"AYA" (space) message & send to 7575

رونقِ شب کی محفل

لتا منگیشکر کے پرستار تو ہم ہیں ہی لیکن سچ پوچھئے اگر کیفِ شب طاری ہو تو بے اختیار دل مائل ملکۂ ترنم مادام نور جہاں کی طرف ہو جاتا ہے۔ مقابلے کی بات نہیں ہے دونوں کی عظمت اپنی جگہ لیکن شام وسحر کا کچھ فرق تو ہوتا ہے اور جب شب کے سائے دراز ہوں تو پھر قرار میڈم کی آواز سے ہی آتا ہے۔ بتائیے تو سہی کہ شام ڈھلے غالب و خیام کی کیفیت ہو تو پھر ناصر کاظمی کی وہ لازوال نظم ''دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا‘‘ سننے کو جی نہیں کرے گا؟
عظمتِ لتا سے کون کافر انکاری ہے لیکن اُس وقت پھر آواز میڈم کی ہی چلے گی۔ ''تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے‘‘ فیض صاحب کی یہ غزل شام کو ہی سننی اچھی لگتی ہے۔ ساتھ ہی ساغر ومینا کا کوئی شعر یاد آ رہا ہو تو پھر میڈم ہی نغمہ سرا ہو سکتی ہیں۔ بات تو کیفیت اور ماحول کی ہے۔ سیڑھیاں چڑھیں آپ لکھنؤ میں بیگم اختر فیض آبادی کے کوٹھے کی (کوئی بدک نہ جائے اس لفظ سے‘ اچھے بھلے شرفا بھی اس تناظر میں اسی لفظ کو استعمال میں لاتے ہیں) تو پھر خیال سازندوں اور کسی طبلہ نواز کی طرف ہی جائے گا۔ یوٹیوب پر ایک چھوٹا سا کلپ ہے میڈم کا اپنے استاد غلام محمد کے ساتھ ریاض کرتے ہوئے۔ یہ وہ استاد تھے جو اُن کے ساتھ ساری عمر رہے۔ بمشکل ڈیڑھ پونے دو منٹ کا کلپ ہو گا۔ نور جہاں کی آواز اُٹھتی ہے‘ استاد غلام محمد راگ کو اور اوپر لے جاتے ہیں اور وہی سُر میڈم دہراتی ہیں اور کلپ ختم ہو جاتی ہے۔ اُس ڈیڑھ منٹ میں اتنا لطف‘ اتنا نشہ ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک اور تھوڑی لمبی کلپ ہے میڈم کی ریاض کرتے ہوئے۔ وہ بھی کوئی سنے تو اَش اَش کر اُٹھے۔
شوکت خانم ہسپتال کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے کی غرض سے لاہور میں ایک محفل ترتیب دی گئی تھی۔ میزبانی کے فرائض معین اختر ادا کر رہے تھے۔ میڈم مہمانِ خصوصی تھیں اور کچھ مہمان ہندوستان سے آئے ہوئے تھے جن میں وِنود کھنہ اور ایکٹریس سونو والیا نمایاں تھے۔ تقریب میں پہلے بھی نغمے گائے گئے ہوں گے لیکن جس یوٹیوب کلپ کی میں بات کرنا چاہتا ہوں اُس میں سٹیج پر میڈم کہتی ہیں کہ سخی شہباز قلندر کی دھمال گانے لگی ہوں۔ میڈم نے ساڑھی زیب تن کی ہوئی تھی۔ دھمال کا کہتے ہی اُنہوں نے دوپٹہ یا ساڑھی کا پلو سر پہ کر لیا اور دھمال گانے لگیں۔ جوں جوں اُن کی آواز اونچی ہوئی وِنود کھنہ جو کہ سامنے بیٹھے تھے‘ مستی کی کیفیت میں آنے لگے اور اُنہوں نے طبلے کی تھاپ پر تالی بجانا شروع کر دی۔ پھر وہ کھڑے ہو گئے اور بہت ہی خوبصورت انداز سے ہلکا ہلکا ڈانس کرنے لگے۔ ایک دو خواتین کی طرف اُنہوں نے ہاتھ بڑھایا لیکن اُن کے ساتھ کوئی شریک نہ ہوئی۔ وڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کوئی صاحب تھوڑا غصے میں آ کر اُنہیں ہلکا سا دھکا دیتے ہیں۔ ہم جیسا کوئی ہوتا اُس کا جوش وہیں بیٹھ جاتا۔ ونود کھنہ بیٹھ تو گئے لیکن جلد ہی پھر کھڑے ہو گئے اور خود ہی ڈانس کرنے لگے۔ چند لمحوں بعد سونو والیا کی طرف جاتے ہیں اُسے کھینچ کر سامنے لے آتے ہیں۔ اُس وقت دھمال اپنے زوروں پر جا چکی تھی۔ وِنود کھنہ ہلکا سا فنِ رقص کا مظاہرہ تو کر ہی رہے تھے لیکن سونو والیا نے اُس اثنا میں جو ایک دو ٹھمکے لگائے تو یوں لگے کہ غضب ڈھایا جا رہا ہے۔ اتنے میں میڈم انترے پر آ جاتی ہیں اور پھر جو کیفیت سامعین پر طاری ہوتی ہے وہ دیکھنے سے پتا چلتی ہے‘ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اور اَنترا ختم ہوتے ہی جو تالیاں بجتی ہیں اور سامعین جس انداز سے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کلاسیکی دُھن ہے ''جا جا رے جا میں تو سے نہیں بولوں‘‘۔ مشہور دھن ہے جسے کسی فلم میں لتا جی اور مناڈے نے گایا ہے اور کسی یہاں کی فلم میں میڈم نے بھی گایا ہے۔ دوبارہ عرض ہے کہ مقابلے کی بات نہیں‘ نہ ان دو عظیم ہستیوں میں فن کے بارے میں مقابلے کی بات اچھی لگتی ہے۔ بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اپنی جگہ کیا کمال لتا جی نے کیا ہے اور پھر کیا ظلم میڈم ڈھاتی ہیں۔ کسی دیوانے نے دونوں گانوں کو ملا کر ایک کلپ یوٹیوب پر اَپلوڈ کی ہے۔ سن لیجیے اور مستی نہ طاری ہو تو جو مرضی ہے کہیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں خدا کی دین ہے خالقِ کائنات کی خاص مہربانی ہے۔ نہیں تو ایسی آوازیں کہاں ملیں اور کیسے پیدا ہوں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے نور جہاں خاصی کم عمر میں جب گائیکی کے عروج پر پہنچ چکی تھیں اور ملکۂ ترنم ہونے کا اعتراف دنیا کر چکی تھی‘ لتا کی گائیکی تب اتنی پختہ نہ تھی۔ آواز میں سُر اور شیرینی تو تھی لیکن آواز اتنی بھری ہوئی نہیں تھی۔ اور جو آواز اُس وقت نور جہاں کی تھی اُسے تو لاچار انسان بے مثال اور لاجواب ہی کہہ سکتا ہے۔
اپنی زندگی میں میڈم کے بہت لوگوں نے انٹرویو کیے لیکن ایک خاص انٹرویو ہے جو کسی ہندوستانی نے کیا تھا۔ اُس میں میڈم پرانے اپنے فلمی دنیا کے ساتھیوں کا ذکر کرتی ہیں... لتا جی‘ ثریا جی (ان ناموں کے ساتھ وہ خود جی لگاتی ہیں) ایکٹر پران جن کے بارے میں کہتی ہیں وہ میرے پہلے ہیرو تھے۔ پھر دلیپ کمار کے بارے میں کچھ زیادہ ہی کہہ دیتی ہیں کہ اُن کی ذات سے مجھے عشق تھا لیکن عشق کا ذکر اس انداز سے کرتی ہیں کہ انسان کوئی غلط معنی نہ لے۔ انٹرویو کرنے والا پھر پوچھتا ہے کہ میڈم آپ نے کتنے گانے گئے‘ ان میں سے کوئی ایک گانا بتائیں جو آپ کا پسندیدہ ہو۔ میڈم کہتی ہیں کسی ایک گانے کا نام لینا تو مشکل ہے لیکن ایک گانا ہے جو اتنا مشہور نہیں لیکن میں گا دیتی ہوں ''پیار کر کے ہم بہت پچھتائے‘ اک پل خوشی کی خاطر سو غم اُٹھائے‘‘۔ کتنے ہزاروں گانے میڈم نے گائے‘ ان ہزاروں میں کتنے ہی شاہکار گِنے جاتے ہیں لیکن اُس لمحے کون سا گانا یاد آتا ہے؟ یہ والا۔ اور دیکھا جائے اس کے بول کتنے فِٹ ہوتے ہیں میڈم کی اپنی بھرپور زندگی پر۔
یہ ریکارڈ پر بات ہے میں اپنے سے نہیں گھڑ رہا کہ ہمارے دوست خالد حسن مرحوم جو انگریزی کے صحافی تھے اور لاجواب لکھتے تھے‘ میڈم کے پرستار تھے اور اُن کے حوالے سے انہوں نے ایک مضمون لکھا جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اُس لمبے سے مضمون کی دو باتیں بیان کیے دیتے ہیں۔ خالد حسن پوچھتے ہیں: میڈم زندگی میں کتنے عشق کیے؟ میڈم گننے لگ جاتی ہیں اور پھر کہتی ہیں ''ہائے ہائے نہ نہ کردے وی اٹھارہ تے ہو گئے نے‘‘۔ دوسری بات سردار محمد اقبال جو کہ چیف جسٹس ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ تھے‘ کے بارے میں ہے۔ کسی شخص نے میڈم سے کہا کہ سردارصاحب بڑے اچھے آدمی ہیں‘ میڈم نے جواب دیا کہ ہاں واقعی بہت اچھے آدمی ہیں۔ اُس شخص نے کہا: بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں‘ میڈم نے کہا: واقعی بہت اچھی باتیں کرتے ہیں‘ ساری رات باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔
گانے والے کتنے رہے ہیں لیکن اتنی بھرپور زندگی کسی گانے والے نے کم ہی گزاری ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں