو جانے کے علاوہ مقتدرہ کی معاشی سلطنت کا آئینی چھتری تلے سمٹ آنا بھی نہایت اہم پیش رفت تھی‘یہی پیش دستی وسیع سیاسی تغیرات کے علاوہ ایک قسم کے اتھارٹیرین نظام کی طرف کرالنگ کا اشارہ دکھائی دے رہی ہے‘ تاہم صوبائی حقوق کی کسٹوڈین سمجھی جانے والی پیپلزپارٹی کو کراچی بلڈنگ اتھارٹی کے چیف کی گرفتاری کے علاوہ متوقع بندوبست میں مناسب حصہ پانے کی امیدوں نے بے بس کر رکھا ہے۔علی ہذالقیاس یہ سب اسی محوری عمل کاحصہ ہے جس کے تحت ماضی میں بھی وزرائے اعظم کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی مشقِ ستم کیش کو آزمایا گیا‘افسوس کہ خان صاحب خود بھی کبھی ایک صفحہ کی سیاست کے ذریعے اسی جدلیات کے بینیفشری رہے لیکن بالآخر بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی طرح انہیں بھی قانونی عمل کے ذریعے اگلے الیکشن سے پہلے کھیل کے میدان سے ہٹا دیا گیا‘جو سیاسی رہنماؤں کے پیچیدہ اختلاف کے ذریعے معمول کی پَلے بک کا حصہ ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران گرفتار ہونے والے سابق وزرائے اعظم میں خان صاحب ساتویں وزیراعظم ہیں جو جیل گئے‘حتیٰ کہ موجودہ وزیر اعظم کے بھائی میاں نواز شریف‘ جو تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں‘ کو بھی کئی بار کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا لیکن وہ سیاسی تلویث اور قانونی و سیاسی مزاحمت کے ذریعے اقتدار کی سیاست میں واپس پلٹ آئے تاہم اظہار کی من مانی عادتوں اور تنہا پرواز کا شوق اقتدار میں ان کی دوبارہ واپسی کے امکانات کو معدوم کر رہا ہے۔عدم اعتماد کی تحریک جیسے آئینی طریقہ کارکے ذریعے اقتدار سے الگ کیے جانے کی عمل کو آمرانہ انداز میں روکنے کی جسارت خان صاحب کے ذہنی رویوں کی عکاس تھی یعنی وہ جمہوری حکمراں بن سکے نہ مزاحمتی سیاست کا ہنر جان پائے۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑ کر خود پُرتشدد طریقوں سے ریاست کو جھکانے کی کوشش میں پورا متاعِ سیاست داؤ پہ لگانا کہاں کی دانشمندی تھی۔ اسی مخمصہ میں خان صاحب نے بتدریج پنجاب و خیبر پختونخوا کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں گنوائیں‘وہ اگر پارلیمان میں سیاسی عمل کا حصہ رہ کر متذکرہ بالاصوبوں میں اقتدار بچاتے تو آج ان کے ہاتھ سیاسی فیصلہ سازی کی قوت موجود ہوتی مگر تشدد کی راہ اپنانے سے صفِ اول کی لیڈر شپ بے مقصد جنگ میں ڈوب گئی۔ شیریں مزاری‘ اسد عمر‘پرویز خٹک اور فواد چوہدری سمیت تمام باصلاحیت لوگ ٹوٹتے گئے۔ اگرچہ سیاسی طور پہ خان کو مٹانا اب بھی مشکل ہے لیکن کم از کم وہ اگلے انتخابات میں اقتدار میں واپس نہیں آسکیں گے۔ انہیں معمول کے سیاسی دھارے کا حصہ بننے کی خاطر سیاسی قوتوں کیساتھ باہمی تعاون کی ضرورت ہوگی لیکن اس میں بھی کچھ وقت لگے گا۔اگر وہ میسر سیاسی قیادت کو بے وقت موت مرنے پہ مجبور نہ کرتے تو انکے بغیر بھی پی ٹی آئی الیکشن جیت سکتی تھی مگر انکی افتادِ طبع پورا سیاسی سرمایہ ٹھکانے لگانے کے بعد خود تاریک راہوں میں گم ہو جانے پہ قناعت کر بیٹھی۔اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تو خان قانوناً کسی حلقہ سے انتخاب لڑنے یا پی ٹی آئی کی قیادت کرنے کے اہل نہیں رہیں گے‘ تاہم انکی پارٹی اب بھی پارلیمانی الیکشن لڑ سکتی ہے۔
خان کا مستقبل غیر یقینی سہی لیکن عام خیال یہی ہے کہ متوقع عام انتخابات کی ساکھ کو بچانے کی خاطر تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی ہر چند کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی بڑی تعداد میں سیٹیں جیتنے کی صلاحیت محدود رہے گی لیکن سیاسی بقا کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے لوگ قابلِ ذکر تعداد میں پارلیمنٹ تک پہنچ جائیں گویا ہر حال میں الیکشن میں شرکت پی ٹی آئی کا مستقبل بچانے کیلئے ناگزیر ہے لیکن خان کی ذہنی روایت کے باعث اس امر کا قوی امکان ہے کہ وہ پارٹی کو الیکشن بائیکاٹ کا حکم دے کر اپنے مخالفین کی حیران کر سکتے ہیں۔قید کی سزا کے باوجود خان کی مقبولیت کا دائرہ مزید وسیع ہوا‘کچھ سالوں میں وہ واپسی کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ سیاسی صلاحیتوں کو ظاہر کریں۔ بالخصوص سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کیونکہ وہ اکیلے غیر جمہوری عناصر کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘ چاہے ساری عالمی برادری بھی ان کے ساتھ کھڑی کیوں نہ ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں