ہمارے ریاستی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کے خلاف تیزی سے ابھرتی ہوئی رائے عامہ اس امر کی غماز ہے کہ اب اصلاحِ احوال ممکن ہو جائے گی کیونکہ مرض جب حد سے بڑھ جائے تو اپنا علاج خود کرنے لگتا ہے۔ یہ جو ہمارے سماج میں وقفے وقفے سے اضطراب کی لہریں اُٹھ رہی ہیں‘ یہ اس عمیق جمود کے خاتمے کا اشارہ ہیں جس نے آکٹوپس کی طرح پچھلی سات دہائیوں سے اس مملکت کو گرفت میں لے رکھا تھا۔ گزشتہ پچھتر برسوں سے ہمارے حکمرانوں کی مساعی کا محور جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کا تحفظ اور مغرب کی عالمی سیاست کے تقاضوں پر پورا اترنا تھا‘ چنانچہ اسی تناظر ہمارے اربابِ بست و کشاد نے ابتدائی 25برسوں میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نوزائیدہ مملکت کو تین بڑی جنگوں میں جھونک کر معاشی طور پہ کمزور اور جغرافیائی لحاظ سے دو لخت کر دیا۔ پھر 1979ء میں افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کے خلاف پہلی افغان گوریلہ جنگ کا لانچنگ پیڈ بن کر پاکستانی معاشرے کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر میں مبتلا کرکے داخلی انتشار کے سپرد کیا اور پھر ستمبر 2001ء میں مسلم دنیا کے خلاف لڑی جانے والی امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ‘ جس نے ملک کا پورا انفراسٹرکچر اور انتظامی ڈھانچہ منہدم کرنے کے علاوہ ایسی مہیب فرقہ واریت کو وجود بخشا جس نے معاشرتی زندگی کے تار پود بکھیر کے زندہ انسانوں سے بنیادی حقوق اور سماجی آزادیاں تک چھین لیں۔ اسی بے مقصد جنگ کے مہلک اثرات آج بھی ہمارے اداروں اور انتظامیہ کا تعاقب کر رہے ہیں تاہم اسی ناقابلِ بیان تباہی کی کوکھ سے اصلاحات کے اُن تقاضوں نے بھی جنم لیا جنہیں سوشل میڈیا کی برق رفتار لہروں نے سرعت کے ساتھ طاقتور رائے عامہ میں ڈھال کر کار آمد بنا لیا۔ رائے عامہ کی اسی قوت نے ادارہ جاتی عدم توازن اور ملکی پالیسیوں پہ عالمی طاقتوں کے اثرات کو کند کر دیا ہے۔ خاص کر افغانستان سے امریکی پسپائی کے بعد ہماری مقتدرہ عالمی قوتوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد ہوئی تو اب ہمیں حدِ نظر تک تعمیرِ نو کے امکانات پھیلے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اگر ہماری قومی قیادت نے تھوڑی سی کسرِ نفسی اور کچھ ذہنی دیانت کا مظاہرہ کیا تو قوم بہت جلد اس آشوب سے نجات حاصل کر لے گی‘ پون صدی سے جس نے ہمارے قومی وجود کو مقید کر رکھا تھا۔
ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقشِ زندگی ہے۔ ہمارے نظام میں ہویدا ہونے والی اس ظاہری افراط و تفریط کو ختم کرنے کیلئے رائے عامہ کافی ہے اور یہ کسی بھی قانون سے زیادہ مؤثر ثابت ہو گی۔ یہ پہلی بار ہوا کہ سوشل میڈیا نے عالمی مقتدرہ سمیت‘ ریاست کا رائے عامہ پہ کنٹرول ختم کر دیا۔ اس لحاظ سے ہماری قومی تاریخ کا یہ مرحلہ نہایت اہم ہے۔ اگرچہ عالمی طاقتیں اب بھی عوامی رائے کی رُخ گردانی کرکے پُرامن اصلاحات کے عمل کو روکنے کیلئے عوامی غیظ و غضب کا رُخ ریاست کے مقتدر حلقوں کی طرف موڑنے میں مصروف ہیں لیکن کہنہ مشق سیاسی جماعتوں کے علاوہ وکلا‘ تاجر انجمنیں اور صحافتی تنظیمیں قومی سلامتی کو گزند پہنچائے بغیر ملک کو آئینی نظام کے تحت لانے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم فوری طور پہ ملکی سیاست میں اُس مقتدرہ کا کردار ختم نہ کر سکیں جسے پالیسی امور میں غیر معمولی برتری حاصل رہی لیکن جس طرح وہ جُزیات تک کنٹرول پانے میں مشغول ہے‘ یہ غیر فطری عمل ہے جو اسے خود بخود بے اثر بنا دے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الیکشن میں تاخیر پی ٹی آئی کیلئے مفید ثابت ہو گی۔ تحریک انصاف مگر خان کے بغیر انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے گریزاں ہونے کے باوجود جلد انتخابات کے انعقاد کے مطالبہ کی جگالی کے ذریعے اپنے کارکنوں کو سرگرم اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی مساعی جاری رکھے گی۔ خان کے جیل میں ہونے کے باعث پی ٹی آئی امید کرے گی کہ وہ اپنے حامیوں کی ہمدردی اور غصے کو انتہا تک پہنچا کر مقتدرہ کے ساتھ تعطل کو دور کرے۔ خان کو ادراک ہے کہ پی ٹی آئی کی ایوانِ اقتدار میں واپسی کا امکان ماضی کی طرح اب بھی مقتدرہ کے تعاون پر ہی منحصر ہے لیکن ان کی حریف سیاسی جماعتیں کسی کو بھی 2018ء کی تاریخ دہرانے کی اجازت دیں گی‘ نہ ملک ایسی کسی مہم جوئی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ 2017ء میں عالمی مقتدرہ کی اعانت سے ایوانِ اقتدار سے نکالے جانے والے تین بار کے وزیراعظم نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے واپسی کے خواہاں ہیں لیکن اب کی بار وہ چند مہم جُو شخصیات کے احتساب کے مطالبہ کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کی ٹھان چکے ہیں‘ جسے اگر وہ عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے تو مملکت کی ہیئت ترکیبی اور قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔
مغربی ذرائع ابلاغ کی مہمات سے عیاں ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کی چین کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کی راہ روکنے کیلئے موجودہ بحران کو بہترین موقع میں بدلنا چاہتی ہیں اور اسی تناظر میں وہ خان کی مشکلات کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی میں مشغول ہیں۔ خان کے زوال کے بعد مغربی اشرافیہ کی امیدوں کا مرکز پیپلز پارٹی کے جوان سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں‘ اس لیے مغربی میڈیا بلاول بھٹو زرداری کی امیج بلڈنگ کے علاوہ ملکی سیاست میں پیپلز پارٹی کی بتدریج گھٹتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی خاطر اسے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اتحاد میں منسلک کرنے میں مفاد تلاش کر رہا ہے۔ ادھر ماضی کی طرح اب بھی عالمی طاقتیں پاکستان کا معاشی استحصال کرکے ہماری قومی سیاست پہ اثر انداز ہونے سے باز نہیں آرہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج کی وجہ سے ڈیفالٹ کو ٹالنے کے بعد 350بلین ڈالر کی معیشت کی بحالی کی خاطر اقتصادی استحکام سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقتصادی اصلاحات نے پہلے ہی تاریخی افراطِ زر اور شرحِ سود کو ہوا دے کر حکومت کے خلاف عوامی غصہ کو بڑھاوا دیا اور وسیع پیمانے کی اسی عوامی ناراضگی کو عالمی ذرائع ابلاغ خان کی سیاسی حمایت میں منتقل کرنے کی مساعی میں مصروف ہیں۔ اگرچہ 9 مئی کے برعکس اب کی بار خان کے جیل جانے کے باوجودکوئی تحریک برپا نہیں ہوئی لیکن انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر جہاں آئینی اور قانونی سوالات پیدا کرے گی‘ وہیں نظام انصاف کی طرف سے آئینی سوالات کی تشریح کیلئے قدم اٹھا کر سیاسی ماحول پہ اثرانداز ہونے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ مغربی اشرافیہ پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کو جواز بناکر انتخابی عمل کی ساکھ پر سوال اٹھانے کے علاوہ ملک کی معاشی مشکلات سے نکلنے کی راہیں مسدود بنائے گی۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے گیس منصوبے کو عارضی طور پہ معطل کر دیاہے۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے سابق وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا تھا ''پاکستان نے ایران کو گیس سیلز اینڈ پرچیز ایگریمنٹ (GSPA) کے تحت فورس میجر اینڈ ایکوزنگ ایونٹ کا نوٹس جاری کرکے پاکستان کی ذمہ داریوں کو معطل کر دیا۔ ایران پر سے پابندیاں ہٹنے اور سرکاری اداروں کو کوئی خطرہ نہ ہونے کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا جائے گا‘‘۔ مصدق ملک نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کیلئے کوئی آخری تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے دورۂ اسلام آباد کے دو دن بعد سامنے آئی تھی جب دونوں ممالک نے پانچ سالوں کے دوران 5بلین ڈالر سے زیادہ کے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امیر عبداللہیان نے کہا تھا کہ ہم نے دونوں ممالک کے سرکاری وفود کے درمیان سیاسی‘ اقتصادی‘ تجارتی‘ سیاحتی اور سرحدی امور پر بات چیت کی اور ہمیں یقین ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل دونوں ممالک کے قومی مفادات کو پورا کرے گی۔