جسٹس محمد رستم کیانی کے نام سے ہم واقف ہیں‘ اس لیے کہ ملکی تاریخ کے ایک سیاہ دور میں جس بے باکی اور حسِ مزاح سے آمریت کو انہوں نے نشانہ بنایا‘ اس جرأتِ اظہار نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ جب وہ مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے اور بھی جج صاحبان تھے۔ کتنوں کا نام ہمیں یاد ہے؟ عوامی حافظے میں اگر جسٹس کیانی کا نام زندہ ہے تو ان کے ساتھی ججوں کے نام تاریخ کے دھندلکے سایوں میں گم ہو چکے ہیں۔ آج کے سپریم کورٹ میں کتنے جج صاحبان ہیں‘ کسی کا قدم اس طرف پڑ رہا ہے کسی کا کہیں اور۔ خطرے میں سپریم کورٹ نہیں ہے‘ خطرے میں اس ملک کا آئین ہے کیونکہ آئین پہ بے رحم حملے ہو رہے ہیں۔ ریشہ دوانیاں بھی بہت جاری ہیں اور معلوم نہیں کہ معاملات کہاں جاکے رکیں گے۔ لیکن ایک بات تو عیاں ہے کہ آئین کے دفاع میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کچھ جج صاحبان ڈٹ کے کھڑے ہیں۔ کتنا کچھ ان کو سہنا پڑرہا ہو گا لیکن ہر چیز کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
عدلیہ کے حوالے سے نون لیگ کا درخشاں ریکارڈ ہے۔ ہماری تاریخ میں اتنے طالع آزما آئے‘ سب نے ہر حربہ استعمال کیا اعلیٰ عدلیہ کونگوں کرنے کیلئے۔ پی سی او کے قانون پاس کیے گئے‘ ناپسندیدہ ججوں سے حلف نہ لیا گیا‘ اس نیک کام میں لالچ اور دھونس بھی بروئے کار لائے گئے لیکن کسی طالع آزما نے گماشتوں کے ذریعے سپریم کورٹ پر باقاعدہ فزیکل حملہ نہ کیا۔ یہ اعزاز نون لیگ کا ہے۔ 1997ء میں جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ نون لیگی قیادت کے حسبِ منشا رام نہیں ہو رہے تھے تو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں لاہوری ناشتے کے بعد نون لیگیوں کے ایک ہجوم نے سپریم کورٹ کا رُخ کیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر باقاعدہ چڑھائی کردی۔ اس کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سپریم کورٹ میں پھوٹ ڈالی گئی اور یوں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو چلتا کیا۔ اس وقت کی ریشہ دوانیوں کے حوالے سے جسٹس رفیق تارڑ کا نام لیا جاتا ہے۔ بعد میں یہی صاحب صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے۔
1997ء میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے۔ طاقت کا سرچشمہ وہ تھے۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صدر فاروق لغاری کی اتھارٹی کم کر دی گئی تھی اور فوج کے سربراہ شریف النفس جنرل جہانگیر کرامت تھے۔ اقتدار کی راہ میں صرف چیف جسٹس روڑے اٹکا رہے تھے لیکن ان کی چھٹی کرا دی گئی ۔ آج پھر سپریم کورٹ میں پھوٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو کھچڑی پک رہی ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے لیکن اتنا تو ظاہر ہو رہاہے کہ ایک بھرپور کوشش جاری ہے‘ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی اتھارٹی کو کم یا کنٹرول کرنے کی۔
بظاہر پریشانی سپریم کورٹ کی ہے کیونکہ جیسے عرض کیا اس میں پھوٹ کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں لیکن اصل پریشانی ان کی ہے جو اقتدار کے دھاگے ہلانے کے عادی بھی ہیں اور اس کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ جوکچھ وہ کرنا چاہتے ہیں اسکا لازمی جز اعلیٰ عدلیہ کی تابعداری ہے‘ اس مفہوم میں تابعداری کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ حالات کی دھار کے مطابق چلے۔ بندیال صاحب اور ان کیساتھ جو جج کھڑے ہیں کوئی سرکشی نہیں کررہے‘ کوئی عَلم بغاوت انہوں نے بلند نہیں کیا لیکن ان سے یہ ' گناہ‘ ضرور سرزد ہو رہا ہے کہ وہ آئین کی بات کر رہے ہیں۔ اپنی کوئی تشریح نہیں کررہے‘ کسی نئے نظریۂ ضرورت کو جنم نہیں دے رہے۔ وہ محض آئین کی سطور اور الفاظ کا حوالہ دے رہے ہیں اور یہی ہمارے کرتے دھرتوں کو برا لگ رہا ہے۔ اس وجہ سے کہ چیف جسٹس بندیال اور ان کے ساتھی ججوں کے برعکس ہمارے کرتا دھرتا اپنی آئینی تشریح دینا چاہتے ہیں‘ اس مقصد کیلئے کہ جو مقاصد انکے ذہنوں میں ہیں‘ صحیح یا غلط طریقے سے وہ پورے ہو سکیں۔اس وقت اسلام آباد سازشی ہواؤں کی لپیٹ میں ہے لیکن ہمیں ذہنوں کو صاف رکھنا چاہیے۔ ملک کو درپیش آئینی اور قانونی مسئلہ صرف ایک ہے کہ جو طریقۂ الیکشن آئین میں واضح طور پر درج ہے‘ کیا الیکشن کمیشن اسے تبدیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے واضح حکم صادر کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد نوے دن میں انتخابات لازم ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حکم کے مطابق الیکشن شیڈول بھی جاری کر دیا لیکن پھر 22مارچ کو یہ عذر بنا کر کہ ملک میں سکیورٹی حالات ٹھیک نہیں‘ اعلان شدہ الیکشن کو ملتوی کرکے 8اکتوبرکی نئی الیکشن تاریخ دے دی گئی۔ مرکزی نکتہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ ہے کہ جو الیکشن کمیشن نے کیا‘ اس کا اسے آئینی اختیار ہے یا نہیں۔ باقی بھول بھلیاں ہیں اور ہمیں ان سے کنفیوز نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک غیرمتعلقہ پٹیشن میں کیا حکم صادر کیا‘ جسٹس امین الدین نے کیا معذرت کی اور جسٹس جمال مندو خیل کا کیا مؤقف ہے‘ یہ سب ثانوی باتیں ہیں‘ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد آئین کیا کہتا ہے۔
نون لیگ اور اسکے اتحادی اور ان کے پیچھے ہمارے معزز کرتے دھرتوں کو جان کے لالے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ محض اس لیے کہ پنجاب میں انتخابات سے ڈرر ہے ہیں اور ڈر اتنا ہے کہ کسی ذریعے سے بھی انتخابات سے راہِ فرار چاہتے ہیں۔ گزرے زمانوں میں طالع آزما آتے تھے تو جوتی کی نوک سے آئین کو ایک طرف کرکے اپنی مرضی کرتے تھے۔ اب کی بار پرابلم یہ ہے کہ جوتے کی نوک میں گزرے زمانوں والا اثر نہیں رہا۔ آئین موجود ہے لیکن آئین سے روگردانی کی تمنا دلوں میں بھڑک رہی ہے۔ یعنی آئین سے چھٹکارا نہیں اور آئین کی پاسداری کریں تو انہیں سیاسی موت نظر آتی ہے۔ بہرحال اس مسئلے پر آئین میں کوئی ابہام نہیں۔ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلی‘ تحلیل ہوتی ہے تو90 دن کے اندر انتخابات کرانا پڑتے ہیں۔ نون لیگیوں اور اتحادیوں کی بڑھکیں اپنی جگہ لیکن یہ تیس مار خان حقیقت تو جانتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوئے تو پِٹ جائیں گے۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق کو بھی ایسا ہی خوف کھا گیا تھا۔ اقتدار سنبھالا تو 90 دن کے اندر انتخابات کا وعدہ کیا انتخابات کی تاریخ مگرجوں جوں نزدیک آئی پتا چلنے لگا کہ میدان تو ذوالفقار علی بھٹو مار جائے گا۔ بھٹو سے بھی ڈرتے تھے کہ اقتدار میں آیا تو پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔ جنرل ضیا الحق نے تو یہاں تک کہا تھا کہ فریق دو ہیں اور قبر ایک۔ رانا ثنا اللہ جنرل ضیا تو نہیں بن سکتے لیکن اُنہوں نے تقریباً وہی بات کہی ہے کہ یا ہم ہوں گے یا عمران خان اور ہماری بقا خطرے میں ہوئی تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔رانا صاحب مسئلہ سمجھ نہیں رہے۔ جنرل ضیا کے اقتدار کی بنیاد بندوق کی نالی تھی۔ رانا صاحب سے کوئی پوچھے کہ آپ کے اقتدار کی بنیاد کیا ہے؟ بندوق اور ہاتھوں میں ہے اور پنجاب کی عمومی رائے عمران خان کے قبضے میں ہے۔ آپ نہ تین نہ تیرہ میں۔ جنرل ضیا اقتدار میں خود بیٹھے تھے‘ انہیں کسی نے بٹھایا نہیں تھا۔ رانا صاحب اور اُن کی جماعت تو طفیلی ہیں‘ اقتدار میں کہاں ہیں‘ بس ایک نمائش لگائی ہوئی ہے۔ اصل ڈوریاں اور ہاتھوں میں ہیں۔ آپ بینڈ باجے بجائیں‘ کسی تھاپ پر کوئی اور ادا دکھا دیں۔ اقتدار کی کشمش جاری ہے لیکن اس میں آپ کا کردار نمائشی ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں اصل کشمکش اوروں کی ہے‘ ایک طرف عمران خان اور دوسری طرف وہ جو بے نام ہی رہیں تو بہتر ہے۔