ذرا اندازہ لگائیں وہ کون سا ملک ہے۔ جس میں تعزیرات (Penal Code)کا ایسا قانون لاگو ہے۔ جو 1860ء میں بنا تھا ۔ جبکہ دیوانی مقدمات چلانے کے لئے سول پروسیجر کوڈ1908ء میں بنایا گیا۔ فوجداری مقدمے کے ٹرائل کا قانون سال 1898ء میں بنا ۔ جنرل کلازز ایکٹ 1897ء میں بنا ۔لمیٹیشن ایکٹ 1908ء میں بنا ۔اور لطف کی بات یہ ہے کہ ملک 1947 ء میں تخلیق ہوا۔
اوپر درج سارے قوانین غریب لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں ۔ دوسری جانب اسلام اور جمہوریت کے متوالے حکمران قانونی میٹرو پر سوار ہیں۔ جب چاہا اپنی سہولت کے لئے ،اپنے کاروبار کے تحفظ کے لئے اور اپنے آپ کو مقدموں سے بچانے کے لئے یا پھر اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے گھنٹوں اور منٹوں میں نیا قانون بنا لیتے ہیں ۔ 1973ء کے آئین کی تخلیق کے بعد دنیا کی تاریخ کا سب سے عجیب "کامیاب" ریفرنڈم ہمارے ہاں منعقد ہوا ۔ ایسا ریفرنڈم جس نے مصر کے حسنی مبارک اوریوگنڈا والے عیدی امین کو بھی شرمندہ کردیا۔ ریفرنڈم میں وقت کے امیر المؤمنین نے بلامقابلہ سوال پوچھا، جو یہ تھا۔ کیا آپ اسلامی نظام کو پسند کرتے ہیں ۔ اگرآپ کا جواب ہاں میں ہے تو میں 5سال کے لئے میں آپ کے اسلامی جمہوریہ کا صدر بن چکا ہوں ۔ اس پر سرکاری ٹی وی کے اندر سے بڑا زور دار لطیفہ باہر آیا ۔ عین اس کمرے سے جہاں ریفرنڈم تقریر کی ریکارڈنگ کی گئی تھی ۔ لطیفہ بعد میں دیکھیں گے پہلے اس ریفرنڈم کی خوشی میں ثناء خواں تقدیسِ عوام کے شاعر حبیب جالب نے ریفرنڈم کی جو ناقابل تردید تعریف کی، اورجس کا عنوان ہی ریفرنڈم رکھا گیا،دیکھتے ہیں۔ آج کل چونکہ '' مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم کے امیر المؤمنین ہر تقریر کواپنے حق میں ریفرنڈم کا نام دیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہوگا کہ ہم پہلے ان کے مُرشد والے ریفرنڈم پر جالب صاحب کو سن لیں۔
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جِنّ تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے
اور ایمان کا ماتم تھا
مرحُومین شریک ہوئے
سچائی کا چہلم تھا
دِن اُنیس دسمبر کا
بے معنی بے ہنگم تھا
یا وعدہ تھا حاکم کا
یا اخباری کالم تھا
راوی بیان کرتا ہے ریفرنڈم تقریر کی ریکارڈنگ کے دوران جوں ہی مقرر صاحب اس جملے پر پہنچے کہ پھر میں تمہارا 5سال کے لئے صدر ہوں تو اسسٹنٹ کیمرہ مین نے دوڑ کر ریفرنڈمی صدر کا دوسرا ہاتھ زور سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا۔ راوی مزید کہتا ہے ،اگر موصوف کا دوسرا ہاتھ آزاد ہوتا تو وہ مبلغ 10سال کے لئے صدر ''منتخب ‘‘ہوجاتے۔ قانون اردو کا لفظ ہے اور میٹرو انگریزی کا لہٰذا اسے لیگل میٹرو بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان دنوں لیگل میٹرو شاہراہِ دستورپر چھکا چھک بھاگی جارہی ہے۔ اس شاہراہ کے جنوبی کونے سے گاڈ فادر والا فیصلہ نکلا ۔ تو شمالی کونے نے نااہلی کا قانون ہی بدل ڈالا ۔ اس دستوری جنکشن سے میرا ہر دن گزر ہوتا ہے۔ کیونکہ میری گزر بسرہی یہیں سے ہوتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ نااہلی پر ناںاور نا اہلی پر ہاں کرنے والے دونوں اداروں کی پارکنگ لاٹ مشترکہ ہے۔ آج کل پارلیمانی پارکنگ میں لیگل میٹرو کی نئی کھچڑی تیاری کے آخری مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دال کا دانہ ہمیشہ چڑیا لاتی ہے اور چاول کا دانہ کوّا۔ چند دنوں کے بعد آپ دیکھیں گے اس پارلیمانی دیگ میں سے نئی لیگل میڑو برآمد ہو جائے گی۔ احتساب کو ظالمانہ سے شریفانہ بنانے کا سفرمکمل ہوگا۔ پارلیمنٹ میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ فیصلہ کرے گی۔ احتساب کا کون سا مقدمہ چلے گا اور کس کو خارج کردیا جائے ۔ موجودہ احتساب کی عدالتوں پر تالے پڑیں گے اور ان تالوں میں ایلفی ۔ اس پارلیمانی ایلفی کی جو تفصیلات میں نے دیکھی ہیں۔ ان کو سمجھنا عام وکیل اور عام جج کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ احتساب کے قومی ادارے کا یہ ویسا ہی لیگل میٹرو ورشن ہوگاجیساایس، ای، سی ، پی کو بنایا گیا۔تاکہ کالے دھن کو مِڈل ایسٹ پہنچا کر اور یورپ سے دُھلوا کر پاک صاف کرکے پاک سرزمین پر واپس لایا جا سکے ۔ برقی شعبے کے ریگولیٹر نیپرا ، آئل اینڈ گیس کے ریگولیٹراوگرا سمیت حکومت نے خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کو ایگزیکٹو کے ما تحت کر کے ان کا حلیہ بگاڑ دیا ۔پارلیمنٹ کو سپریم کہنے والے پارلیمنٹ کاکوئی فیصلہ ماننے پر راضی نہیں۔ اگلے دن ہائوس آف فیڈریشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے جواز اور بے رحمانہ اضافے کے خلاف قرار داد پاس کی۔ ایسی درجنوں سے زیادہ قراردادیں، پارلیمنٹ کے دونوں ایوان پہلے ہی پاس کرچکے ہیں۔ لیکن عوام کی جیبیں کاٹنے والے حکمران اپنے اکائونٹس اور جائیدادوں کو ترقی دینے میں معاون قوانین کے علاوہ کسی اور پارلیمانی فیصلے میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ چند دن پہلے سینٹ نے ایک اور قرار دادبھی پاس کی تھی ۔جس کے ذریعے انتخابی ایکٹ مجریہ 2017ء میں نااہل وزیر اعظم کے حق میں بنائے گئے قانون کو مسترد کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد سینیٹ نے اس قانون میں ترمیم پیش کی جو ایوان بالا کے اکثریتی فیصلے سے منظور ہوگئی۔ اب یہ ترمیم آلِ شریف کے گھریلو سپیکر کی میز پر ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے حق میں تقریریں کرنے والے اس ترمیم کو قومی اسمبلی کے فلور پر لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ یہ ترمیم نااہل وزیر اعظم کے خلاف منظور ہوئی ۔ لہٰذا اسے بلڈوز تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس پر پارلیمانی مباحث کا دروازہ ہمیشہ بند رہے گا۔
پارلیمنٹ کس قدر بالا دست ہے اس کا عملی مظاہرہ اگلے روز پارلیمانی کمیٹی برائے قانون کے اجلاس میں ہوا۔ جہاں کچھ پر کٹے عقاب ،جج اور جرنیل کے احتساب کا مسلسل نعرہ لگاتے رہے۔ لیکن جب اس نعرے پر مبنی ترمیم کو باقاعدہ بل کی شکل دے کر منظور کرنے کا وقت آیا تو ان کا حال وہی ہوا جس کی توقع تھی۔
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
لیگل میٹرو کے کچھ اور سٹاپ بھی بڑے اہم ہیں۔ مثال کے طور پر ملتان میٹرو کے گھپلے کا سٹاپ جس کی عین منصفانہ تفتیش کے لئے گاڈ فادر نمبر 2نے اس پولیس والے کا انتخاب کیا جس کو سانحہ ماڈل ٹائون کے 14قتل نظر ہی نہیں آئے ۔جیسے ایل ،ڈی ، اے پلازہ لاہور سے لے کر عوامی مرکز اسلام آباد تک آگ لگنے کے واقعات ۔ جونہی کسی پروجیکٹ میں اربوں روپے کے گھپلے کی خبر لیک ہوئی فوراً متعلقہ پروجیکٹ کے کاغذات جل گئے۔ یہ بھی کمال کا کارنامہ ہے ایسی ہر رپورٹ پولیس نے درج کی مگر آگ لگانے کا ذمہ دار چوکیدار ، خاکروب یا چپڑاسی کو ٹھہرایا گیا۔ لیگل میٹرو چلتے چلتے وہاں پہنچ چکی ہے۔ جہاں سٹاپ کے بجائے فل سٹاپ آگیا ہے۔ قانون کی میٹرو کا سفر ختم ہوا کیسے اور کہاں پہنچ کر اس کا جواب چند ماہ کے اندر اندر قوم کے سامنے ہوگا۔
چلتے چلتے لیگل میٹرو کے شاعر کے دو مصرعے حاضر ہیں۔
تری چوریاں‘ تیرا گڑبڑ گھٹالا
تجھے یوں نکالا، تجھے یوں نکالا