"AAC" (space) message & send to 7575

غزہ کا المیہ مسلم دنیا کو متحد کر سکتا ہے؟

سعودی عرب کی میزبانی میں ہفتہ کے روز منعقد ہونی والی عرب‘ اسلامی کانفرنس میں مسلم ممالک کے سربراہان نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبہ کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو حقِ دفاع قرار دینے کی منطق کو مسترد کر دیا ہے۔ اجلاس کے حتمی اعلامیہ میں غزہ میں معصوم شہریوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم اور قابض حکومت کی طرف سے وحشیانہ قتلِ عام کی مذمت کی گئی۔ سعودی وزارتِ خارجہ کے مطابق عرب لیگ اور او آئی سی کا مشترکہ اجلاس غزہ میں رونما ہونے والے غیرمعمولی حالات کے پیش نظر منعقد کیا گیا تاکہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے تمام مسلم ممالک کی مساعی کو مربوط کرنے کے علاوہ متفقہ اجتماعی پوزیشن کے ساتھ سامنے آیا جائے۔ ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بعد اسلامی ممالک کے نمائندوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے‘ انسانی امداد کی راہ کھولنے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے جیسے مطالبات کو دہرایا۔ مسلم رہنماؤں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے فیصلہ کن قرارداد منظور کرے۔ اجلاس میں ابتدائی طور پر عرب لیگ کے 22ارکان کی شرکت متوقع تھی لیکن بعد میں توسیع کرکے اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کو بھی مدعوکر لیا گیا۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو اس بات کی پروا نہیں کہ او آئی سی اور عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں کیا ہو رہا ہے اور معروضی حقائق سے بھی یہی احساس ابھرتا ہے کہ عرب اور مسلم رہنماؤں کے پاس جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی راہداری پیدا کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں‘ اس لیے سربراہی اجلاس جارحیت روکنے کا سبب نہیں بلکہ یہ محض عرب اور مسلم دنیا کے علامتی اتحاد کا مظہر اور صرف عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کی مساعی دکھائی دیتا ہے۔ افتتاحی کلمات میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ یہ ایسا انسانی المیہ ہے جو بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ میں اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکنے میں ناکامی کے ذریعے مہذب دنیا کے دہرے معیارات کو عریاں کر گیا۔ ایم بی ایس نے مزید کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ امن کا واحد ذریعہ یہودیوں کی غیرقانونی بستیوں کا خاتمہ اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کے علاوہ ایسی فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ غزہ میں چند گھنٹوں کا توقف نہیں بلکہ وہاں ہمیں مستقل جنگ بندی مطلوب ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے عالمی قوتوں سے مطالبہ کیا کہ نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی بند کرائی جائے۔ اس مسئلے کا فوجی حل قبول نہیں کریں گے کیونکہ ایسے تمام فارمولے بار بار ناکام ثابت ہوئے۔ ہم غزہ یا مغربی کنارے سے اپنے لوگوں کو بے گھر کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے سوال اٹھایا کہ عالمی برادری کب تک اسرائیل کو تمام بین الاقوامی قوانین سے بالاتر ہونے کی سہولت فراہم کرتی رہے گی۔ انسانیت ان مناظر کے سامنے بے بس کیوں ہے؟ کون سوچ سکتا تھا کہ21ویں صدی میں ہسپتالوں پر کھلے عام گولہ باری کی جا سکتی ہے؟ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اس بات پر زور دیا کہ قتل‘ محاصرے اور جبری نقل مکانی کے ذریعے اجتماعی سزا کی پالیسی ناقابلِ برداشت ہے‘ اسے محض حقِ دفاع کے نقاب میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی ریاض میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی۔ یہ 11سال میں کسی ایرانی صدر کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا۔ رئیسی نے کہا کہ واشنگٹن اقوامِ متحدہ کے فورم پہ اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کو روکنے والی قرار دادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے لیے غزہ میں مزید ہلاکتوں کی راہ ہموار بنا رہا ہے‘ تاہم پوری دنیا‘ بالخصوص عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیل غزہ کی شہری آبادیوں‘ ہسپتالوں اور ریلیف کیمپوں پر بمباری سے باز نہیں آیا بلکہ اسرائیل کی طرف سے حالیہ دنوں میں ہسپتالوں پر حملوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ اقوام متحدہ کو یہ کہنا پڑا کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کی زندگیاں ایک دھاگے سے لٹکی ہوئی ہیں۔ عرب لیگ کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری حسام ذکی نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ ہم بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کی حمایت کا اعادہ کرنے اور فوری طور پہ غزہ میں جارحیت کو روکنے کے علاوہ اسرائیل کو جنگی جرائم کی پاداش میں جوابدہ کیسے بنا سکتے ہیں تاہم سربراہی اجلاس میں الجزائر‘ لبنان اور عراق کی طرف سے اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کرنے‘ عرب ممالک کی فضائی حدود اور امریکی اڈوں کا استعمال روکنے کی تجویز پہ اتفاق نہ ہو سکا۔
قبل ازیں سعودی عرب نے جمعہ کو ریاض میں افریقی‘ سعودی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جبکہ روس‘ ایران‘ ترکیہ اور پاکستان جمعرات کو قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں غزہ کی صورتحال پہ غور کریں گے۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں پھوٹنے والے مظاہروں اور عالمی سطح پہ فعال ہوتی سفارت کاری سے عیاں ہے کہ غزہ کی جنگ نہایت سرعت کے ساتھ عالمی منظرنامے پہ سایہ فگن ہو چکی ہے‘ یعنی دنیا کے چھوٹے سے ٹکڑے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے کرۂ ارض پہ وسیع اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ کی موجودہ لڑائی دنیا کو بڑے علاقائی تنازع کی طرف دھکیل کر تیسری عالمی جنگ کا امکان پیدا کر سکتی ہے۔ اگرچہ فی الحال کوئی مسلم ریاست براہِ راست جنگ میں ملوث ہونے کی خواہش مند نظر نہیں آتی البتہ امریکی حکام تنازع کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں‘ اس لیے یہ جنگ اگر غزہ تک محدود اور جلد ختم ہو بھی گئی تو پوری دنیا میں اس کے اثرات باقی رہیں گے کیونکہ سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اچانک حملے سے پہلے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یوکرین میں روس کے خلاف پراکسی جنگ کو طول دینے میں سرگرداں تھے۔ بظاہر ان کا مقصد یوکرین کی مدد کرنا تھا تاکہ وہ فروری 2022ء کے بعد چھینے گئے علاقے واپس لے کر روس کو اس حد تک کمزور کر دے کہ وہ امریکہ کے لیے مستقبل کا چیلنج نہ بن سکے‘ تاہم مزاحمت بتدریج کمزرو ہو رہی تھی حتیٰ کہ یوکرین کی موسم گرما کی ممکنہ جوابی کارروائی بھی رک گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ فوجی طاقت کا توازن بتدریج ماسکو کی طرف جھک رہا ہے۔ کیف کے لیے کھوئے ہوئے علاقے مذاکرات یا ہتھیاروں کے ذریعے حاصل کرنے کی امیدیں بھی دم توڑ رہی تھیں۔ دوسری جانب امریکہ مڈل ایسٹ میں چین کے خلاف بڑی معاشی جنگ چھیڑنے کی راہیں تراش رہا تھا۔ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کا مقصد بیجنگ کو سیمی کنڈکٹر کی پیداوار‘ مصنوعی ذہانت‘ کوانٹم کمپیوٹنگ اور دیگر ہائی ٹیک شعبوں کی کمانڈنگ بلندیوں پر غلبہ پانے سے روکنا ہے۔ امریکہ چونکہ چین کو طویل المدتی حریف کے طور پر دیکھتا ہے‘ اس لیے اقتصادی پابندیوں کی سختی بڑھانے یعنی چھوٹا صحن اور اونچی باڑ بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن عملاً چھوٹا صحن بڑا ہوتا چلا گیا چنانچہ بائیڈن انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ میں چین کی اقتصادی پیش قدمی کو روکنے اور سعودی عرب کو چین سے دور ہونے کے بدلے ہر قسم کی حفاظتی ضمانت اور شاید حساس جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کی اجازت دینے پہ آمادگی ظاہر کر دی۔ یہ تو واضح نہیں کہ چین سعودی معاہدہ ختم ہو سکے گا یا نہیں لیکن ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ خدشات کی اسی دھند میں حماس کی مزاحمت کو کچلنے کی خاطر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات خطے میں ایسی وسیع جنگ کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں جو چین کی صحت مند اقتصادی پیش قدمی روک دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں