مجھے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ یاد آ گئے۔
یہ ملک کی آخری عدالت کا کورٹ روم نمبر1 ہے۔ شام کے 4 بجنے والے ہیں۔ میں نے اپنے دلائل قرآن حکیم کی سات آیات مبارکہ پر ختم کیے۔ اس سے پہلے مروجہ قانون اور پہلے سے صادر شدہ عدالتی فیصلوں کے حوالے دے چکا تھا۔ اسی اثنا میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی خصوصی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی آواز گونجی :کوئی اور صاحب ہیں جو بابر اعوان کی پراپوزیشن کے حق میں دلائل دینا چاہیں۔ کورٹ روم نمبر1 کے اونچے اور وسیع ہال میں مکمل سناٹا چھایا رہا۔ ڈیڑھ درجن سے زائد فاضل وکیل حضرات آئین کے آرٹیکل 62,63 میں مستقل نااہلی کے خلاف دلائل دینے کے لئے تیار تھے۔
نوابزادہ نصراللہ صاحب کے ساتھ میری ایک ہی تصویر ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نااہل وزیر اعظم کو تیسری بار حکومت مل چکی تھی۔ اس سے پہلے آئی جے آئی والی پہلی حکومت اور جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کے بینچ سے ملنے والی دوسری حکومت کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے جا چکی تھی۔ نااہل شریف کو 1997ء میں اسٹیبلشمنٹ کے انجینئرز نے بھاری مینڈیٹ دیا‘ جس کا سارا وزن جاتی امرا کے راج دربار سے اختلاف رکھنے والوں پر آن پڑا۔ تب میرے پاس شہید بی بی کے مقدمات تھے اور شریف راج بی بی کو عدالتی دفاع کے حق سے محروم رکھنا چاہتا تھا۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے مجھے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کا فون موصول ہوا۔ کہنے لگے: تمہیں ملنے کے لیے آنا چاہتا ہوں۔ نوابزادہ صاحب کیا نستعلیق گفتگو کرتے تھے۔ میرے اس جواب پر کہ آپ بڑے ہیں‘ حکم کریں ملاقات کے لیے میں خود حاضر ہو جاتا ہوں بولے: صرف ایک وجہ سے میں آ رہا ہوں۔ پھر وجہ یہ بتائی کہ میری طرح تمہارے اندر بھی اپوزیشن کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 کی تشریح کا یہ لینڈ مارک اور تاریخی مقدمہ چل رہا ہے۔ جج صاحبان کھلے ذہن اور کھلے دل سے ہر طرح کے دلائل سن رہے ہیں۔ اس پر فیصلہ کرنا ملک کی آخری عدالت کا ہی حق ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لمبے وقفے کے بعد آج عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل نمبر9 کی مستقبل بینی پر‘ اور مستقبل سازی پر تشریح شروع کی ہے۔ اس لئے وہ مافیاز جو قوم کی صحت، مستقبل اور بچوں کی نشوونما میں زہر گھولنے کے لائسنس ہولڈر ہیں‘ ان کی پریشانی دیوار پر لکھی ہے۔ آئیے چند مثالیں دیکھ لیں۔ ایک بڑے نامور صاحب کو دل کی شریانوں کو کھولنے والے سٹینٹ بنانے کا ٹاسک ملا۔ رپورٹ شدہ تفصیل کہتی ہے: ساتھ تین کروڑ سے زائد کی بھاری رقم بھی۔ ظاہر ہے یہ کروڑوں روپے عوام کے ٹیکسوں میں سے کاٹے گئے تھے۔ لاہور میں دل کے سینکڑوں مریضوں کو جعلی سٹینٹ ڈالے گئے‘ لیکن کروڑوں روپے وصول کرنے والوں نے نہ سٹینٹ بنائے اور نہ چوں تک کی۔ 1973 کے دستور میں حقِ زندگی کو بنیادی حق ڈیکلیئر کیا گیا۔ اگر صحت کے صوبائی اور مرکزی ادارے، وزیر اور مشیر، ریگولیٹر اور بیوروکریسی، صوبائی اور مرکزی منتخب نمائندے آنکھیں بند کرکے مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیں تو کیا لوگوں کو بے موت مرنے دیا جائے۔ یا ملک کی آخری عدالت رائٹ ٹو لائف کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے حرکت میں نہ آئے؟ کسی زمانے میں دودھ میں پانی ملا دینا گناہ سمجھا جاتا تھا اور جُرم بھی۔ آج دودھ کے صارفین گوالوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں: خدا کے واسطے دودھ میں آدھا پانی ڈال لو، زہر آلود کیمیکل اور سفیدی والا چونا مت ملائو۔ کہاں ہیں عوام کے خادم اور تقدیسِ مشرق کے ثنا خواں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اس موضوع پر سوئوموٹو کی سماعت ہفتے کے دن ہوئی۔ میں بھی وہاں عدالت کے روبرو موجود تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے یہ دردناک انکشاف کیا کہ پاکستان میں بچوں اور خاص طور پر بچیوں میں زہریلے دودھ نے خوفناک ہارمونز پیدا کر دیے ہیں۔ سارے متعلقہ محکموں کے بڑے یہ سن کر گُنگ رہ گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کی صحت، سلامتی اور صنف کو بے رحم قاتلوں کے ہاتھ میں رہنے دیا جائے یا سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ اور تحفظ کی ذمہ داری پوری کرے۔ ملک کے طاقتور مافیاز آج کل حالت جنگ میں ہیں۔ اس چومُکھی لڑائی کے دوران ان مافیاز کا پہلا ٹارگٹ ریاست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ریاست کے لوگوں کو زندگی بچانے والی دوا اصلی نہ ملے۔ کھانے پینے کی کوئی چیز زہر آلودگی سے خالی نہ ہو۔ انصاف بڑوں کے گھر کی لونڈی اور عام آدمی کے لیے خواب بن جائے۔ اس ملک کے رہنے والے اپنے ریاستی اداروں پر اعتماد کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لیے پانی چور سے جوتی چور تک سینہ زوری کی علامت بن چکے ہیں۔ ایسے مافیاز کا دوسرا نشانہ انصاف کے ادارے ہیں۔ اب ان اداروں پر حملہ کرنا ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے بعض حصے اور سوشل میڈیا کی گھوسٹ سائٹس نامعلوم حملہ آوروں کی پناہ گاہیں ہیں۔ ان حالات میں جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے 2 کام ممکن ہوئے ہیں۔ ایک‘ اداروں کی توجہ دلانے کے لیے‘ سوئوموٹو ایکشن جس کا واحد اختیار ملک کی آخری عدالت کے پاس ہے۔ دوسرے‘ وہ عام لوگ جن کے لئے انصاف تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے چند لوگ زنجیرِ عدل ہلانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ برصغیر میں رائج فنِ حکمرانی ہمیشہ انصاف تک رسائی کے حوالے سے ایک مہنگا، پیچیدہ اور دشوار گزار راستہ چلا آیا ہے۔ اسی لیے شہنشاہِ ہندوستان نورالدین جہانگیر کی طرف سے بھی انصاف کے دعوے کھوکھلے ہی رہے۔ بقول شاعرؔ
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
پاکستان میں سب سے زیادہ عرصے تک حکمران رہنے والا خاندان محلہ گوالمنڈی سے مے فیئر لندن تک جا پہنچا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد سب سے طویل عرصہ حکمرانی کرنے والے سارے کے سارے قتل، دہشت گردی، منی لانڈرنگ، اختیار کے ناجائز استعمال، پبلک فنڈز کی لوٹ مار کے مقدمات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ آج جوڈیشل ایکٹوازم کا سب سے بڑا مخالف یہی گھرانہ ہے‘ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے اور وہ ہے پکڑے جانے کا خوف۔ احتساب کا ڈر اور سوال و جواب سے گھبراہٹ۔ اس منظرنامے کی کڑیاں ملا کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے پانامہ فیصلے میں جس سسلین مافیا اور گاڈ فادر کا ذکر کیا‘ وہ ماضی کا کوئی ناول نہیں بلکہ آج کے پاکستان کی چلتی پھرتی زندہ تاریخ ہے۔
دوسری جانب درندگی کے شکار بچوں کے مظلوم ماں باپ سے لے کر میگا کک بیک، میگا کمیشن اور میگا کرپشن سے بدحال خزانے تک انصاف کے طلبگار کبھی فوج کے سربراہ کی طرف دیکھتے ہیں‘ اور کبھی عدلیہ کے چیف کی طرف۔ تازہ تاریخ میں ایسی کسی مظلوم عورت، بچے یا بے بس شہری نے حکمرانوں کو طارق بن زیاد سمجھ کر مدد کے لیے کبھی نہیں پکارا۔ وکیل خواتین و حضرات کا ایک گروپ‘ جس نے سابق سیاسی جج کے دور میں جی بھر کر لُڈیاں ڈالیں اور جھولیاں بھر کر موج اڑائی‘ کو کبھی اعلیٰ عدلیہ کے جج دبائو میں نظر آتے ہیں‘ اور کبھی جوڈیشل ایکٹوازم سے جمہوریت کو خطرہ دکھائی دیتا ہے۔
مال دوست اور اختیار و اقتدار کے یہ اندھے شہر کرپشن کی توپوں سے بچے کھچے انصاف کا مندر ڈھانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے منصفی زبانِ حال سے کہہ رہی ہے۔
یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہرِ نابینا