ہماری تاریخ فسادات سے بھری پڑی ہے اور ہر فساد نظریے کے نام پر ہوا۔ افغانستان میں دہائیوں پر محیط شورش‘ جنگ اور خانہ جنگی‘ یہ تمام کارروائیاں نظریے کے نام پر ہوئیں۔جنہیں مجاہدین کا لقب دیا گیا اُن کا نعرہ نظریہ تھا اور اُن کے خلاف جو طالبان اُٹھے اُن کا نعرہ بھی وہی نظریہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے ریاستِ پاکستان کے خلاف جو شورش کھڑی کی ہوئی ہے‘ وہ بھی نظریے کے نام پر ہے۔ وہ سابقہ فاٹا میں اپنی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں اور مسلمانیت کی کوئی کمی ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر ہمیں مسلمان بنانا چاہتے ہیں؟ عجیب ملک ہے نظریے کے نام پر جو آتا ہے ہمیں پھر سے مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ ضیا الحق نے بھی اس قوم کے ساتھ یہی کیا۔ آئے تھے اقتدار میں زورِ بازو سے لیکن نظریے کو اپنا ایجنڈا بنا لیا اوروہ اس لیے کہ اُن کے پاس اور کچھ تھا نہیں‘ اورپھر گیارہ سال اس قوم کو عقیدے کی راہ پر ڈالتے رہے۔ ان تمام کاوشوں سے ہمارا معاشرہ کچھ بہتر ہوا ہے اور بھلائی کی طرف گیا ہے‘ اس کا فیصلہ کس پر چھوڑا جائے؟
جن علاقوں یا اضلاع میں ٹی ٹی پی کا زور ہے وہ کوئی رہنے کے قابل ہوں گے؟ انسان اپنے ہوش میں ہوتو وہاں رہنا چاہے گا؟ 2001ء میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد بہت سے القاعدہ اور طالبان کے جنگجو ہمارے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ پہلا کام اُنہوں نے یہ کیا کہ فاٹا کے جو بڑے بڑے قبائلی ملک تھے اُن کا صفایا کر دیا ا ور اُن علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کردی۔ اُن کی طرزِ حکمرانی کی کہانیاں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک بات سمجھ نہیںآتی کہ ان جیسے مہم جوؤں کا خواتین اور عورت ذات کے بارے میں ایک خاص تصور کیوں ہے؟ اب کی بار طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا توخواتین کے حوالے سے اُسی ڈگر پر چلنے لگے جس پر پہلے دورِحکومت میں چل رہے تھے۔ لڑکیوں کے سکولوں کو بند کر دینا‘ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کرنا۔ یہ تصورِ ریاست انہوںنے کہاںسے لیا ہے؟ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ایسے ہونے لگے تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ ویسے ہی ہمارا ایک پسماندہ قسم کا ملک ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت اجتماعی سوچ اتنی پسماندہ نہ تھی کیونکہ ہمارے تب کے لیڈر روشن خیال لوگ تھے۔ لیکن پتا نہیں کس ایجنڈے پر چلتے ہوئے ہم نے اس معاشرے کو ذہنی اورنفسیاتی طور پر پسماندہ بنا دیا ہے۔ خیبر پختواکے جنوبی اضلاع‘ جہاں ٹی ٹی پی کا زور قائم ہو رہا ہے‘ اٹک اور چکوال سے زیادہ دور نہیں۔ جب کبھی ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہاں ایسی کارروائیاں نہ ہونے لگیں تو ڈر سا لگنے لگتا ہے۔
جب القاعدہ کے لوگ اور دیگر عرب ممالک سے آئے ہوئے جنگجو فاٹا کے علاقوں میں منتقل ہوئے تھے تو اُنہوں نے معاشرے کے ذہنی طور پر پست ترین طبقات کے ہاتھوں میں بندوقیں دے دیں۔ جب ویسے ہی پیچھے کی سوچ رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت آ گئی تو اُنہوں نے اُس طاقت کے ساتھ وہی کیا جتنی اُن کی سوچ تھی۔ یہ تو ہم نے اپنے اوپر ایک المیہ کھڑا کر دیا ہے کہ جن عناصر کو 2014ء اور اُس کے بعد کے آپریشنوں میںفوج سرحد پار دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی تھی وہ آج پھر خیبرپختونخوا کے بڑے علاقوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کس کی پالیسی تھی؟ باجوہ کا نام لینے سے زبانیں بند کیوں ہو جاتی ہیں؟ ہماری اجتماعی دانشمندی کی وجہ سے صورتحال اب یہ بن چکی ہے کہ آئے روز حملے ہو رہے ہیں اورمعصوم جانوں کا نقصان ہورہا ہے۔ لیکن یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی‘ اسباب جاننے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ یا یوں کہیے کہ ہچکچاہٹ کا عالم ایسا بنا دیا گیا ہے کہ عافیت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ زبانیں بند رہیں۔
ہم اپنے آپ کو جمہوریت کہتے ہیں نا؟ تو موازنہ پھر ایسے ملکوں سے ہی کرنا چاہیے جہاں کچھ نہ کچھ جمہوری آزادیاں قائم ہیں۔کسی جمہوری ملک میں ایسی صورتحال ہوتی جیسا کہ ہمارے خیبرپختونخوا میں ہے تووہاں رپورٹر گئے ہوتے‘ حساس علاقوں میں جاتے‘ اورپھر عوام کو بھی اصلی صورتحال سے آگاہ کرتے۔ یہاں کیفیت یہ ہے کہ سرکاری سچ سے ہٹ کر آپ کچھ کہیں تو شامت آ جاتی ہے۔ اجازت اسی چیز کی ہے کہ جو سرکاری سچ ہے اُس کی جُگالی ہوتی رہے۔ میڈیا کے بحث مباحثوں سے کچھ صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اصلی صورتحال کیا ہے۔ یہ جو اگلے دن تحصیل زہری‘ ضلع خضدار میں واقعہ پیش آیا جہاں سترسے اَسی جنگجو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر شہر میں داخل ہوئے‘ متعدد عمارتوں پر حملے ہوئے‘ ایک پرائیویٹ بینک لوٹا گیا‘ اورآٹھ گھنٹے تک وہ وہاں رہے۔ ایسے حملے پہلے بھی مختلف مقامات پر ہو چکے ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک ٹی وی پر زہری سے براہِ راست رپورٹیں نشر ہو رہی ہوتیں۔ لیکن ایسے علاقوں میں کوئی جانے کی کوشش تو کرے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میںبالکل ایسا ہی ہوا۔ انڈین فورسز کی ڈھاکہ کی طرف پیش قدمی شروع ہو چکی تھی اور مغربی پاکستان کے لوگ اُس ساری صورتحال سے مکمل طور پر بے خبر تھے۔ وہ اس لیے کہ اُس وقت کا پریس صحیح خبریں رپورٹ کر نہیں سکتا تھا۔ راج شاہی جو کولکتہ کی طرف بارڈر کے قریب ہے‘ انڈین فوج کے قبضے میں چلا گیا اور یہاں کسی کو پتا نہیں تھا۔ میں آٹھ دس طیارہ شکن گنیں لے کر ایک موبائل کالم کو ادھر اُدھر لے جا رہا تھا‘ کبھی دریائے راوی کے کسی مقام پر ‘ کبھی دریائے ستلج پر ہیڈسلیمانکی کی طرف ‘ اور رات کو کہیں پڑاؤ ہوتا تو بی بی سی سننے کی کوشش کرتا۔ رات کو سنا کہ راج شاہی پر انڈین قبضہ ہو گیا ہے۔ دوسرے دن اپنے ریجمنٹل ہیڈ کوارٹر جو کہ لاہور راوی پل کے قریب تھا وہاں آیا تو ایک افسر کو میں نے بتایا کہ راج شاہی تو گر گیا ہے۔ شکر ہے اُس نے میرا گریبان نہیں پکڑا‘ اپنے سے اتنا باہر ہونے لگا تھا۔ تقریباً جھاگ سی اُس کے منہ میں آ گئی اور بولا یہ سب جھوٹ ہے۔ دو دن بعد انڈین فورسز ڈھاکہ داخل ہو گئی تھیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خیبرپختونخوا یا بلوچستان میں کوئی راج شاہی یا ڈھاکہ گرنے والا ہے لیکن اس دیس کے باسیوں کو پتا تو ہو کہ اصل صورتحال کیا ہے اور کس قسم کے خطرات ہمارے مغربی علاقوں میں منڈلا رہے ہیں۔
سوچیں تو سہی ہماری قومی سوچ کیارہی ہے۔ پچھتر‘ چھہتر سال ہم نے ہندوستان کو اپنا دشمن بنائے رکھا۔ اب بھی ہماری زیادہ فورسز کشمیر سے لے کر بحیرۂ عرب تک انڈین بارڈر پر ہیں۔ لیکن اب تھوڑی سی آنکھیں کھل رہی ہیں کہ خطرہ تو کہیں اور سے آرہا ہے۔ جن کے چالیس سال ہم محافظ اور نگہبان بنے رہے اورسب عقیدے کے نام پر‘ وہی ہمیں خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان پر حملہ انڈین فوج نے کیا لیکن ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ انڈین جارحیت کا میدان ہم نے تیار کیا۔ وہاں جو کھلواڑ ہوا تھا اُس کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا لیکن کھلواڑ ہندوستان نے تیار نہیں کیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج جنرل یحییٰ خان اور اُن کے ساتھیوں نے تسلیم نہیں کیے تھے۔ مارچ 1971ء میں ڈھاکہ میں جو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا‘وہ ملتوی ہندوستان نے نہیں یہاں کے سورماؤں نے کیا تھا۔ہماری تاریخ گول دائروں میں کیوںپھرتی رہتی ہے؟ بار بار وہی چیزیں ہم کیوں دہرائے جاتے ہیں؟