پنجاب چناؤ کا کیس کیا سپریم کورٹ میں پہنچا کہ مکرو فریب کی ایک داستان شروع ہو گئی۔ ایسی ایسی باتیں‘ ایسے ایسے مکروہ دلائل کہ سرکار اور اُس کے وکیلوں پر حیرت ہوتی۔ بات سادہ سی تھی کہ آیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ آگے پیچھے کر سکے۔ اتنا تو کوئی مستند بیوقوف بھی سمجھ سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایسا کر سکے تو پھر آئین کا تقدس ہوا میں اڑتا ہوا ایک خیالی تصور ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن بات جب اتنی واضح ہو اور آپ کی نیت کچھ اور کہتی ہو تو پھر مسئلے کو الجھانے میں ہی بہتری نظر آئے گی۔ یہاں ایسا ہی ہوا‘ ہرحربہ استعمال کیا گیا کہ سادہ اور واضح بات کو الجھا دیا جائے۔ لہٰذا داد دینی پڑے گی چیف جسٹس عمرعطابندیال‘ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کو کہ انہوں نے نہ کمزوری دکھائی‘ نہ کسی ہیرپھیر کا شکار ہوئے۔
حکومتی مقصد واضح تھا‘ حکومت ایک اور نظریۂ ضرورت چاہتی تھی تاکہ پنجاب چناؤ سے بھاگنے کا راستہ ملے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت اور مقتدرہ تہہ دل سے یہ تمنا رکھتے تھے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک اور جسٹس منیر یا جسٹس انوارالحق بن جائیں۔ دباؤ تھا اور دشنام طرازی کی ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی لیکن چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھی جج ڈٹے رہے‘ انہوں نے کوئی نفسیاتی یا دوسری قسم کا پریشر قبول نہیں کیا۔ اور پنجاب چناؤ کے حق میں فیصلہ دے کر انہوں نے اپنے نام پاکستان کی جوڈیشل تاریخ میں محفوظ کر لیے۔ یہ عجیب ٹولہ ہے جو بطورِ حکومت قوم پر مسلط کیا گیا ہے‘ نہ سمجھ نہ قابلیت کے مالک لیکن ہمارے جو کرتے دھرتے ہیں انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس بدنصیب قوم کی تقدیر انہی ہاتھوں میں سونپی جائے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے‘ پچھلے گیارہ ماہ میں قوم کی تباہی ہوئی ہے‘ ہرلحاظ سے‘ کیونکہ معیشت سے لے کر سیاست تک قوم نیچے کو جا نہیںرہی‘ نیچے کو پہنچ چکی ہے۔ لیکن پھر بھی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصل طاقت ان کے ہاتھ میں ہے‘ سبق سیکھنے سے قاصر ہیں اور جیسے ان کے ذہن بن چکے ہیں‘ انہی بیکارکے مفروضوں پر قائم ہیں۔
سپریم کورٹ میں بھی پھوٹ پڑ چکی ہے‘ کچھ جج صاحبان ایک طرف دیکھ رہے ہیں‘ کچھ ہیں جن کا منہ بالکل دوسری طرف ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم شکست اور نفاق کا شکار ہو رہے ہیں۔ مہنگائی سے تو عوام پر شکنجے کسے جا رہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو تنزلی ہر طرف اور ہر شعبے میں ہوئی ہے۔ معاشی حالات کی وجہ سے قوم کی امیدیں مر چکی ہیں۔ شاذ ہی کوئی ہوگا جو ان حالات میں بہتری کی توقع رکھتا ہو۔ جس نوجوان کو موقع ملتا ہے باہر ملکوں کا رُخ کر رہا ہے۔ محکمہ پاسپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاسپورٹ حصول کی درخواستوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ قومی تنزلی کی یہ ایک نشانی ہے لیکن جن کے ہاتھوں میں اصلی یا نقلی اختیار ہے‘ یوں لگتا ہے انہوں نے عقلوں پر پردے ڈال لیے ہیں۔
ہندوستان کو ہم نے اپنا بڑا دشمن بنایا ہوا تھا لیکن موجودہ حالات میں تو لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کو ہی بڑا دشمن سمجھا جا رہا ہے۔ ہر ترکیب بروئے کار لائی جا رہی ہے کہ کہیں الیکشن نہ ہوں اور عوام سے رجو ع نہ کرنا پڑے کیونکہ دلوں میں ڈر بیٹھ چکا ہے کہ الیکشن ہوئے تو عوام نے ووٹ کے استعمال سے وہ حشرکرنا ہے کہ کیا اصلی حکمران اور کیا نقلی‘ دونوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ الیکشن سے فرار کیلئے بڑا پتّا الیکشن کمیشن نے کھیلا جس نے یکطرفہ طور پہ سپریم کورٹ کی دی ہوئی تاریخ‘ 30اپریل سے کھینچ کر 8اکتوبر میں بدل دی۔ کون سی ترکیب نہیں استعمال کی گئی چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھی ججوں کو متنازع بنانے کے لیے۔ پارلیمنٹ سے ایک بل بھی منظور ہوگیا‘ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے۔ صدر کے دستخط باقی ہیں‘ نہیں تو اب تک یہ بل قانون کا حصہ بن چکا ہوتا۔ لیکن بڑی بات تو تین رکنی بینچ کی ہے جس نے اس مشکل وقت میں آئین کی پاسداری کا فرض دلیری اور استقامت سے نبھایا۔ وکلاء برادری کو بھی سلام ہے کہ تین رکنی بینچ کے ساتھ کھڑی رہی۔ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی اخلاقی حمایت تین رکنی بینچ کے ساتھ تھی۔ الیکشن کمیشن کی صورت میں حکومت نے جو تیر چلانا تھا‘ چلا دیا لیکن تین رکنی بینچ نے یہ وار ناکارہ کر دیا۔ 1997ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اکیلے تھے‘ ان کے پیچھے کوئی عوامی سپورٹ نہ تھی۔ اسی لیے (ن) لیگ کے کارندوں کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کرتے اور انہوں نے ایسا کیا۔ اس وقت سرکار کے پاس یہ آپشن موجود نہیں تھا کیونکہ مہم جوئی کی کوئی کوشش ہوتی تو منہ کی کھانا پڑتی۔
لہٰذا فی الحال حکمرانوں کے پاس دانت پیسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پنجاب کے انتخابات کے تصور کو وہ اب بھی ہضم نہیں کر سکتے لیکن تین رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد کریں گے کیا؟ یا کیا کر سکتے ہیں؟ پاکستانی تاریخ ماورائے آئین اقدامات سے بھری پڑی ہے لیکن ایک تو ہماری معاشی اور سیاسی حالت بہت کمزور پڑ چکی ہے اور دوم‘ زمانہ بھی بدل چکا ہے۔ طالع آزما جب گھوڑوں پہ سوار ہوتے تھے‘ کم از کم پاکستان میں ایسا وقت نہیں رہا۔ اور جتنا بھی ہم اپنے آپ کو کوسیں پاکستان مصر ہے نہ میانمار۔ جو حالات ان دو ممالک میں ممکن ہوئے ہیں وہ یہاں ممکن نہیں۔ ہماری ہیٔت یکسر مختلف ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے ہمیں نہیں معلوم لیکن اتنی تو خوش آئند بات ہے کہ عوام کا بیشتر حصہ اور اعلیٰ عدلیہ کا طاقتور حصہ ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں تو یہ ہوتا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ طالع آزماؤں کے ساتھ جا ملتی تھی حتیٰ کہ ان کی جونیئر پارٹنر بن جاتی تھی‘ تب ہی تو نظریۂ ضرورت تخلیق پاتے تھے۔ نظریۂ ضرورت طالع آزماؤں کی ضرورت ہوتی تھی اور اعلیٰ عدلیہ یہ ضرورت پوری کرتی تھی۔ لیکن اس بار ہم نے دیکھا ہے کہ چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھی ججوں نے ماضی کی ان مثالوں کو تاریخ کے کوڑا دان کے سپردکر دیا ہے۔ اجتماعی خراب صورتحال میں کم از کم یہ ایک اچھی چیز تو ہوئی ہے۔
معاشی اعداد وشمار اور نوٹنکی کی حکومتوں کو دیکھیں تو خیال اٹھتا ہے کہ یہ مردہ قوم ہے لیکن عوامی روشوں پر نظر دوڑائیں اور تین رکنی بینچ کے آئین کی سربلندی کے حق میں فیصلے کو دیکھیں تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ نہیں‘ تمام خرابیوں کے باوجود یہ ایک زندہ قوم ہے۔ جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھیوں نے محض آئین کے حق میں فیصلہ نہیں دیا‘ انہوں نے قومی امیدوں کو بھی سہارا بخشا ہے۔ اس لیے اس فیصلے کی گونج بہت دور تک جائے گی۔ یہ صرف ایک آئینی تشریح کا مسئلہ نہ تھا بلکہ ایک کسوٹی تھی جس سے پتا چلنا تھا کہ بطورِ قوم ہم میں کچھ دم خم ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھیوں کے لیے آسان راستہ تو یہ تھا کہ کسی تکنیکی عذر کی بنا پر پی ٹی آئی کی درخواست کو رد کر دیتے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی طرح وہ بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ معاملہ تو لاہور ہائیکورٹ میں سنا جا رہا ہے لہٰذا ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اسے سماعت کیلئے منظور کریں۔ ایسا کر سکتے تھے اور ایسا کرتے تو یقین مانیے قوم کی روح پر جیسے پانی پھر جاتا۔ مقتدرہ مطمئن ہوتی‘ حکومت نے تالیاں بجانی تھیں‘ قومی اسمبلی میں بھی کچھ ناٹک رچایا جاتا‘ سب مطمئن ہو جاتے سوائے عوام کے۔ لیکن جسٹس بندیال اورساتھی ججوں نے وہ کردکھایا جس سے ہم جیسوں کی آنکھیں بھی بھر آئی ہیں۔ زندہ قوم کی ایک نشانی ہمیں ملی ہے۔