محترم حسن نثار صاحب نے میرے مزاج کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا: عجیب آدمی ہے جب وفاقی وزیر تھا تو مجھے ملنے کے لیے بیلی پور تک پہنچ گیا، لیکن جب سے اپوزیشن میں آیا ہے تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، حالانکہ آج کی سیاست کے آداب اس عادت کے بالکل اُلٹ ہیں۔
منو بھائی جب آخری با ر اسلام آباد آئے تو اُن کے ساتھ مزے کی نشست رہی، جس میں منو بھائی نے حسن نثار صاحب کے کالم کا یہ پیراگراف مجھے مزے لے لے کر سنایا۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ میرا اُن سے تعلق سیاست کار یا قلم کار والا نہیں بلکہ ذاتی نوعیت کی تابعداری والا تھا، جس کا پسِ منظر منو بھائی نے مختلف اوقات میں اپنے پروفائل ٹی وی انٹرویوز میں بتایا اور اپنے کالم میں بھی ایک سے زیادہ مرتبہ اس کا ذکر کیا۔ جن دنوں منو بھائی کے والد صاحب پنڈی اور گوجر خان تحصیل کے سنگم پر واقع کلیام اعوان ریلوے سٹیشن کے سٹیشن ماسٹر تھے، اُن دنوں منو بھائی کلیام اعوان سکول کے طالب علم رہے، جہاں میری والدہ محترمہ بھی زیرِ تعلیم تھیں۔ اس طرح منو بھائی کا میرے ننھیال سے بہت قریبی احترام کا رشتہ عمر بھر استوار رہا۔ کسی زمانے میں لوگ صرف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم ہوتے تھے اور اکثر اس تقسیم کی پشت پناہی نمبردار اور پگ وال حضرات کیا کرتے۔
1977ء والے مارشل لاء کے خراب پیٹ سے جو خوف ناک کیڑے برآمد ہوئے اُن میں سے ایک نے تفرقہ بازی کو کارپوریٹ کلچر میں تبدیل کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ شاعری اور ادب بھی مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم میں آ گئے۔ یار لوگوں نے نہ صرف اپنے اپنے مجاہد ایجاد کر لیے بلکہ امام، مشائخ اور مفتی بھی اسی رنگ میں رنگ لیے گئے۔ طبقاتی تقسیم کے مہروں نے غریب عوام کا استحصال کرنے والوں کو کئی رنگ کے چوغے پہنا دئیے۔ مان لیتے ہیں کہ دھرتی کبھی بانجھ نہیں ہوئی پھر بھی فیض احمد فیضؔ، ساحر لدھیانوی، اُستاد دامن، حبیب جالب، احمد فراز اور منو بھائی جیسے لوگ ناپید ہوتے چلے گئے۔ آج کے لاتعداد شاعر ایسے ہیں جن کی کتابوں کا وزن اُن کے اپنے وزن سے بھی زیادہ ہے لیکن اُن کے شعروں کا وزن صرف سوشل میڈیا ہی اُٹھا سکتا ہے جبکہ ایسے دانش مندوں کا اپنا وزن راج دربار سرکار کے علاوہ کوئی بزنس ٹائیکون ہی برداشت کر سکتا ہے۔ حسبِ معمول اس مہینے تین کتابیں میرے دفتر آئیں۔ ان تینوں فن پاروں کے انتساب میں ان ''مخیر حضرات‘‘ کی خدمات کا تفصیلی جائزہ موجود تھا، جن کی بے پناہ قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں قوم کو ایسے عظیم لکھنے والے نصیب ہوئے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی کے تمام شعبے اس کارپوریٹ کلچر کے ''متاثرین‘‘ میں شامل ہو چکے ہیں جیسے منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم، خان پور ڈیم اور راول ڈیم کے متاثرین۔ پچھلی حکومت کے دور میں ایک دن مجھے منو بھائی کا فون آیا۔ یہ مِکس قسم کی ٹیلی فون کال تھی۔ فرمائشی بھی اور شکایتی بھی۔ کہنے لگے: دو بڑے آئینی عہدے داروں میں سے ایک تک یہ پیغا م پہنچانا ہے۔ عرض کیا کہ پیغام دیں۔ منو بھائی بولے: پہلے وعدہ کریں آپ پیغام ضرور پہنچائیں گے۔ ان دنوں حکومتی انقلابیوں کی ایک معروف جوڑی اکثر پولینڈ اور سکینڈے نیویا کے ملکوں کے دورے پر جاتی تھی۔ پیغام ایسا تھا جسے نہ پھینکا جا سکتا تھا اور نہ پہنچایا جا سکتا تھاچنانچہ ظاہر ہے ایسے پیغام کو 'وکالت نامہ‘ کا حصّہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ جس کو 60 فیصد میں خود سینسر کر دوں اور 40فیصد کوئی اور۔ یہاں اتنا کہنا بہت ضروری ہے کہ ایسا پیغام وہی دے سکتا ہے جس میں دربارِ اقتدار کے 2 عددکاریگروں کی ناراضی مول لینے کا حوصلہ ہو۔ یا پھر ایسا پیغام جمہوریت کا سجن بے پروا ہی دے سکتا ہے۔
منو بھائی میں یہ دونوں خوبیاں موجود تھیں۔ منو بھائی کی شخصیت کا خاص اعجاز یہ ہے کہ وہ نیچے سے اُٹھے اور ہمیشہ نچلے کچلے ہوئے طبقات کی آواز کو بلند کیا۔ منو بھائی کی تحریریں، ادب پارے اور منو بھائی کے لکھے ہوئے ڈرامے شاہکار فن پارے ثابت ہوئے۔ منو بھائی نے پنجابی زبان و ادب کے لیے بھی لازوال ورثہ چھوڑا۔ جس میں سے دو کا نام ہی کافی ہے۔ پہلا ''احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر... چوراں، ڈاکوواں، قاتلاں کولوں، چوراں ، ڈاکوواں ، قاتلاں بارے کی پُچھدے او‘‘۔ اور دوسرا ''ہوندا کجھ نئیں کرنا پیندا اے۔ جیون دے لئی مرنا پیندا اے‘‘۔ ان دنوں ملک بھر میں ماں، باپ، بچے اور خاندانی نظام جس قدر ہراساں اور خوفزدہ ہے‘ ماضی سے اُس کی شاید ہی کوئی مثال ڈھونڈی جا سکے۔ خاص طور پر قصور کے سانحۂ زینب کے بعد ۔ میں سوچتا رہا کہ اگر منو بھائی آج زندہ ہوتے تو وہ اِس پر کیا کہتے؟ اس کی طرف بعد میں آئوں گا، پہلے سانحۂ زینب سے اُٹھنے والے چار سوال دیکھ لیں۔ پہلا سوال یہ کہ جس ملزم کے آٹھ ڈی این اے سیمپل پنجاب حکومت کے پاس پڑے ہوئے تھے، اُسے سرکار کیوں نہ گرفتار کر سکی؟ دوسرا سوال یہ ہے گُڈ گورننس کے سلطان نے مبینہ ملزم کی گرفتا ری پر طویل ترین خطبہ دینے کے بعد قتل ہونے والی زینب کے باپ کو ایک لفظ تک نہ کہنے دیا اور اُس کے مائیک کو اپنے صاف ستھرے ہاتھوں سے بند کیا۔ پھر زینب کے والد کے سامنے بندے کھڑے کر کے اُسے میڈیا سے کیوںچھپایا؟ تیسرا سوال ڈاکٹر شاہد مسعود نے اُٹھایا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس تحقیقات کرائیں اور حکومت اُنہیں غلط ثابت کرے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے مطابق ملزم کے 37 فارن کرنسی اکائونٹس کھلے ہیں۔ اور اُس کے گینگ میں ایک وفاقی وزیر اور ایک بڑی شخصیت کا نام بھی آتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لے لیا ہے۔ چوتھا سوال شاید سب سے اہم ہے کہ کیا گرفتار ملزم عمران کو پولیس کی زیرِ حراست‘ عدالت میں پیشی کے وقت یا کسٹڈی میں قتل کر دیا جائے گا۔ با لکل ویسے ہی جیسے اس سے قبل دو یا تین ملزم پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت قتل کر دئیے گئے یا اُن دونوں جوانوں کی طرح جو ''جسٹس فار زینب‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے پولیس کی سیدھی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ مجھے یقین ہے اگر منو بھائی آج ہم میں موجود ہوتے تو یہ سوال اُٹھاتے۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاںاُس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آ جائے
کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند ِ جلیل و معتبر، دانا و بینا، منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر