جس حکومت کو نکالنا تھا وہ چلی گئی‘ مرضی کے لوگ اُس حکومت کی جگہ لائے گئے‘ سولہ‘ اٹھارہ ماہ نااہلی کی انتہا کر دی گئی‘ الیکشن اپنی مرضی کے کرائے‘ عوام کی رائے کیا تھی اور نتائج کیا نکلے‘ یہ سب کچھ ہو چکا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اگلوں کو سکون نصیب نہیں ہو رہا۔ نکالی ہوئی حکومت اور جماعت کو نکیل ڈالنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا‘ آئین کی حکمرانی کی نئی تشریح رائج ہوئی لیکن پھر بھی چھوٹی چھوٹی بات پہ تلملانا۔ کبھی اس بات پر اعتراض‘ کبھی ٹینشن کا سامان کچھ اور پیدا ہو جاتا ہے۔ عجیب صورتحال ہے اور قومی منظرنامہ کوئی دیکھے تو حیران ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
آزادیٔ اظہار کی جو حالت ہو چکی ہے ہمارے سامنے ہے۔ جب ٹیلی ویژن پروگرام کرتے تھے تو کیا کیا احتیاط نہیں برتنی پڑتی تھی۔ فلاں کا نام نہیں لینا‘ فلاں کا ذکر نہیں کرنا‘ حتیٰ کہ موٹر گاڑیوں کے کچھ ماڈل ایسے تھے اُن کا ذکر بھی شجرِ ممنوعہ کردیا گیا کیونکہ فکر لاحق رہتی کہ فلاں برانڈ کی گاڑی کا نام لیا تواُس سے یہ خطرناک مفہوم نکل سکتا ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ اتنا کچھ کرنے کے بعد تو چین آ جانا چاہیے تھا لیکن نہیں‘ سوشل میڈیا کا بخار سروں پر ایسا چڑھا ہوا ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ سمجھا کیوں نہیں جا رہا کہ سوشل میڈیا پر جن روشوں کو قابلِ اعتراض سمجھا جا رہا ہے وہ موجودہ ملکی صورتحال کا قدرتی ردِعمل ہیں۔ عوامی جذبات ایک خاص ڈھانچے میں ڈھل چکے ہیں‘ عوام الناس کے ہاتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار آیا ہے تو لوگ اُس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اخبارات تو ہمارے ہاں کنٹرول ہوتے رہے ہیں‘ ٹی وی چینلوں کو بھی کنٹرول کرنا مشکل نہیں لیکن سوشل میڈیا تو آسمانوں پہ یا یوں کہیے خلا میں بستا ہے۔ مکمل طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی اس کو کنٹرول نہیں کر سکی تو ہمارے ہاں کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہا جائے۔
مکمل علاج تو یہ ہے کہ پورے کا پورا انٹرنیٹ بند کر دیا جائے‘ مملکت خداداد کو پوری دنیا سے الگ تھلگ کر دیا جائے۔ شمالی کوریا کے حالات کا بغور جائزہ و مطالعہ کیا جائے اور پھر جس قسم کا نظام وہاں رائج ہے اُس کو یہاں قائم کیا جائے۔ ایسا ہم کر سکتے ہیں توکریں‘ نہیں تو سوشل میڈیا آج کے زمانے کی ایجاد ہے۔ پرانا ٹویٹر‘ جو اَب ایکس کہلاتا ہے‘ پر یہاں پابندی لگ نہیں گئی؟ لیکن کیا ایکس تک رسائی ختم ہو گئی ہے؟ جسے سائبر سپیس کہتے ہیں‘ اُس کا پھیلاؤ تو آسمانوں پر ہے۔ آپ ایک پابندی لگائیں گے اُسے بائی پاس کرنے کیلئے سو طریقے نکل آتے ہیں۔ جنہوں نے ایکس کا استعمال کرنا ہے وہ اب بھی کر رہے ہیں۔ اور وہ دیکھا نہیں جو ایک ٹویٹ اُس مخصوص جیل کی دیواروں کے پیچھے سے سامنے آیا اور جس نے مخصوص ذہنوں میں تھرتھلی مچا دی؟ اڈیالا جیل کی بڑی مضبوط اور اونچی دیواریں ہیں لیکن سوشل میڈیا کو دیواروں کے بیچ میں قید کیا جا سکتا تو پھر کیا فکر تھی۔ لیکن مسئلہ کچھ اور ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جو حالات سوشل میڈیا کا طوفان برپا کر رہے ہیں اُن میں کچھ تبدیلی لائی جائے۔ زور زبردستی کی باتیں ختم نہیں ہوتیں کیونکہ شاید ایسا کرنا ہمارے مزاج میں نہ ہو لیکن کچھ کم تو ہو جائیں۔ آئین اور قانون کی پاسداری بھی ہمارے ہاں مکمل طور پر نہیں ہو سکتی کیونکہ آئین اور قانون بھی ہمارے اجتماعی مزاج کی نزاکتوں کے مطابق نہیں لیکن کچھ دکھاوے کیلئے ہی آئینی تقاضوں کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں تو بات ہی کچھ اور ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچا دیے گئے کہ اسلام آباد کے جج صاحبان بھی انتہائی مجبوری کی حالت میں بول پڑے۔ وہ بھی تب جب مداخلت حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں طرزِ حکمرانی ہی ایسی ہے کہ جس کے پاس تھوڑی سی اتھارٹی ہو وہ اعتدال کے دامن میں نہیں رہ سکتا۔ ججوں کے پیچھے لگے تو وہاں انتہا کر دی‘ ستم کے مارے جج صاحبان بولتے نہ تو کیا کرتے؟
یہ احمد فرہاد والا ڈرامہ بھی دیکھ لیا جائے‘ بات کا ایسا بتنگڑ ہمارے اگلوں نے بنا دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ انسان ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائے یا رونے بیٹھ جائے۔ یہ جسٹس محسن اختر کیانی کی ہمت تھی کہ احمد فرہاد اتنی جلد منظرِ عام پر آ گئے‘ نہیں تو جیسے کتنے اور جب غائب ہوتے تھے توعرصہ دراز تک غائب ہی رہتے تھے‘ ان کا حال بھی یہی ہوتا۔ لیکن جج صاحب کی ہمت اور اصرار کی وجہ سے احمد فرہاد گمشدگی کے اندھیروں سے نکلے تو ایک نیا ڈرامہ رچایا گیا‘ جس میں کہا گیا کہ یہ تو آزاد کشمیر کے فلاں مقام سے پولیس کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے پکڑے گئے اور ان پر فلاں تھانے میں پرچہ درج ہو گیا ہے۔ ایسے ڈراموں سے اپنا ہی تمسخر اُڑتا ہے۔ مطلب تو یہ نکلا نا کہ سچ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جہاں زور زبردستی کی باتیں چلیں وہاں کچھ ہمت بھی ہونی چاہیے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ احمد فرہاد کو جسٹس محسن کیانی کی عدالت میں پیش کیا جاتا۔ جسٹس صاحب نے ہتھکڑیاں تو لگوانی نہیں تھیں‘ بس یہ ہوتا کہ ساری قوم کہتی کہ نہیں‘ اب بھی ہماری عدالتوں میں کچھ ہمت باقی ہے اور جن کے پاس طاقت ہے وہ بھی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن ایسی باتیں یہاں کون کرے؟ وہ جو انگریزی کا لفظ ہے گریس (Grace)‘ ہماری ہر حرکت‘ ہماری ہر واردات گریس سے خالی ہوتی ہے۔ یہاں کچھ ہوتا بھی ہے تو بھونڈے پن سے۔ لگتا ہے یہاں بہتوں کو تعلیمِ بالغاں کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بھی دیکھ لیجئے کہ عاصمہ جہانگیر سیمینار میں برطانوی ہائی کمشنر‘ جو ایک خاتون ہیں‘ ایک عدد عدالتی فیصلے کے بارے میں کچھ کہہ دیتی ہیں اور ایوانِ عدل کے سب سے اونچے دریچوں سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگتی ہے۔ بوساطتِ رجسٹرار صاحب ایک باقاعدہ خط ہائی کمشنر صاحبہ کو ارسال کیا جاتا ہے۔ کون سمجھائے‘ کون ایسی جسارت کرے کہ حضور ِوالا! ایسا نہیں کیا جاتا‘ اونچے منصب کا تقاضا ہی نہیں بنتا کہ کہیں کسی اجتماع میں کوئی تقریرکی جائے اور اُس کا اتنا بھاری بھر کم نوٹس لیا جائے۔ کیا ہو رہا ہے اس دھرتی کے ساتھ؟
اور یہ جو 1971ء کے حالات کے حوالے سے اڈیالا جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے سے جس ٹویٹ کا ذکر ہو رہا ہے اُس میں کون سی ایسی بات ہے کہ اقتدار کے ایوانوں کی دیواریں ہل کے رہ گئی ہیں؟ اس سے زیادہ کیا کہا گیا ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھ لی جائے تاکہ قومی حالات کو سمجھنے کیلئے کوئی رہنمائی مل سکے؟ جسٹس حمود الرحمن انڈین سپریم کورٹ کے نہیں‘ یہاں کے چیف جسٹس تھے اور اُنہیں یہ فرض سونپا گیا تھا کہ سانحہ 1971ء کے محرکات‘ اسباب اور واقعات کا احاطہ کریں۔ اس میں تلملانے کی کون سی بات ہے؟ کیا مملکتِ خداداد کے دولخت ہونے سے بڑا کوئی سانحہ ہو سکتا تھا؟ وہ سانحہ کسی خلا میں نہیں ہوا‘ اُس کا ایک تناظر تھا۔ واقعات کا پورا ایک سلسلہ تھا جس کے نتیجے میں ٹریجڈی رونما ہوئی۔کیا عجیب قوم ہیں ہم کہ ماضی کی اتنی بڑی کوتاہیوں سے آج تک آنکھ چراتے پھرتے ہیں۔ اس سانحے کی شروعات یہی تھیں کہ عوامی رائے کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کا کچھ حوالہ دیں تو صاحبانِ اقتدار لال پیلے ہو جاتے ہیں‘غصے سے آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور غصہ پھر اتنا آتا ہے کہ ڈھنگ سے بات بھی نہیں کی جا سکتی۔
حضور‘ ہم غریبوں پر کچھ رحم کیجئے۔ ہم کچھ کہہ نہیں رہے‘ دبک کے بیٹھے ہیں‘ دیس کے میدانوں اور پہاڑوں پر ایک قسم کا سناٹا چھایا ہوا ہے اور ہم کچھ کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ لیکن آپ پھر بھی مطمئن نہیں۔ ایک تو حالات کے مارے ہیں ایک مہنگائی کے‘ ہم بس اتنا کر پاتے ہیں کہ چہروں پر کبھی ایک بیزاری سی آ جاتی ہے۔ آپ کو ہماری یہ بیزاری بھی گوارا نہیں‘ اس بیزاری کو محسوس کرکے غصے میں آ جاتے ہیں۔ ہم غریب کریں تو کیا کریں‘ جائیں تو جائیں کہاں۔