یہ ایک خالص آئینی اور قانونی مسئلہ ہے۔ سیاسی خواہشوں اور ضرورتوں سے ماورا۔
سوال ایسا ہے جو حدیبیہ پیپر ملز میں بڑے مُلزم کے حامیوں کی بانٹی ہوئی مٹھائی کے پیٹ سے نکلا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب کی اپیل خارج کر دی۔ لیکن سوال اپنی جگہ سامنے کھڑا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا حدیبیہ کیس اس فیصلے کے ساتھ ہی بند ہوا یا کھل گیا۔ میرے خیال میں اگر جے آئی ٹی پر مٹھائی بانٹنے والے پہلے آئین کی کتاب اور ضابطہ فوجداری کھول کر دیکھ لیتے تو اچھا ہوتا۔ کیا حدیبیہ کیس بند ہوا یا کھل گیا۔ اس سوال کا جواب سیاسی متحارب دعووں میں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔
نہ ہی اس کا جواب کیس کھولنے یا بند کرنے کے حامی اور مخالف بیانوں سے مل سکتا ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ قوم کو اس سوال کا آئینی اور قانونی جواب مل جائے۔ لیکن ذرا اس سے پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ پچھلے ڈیڑھ عشرے میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں کارروائی کیا ہوئی۔ اس کو سمجھنے کے لیے تین لینڈ مارک موجود ہیں۔
پہلا: مشرف دور میں یہ ریفرنس فائل ہوا لیکن ٹرائل کورٹ کے روبرو میرٹ پر اس مقدمے کا ٹرائل ہی نہ ہو سکا‘ جس کی پہلی اور آخری وجہ مشرف‘ نواز شریف ڈیل تھی‘ جس کے نتیجے میں شریف فیملی کو معافی ملی۔ اور ساتھ ہی ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی۔
دوسرا: لاہور ہائی کورٹ نے جس رِٹ کی سماعت کی‘ اس دوران یہ مقدمہ بطور وزیرِ اعظم نااہل شریف کے ماتحت سرکاری اداروں نے دونوں طرف سے لڑا۔ دو سرکاری وکیل پیش ہوئے‘ اور دونوں نے مقدمہ ختم کرنے کے حق میں عدالت کے روبرو اپنے بیان ریکارڈ کروائے۔ اس طرح سرکاری سرپرستی میں وکٹ کے دونوں طرف بیٹنگ کا لاجواب مظاہرہ کیا گیا۔
پھر حدیبیہ پیپر ملز کیس کا تیسرا مرحلہ آیا۔ سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا‘ اُسے آپ نے جمعہ کے روز ٹی وی پر سنا‘ اور ہفتہ کے دن اخباروں میں پڑھ لیا ہے۔ وہ قانونی نکتہ‘ جس کی طرف کوئی رپورٹر گیا نہ کوئی اینکر مین‘ یعنی یہ کسی کے ذہن میں نہیں آیا‘ یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس مجاز عدالت یعنی احتساب کورٹ میں کبھی ٹرائل نہیں ہوا۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا مقدمہ‘ جس کا میرٹ پر کورٹ کے روبرو ٹرائل نہ ہوا ہو‘ وہ ایسی کارروائی‘ جس طرح حدیبیہ پیپر ملز کیس شروع سے لے کر آخر تک ہوئی ہے‘ کے ذریعے مقدمہ ختم ہو جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب میں اپنی ذاتی رائے سے نہیں دینا چاہتا۔ آئیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی طرف چلتے ہیں جس کے آرٹیکل 13 میں دوبارہ مقدمہ کھولنے، دوسری تفتیش کرنے یا دوسرا چالان/ ریفرنس ٹرائل کورٹ میں دوسری مرتبہ داخل کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 13 کے الفاظ یہ ہیں:
"No person shall be prosecuted or punished for the same offence more than once"
ترجمہ: کسی شخص کے خلاف ایک ہی مقدمے میں نہ دو دفعہ ٹرائل ہو سکتا ہے‘ اور نہ ہی دوسری مرتبہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔
اگر تکسیرِ لفظی کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 13 کے اس حصے پر غور سے نظر ڈالیں تو اس میں دو الفاظ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلا لفظ ''prosecuted‘‘ ہے‘ جس کا مطب ہے مقدمے کا ٹرائل ہونا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں شریف خاندان کے کسی فرد کے خلاف آج تک کبھی کوئی ٹرائل نہیں ہوا۔
اب آئیے دوسرے لفظ کی طرف جو ہے ''punished‘‘ جس کا مطلب ہے کسی کو سزا دی گئی۔
اس حوالے سے یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حدیبیہ کیس میں دو مرحوم ملزمان سمیت کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ اس آئینی وضاحت کو دیکھنے کے بعد اب آئیے اس قانون کی طرف‘ جس کے تحت پاکستاں میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ احتساب کا ریفرنس فائل ہوتا ہے، تفتیش کی جاتی ہے‘ استغاثہ اور عدالتی گواہوں کے بیان قلم بند ہوتے ہیں۔ اور پھر ٹرائل کی تکمیل کے بعد عدالتی گواہوں کے بیان قلم بند ہوتے ہیں۔ یا ٹرائل کی تکمیل کے بعد عدالت ملزم کی سزا، جزا کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسے ضابطہ فوجداری کا قانون مجریہ 1860ء کہتے ہیں۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 403 اس بارے میں بہت واضح ہے:
"403. No person once convicted or acquitted to be tried for the same offence.... (1) A person who has once been tried by a court of competent jurisdiction for an offence and convicted or acquitted of such offence shall, while such conviction or acquittal remains in force, not to be liable to be tried again for the same offence, nor on the same facts for any other offence for which a different charge from the one made against him might have been made under section 236, or for which he might have been convicted under section 237"
اس آئینی اور قانونی تناظر میں اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ حدیبیہ کیس بند ہوا یا کھل گیا۔ چونکہ حدیبیہ کیس میں کسی ملزم کا کبھی ٹرائل نہیں ہوا‘ اس لیے اس مقدمے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو کے قانون کے آرڈیننس مجریہ 1999ء کے تحت دوبارہ تفتیش کا عمل قانونی اور آئینی طور پر شروع کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ یہاں یہ خاص بات مدِ نظر رہے کہ حدیبیہ کیس کا ریفرنس سال 2000ء میں جب عدالت میں دائر کیا گیا‘ اُس وقت بے شمار ایسے حقائق پردہِ راز میں تھے‘ جو پاناما کیس کے بعد کھل کر منظرِ عام پر آ گئے۔ اس لیے یہاں [DISCOVERY OF NEW FACTS] کا اصولِ قانون لاگو ہوتا۔ اس بنیاد پر حدیبیہ ملز کیس کے ملزموں کے خلاف نیا ریفرنس دائر کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اور آخری یوں ہے کہ پاناما کیس کے ذریعے سامنے آنے والے نئے حقائق پر مبنی نئی تفتیش کی روشنی میں حدیبیہ ملز کا مقدمہ پہلی دفعہ ٹرائل کے عمل سے گزرے گا۔ پاکستان کے آئین کی منشاء اور قانون کا تقاضا یہی ہے۔ ساتھ ساتھ عوام کی آواز بھی۔ نااہل وزیرِ اعظم کی جانشین صاحبزادی نے اپنے ٹویٹ میں یہ سوال اٹھایا:
''مائی لارڈ کیا آپ کا بابا واٹس ایپ کال کرتا تھا‘‘ مجھے ایس جی ایس کوٹیکنا مقدنے کا ٹرائل یاد آ گیا۔ اس مقدمے میں شہید بی بی کی طرف سے وکیلِ صفائی میں تھا۔ یہ وہی مشہور مقدمہ ہے‘ جس میں گاڈ فادر کے کہنے پر ٹویٹ کرنے والی خاتون کے چاچا نے جج کو فون کیا‘ اور سزا کی فرمائش کی۔ یہ فون ٹیپ ہوا اور سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ بنا۔ میں نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ BABAR AWAN.PK پر یوں جوابِ آں غزل پیش کیا: ''مائی لارڈ! بھتیجی سے پوچھیں اس کے چچا نے بڑے بھائی کے کہنے پر بے نظیر شہید کو سزا دلوانے کے لیے کس جج کو فون کیا تھا؟ چور ٹبر جان لے عدلیہ فون پر نہیں قانون پر چلتی ہے‘‘۔
قانون کا پہیہ حدیبیہ کیس میں بھی آگے چلے گا۔