میں سال 1987ء سے مدینۃ الاولیاء ملتان کو دریافت کرنے کی کوشش میں ہوں ۔ ملتان کے ہر سفر میں کچھ نا کچھ علیحدہ‘ مختلف اور دل نشیں مل جاتا ہے ۔ یوں لگا اس بار مُجّی کی باری تھی۔
مجھ ایسوں کے لیے ملتان کی ایک پہچان مُجّی بھی ہے ۔ رات 10:15 بجے چہل قدمی کے لیے ابدالی روڈ پر نواں شہر چوک میں واقع چار ستارہ ہوٹل کے مین گیٹ سے باہر نکلا‘ اور دائیں طرف سوئمنگ پول کی طرف چل نکلا۔ واپسی پر مُجّی کا ہیئر سیلون کُھلا دیکھ کر اندر چلا گیا۔
شُستہ اُردو میں شاعری ، سرائیکی زبان میں شاہکار لطیفے اور اپنے اجداد کے پیشے ہیئر کٹنگ پر فخر کرنے والا مجتبیٰ کھوکھر اور دوستوں کے لیے‘ جن میں اب میں بھی شامل ہوں‘ ''مُجّی‘‘ یوں دریافت ہو گیا۔ اس کا حلیہ ، آواز ، انداز اور مزاحیہ فنکاری یقینا فلم، ٹی وی اور ایف ایم ریڈیو کے لیے اے کلاس ثابت ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ٹیلنٹ ہنٹ کا رسیا پروڈیوسر یا پروموٹر وکالت نامہ دیکھ لے تو پاکستان کو دوسرا منور ظریف مل جائے گا۔
فنکاری سے یاد آیا شہید بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ اسلام آباد سے ہماری کِک بیک جمہوریت کے محبوب جہاز A-T-R کا سفر درپیش تھا ۔ 1970ئ، 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں اس رُوٹ پر بوئنگ ہوائی جہاز اُڑتے تھے ۔ میرے ساتھ بائیں جانب کی سیٹ پر ایک فوجی جوان بیٹھا ملا۔
ہوائی جہاز کے اُڑان بھرنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی ۔ فوجی جوان مسکرا کر کہنے لگا: یہ آواز آپ سن رہے ہیں ۔ اُس کا اشارہ جہاز کے پینل پر بجنے والے انڈین گانے کی ایک دھن کی طرف تھا۔ کہنے لگا: کیا پاکستان کا فلیگ کیریئر انڈین گانے کی دھن بجا سکتا ہے۔ میرا جواب نفی میں سن کر اُس نے اُونچی آواز میں فلائٹ ایئر ہوسٹس کو بلایا‘ اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ خاتون کہنے لگیں: یہ میوزک انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ والے اَپ لوڈ کرتے ہیں ۔ یہ سن کر مجھے عربی زبان کا ایک مشہور مقولہ یاد آیا کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے طور طریقے پر عمل کرتے ہیں ۔ جہاں بادشاہ خود بھارتی سریا ساجن کا یار ہو اور وزیر اعظم نر یندر مودی کا پیروکار ہو‘ ایسی بادشاہی میں کسی کو الن فقیر، زرسانگہ یا ہیر وارث شاہ کی دھن کیوں کر پسند آئے گی۔
بات ہو رہی تھی اولیا کی بستی ملتان کی‘ جہاں میں ہر دفعہ پرانے شہر میں درویشوں کے آستانے ڈھونڈتا ہوں۔ اس مرتبہ انتہائی محترم جسٹس شاہد وحید صاحب کی عدالت میں بحث ختم کی اور بار ایسوسی ایشن ملتان ہائی کورٹ کے کمرۂ صدارت میں دوستوں کی چائے کی دعوت پر چلا گیا ۔ ملتان پریس کلب کے نوجوان‘ مستعد اور باخبر رپوٹرز بھی پہنچ گئے۔ اور یوں چھوٹے سے جلسے کے ساتھ میڈیا ٹاک کرنا پڑی ۔ گاڑی میں بیٹھا تو یوں لگا جیسے کوئی مجھے اپنی جانب بُلا رہا ہے۔ ڈرائیور نبیل سے پوچھا: حافظ جمال اللہ ملتانی کی آخری آرام گاہ کہاں واقع ہے۔ پندرہ منٹ بعد ایک 224 سال پرانے قبرستان کے پہلو میں غیاث العاشقین کے آستانے پر پہنچے ۔ مرقدِ حافظ جمال اللہ ملتانی کے مزار پر فاتحہ خوانی کی ۔ دوسرے دروازے سے باہر نکلے جہاں سِکھا شاہی کے زمانے کا تعمیر کردہ شاہکار برآمدہ‘ تقریباً 20 فٹ اُونچا‘ لکڑی کے پلرز پر اُٹھایا گیا تھا۔ لکڑی کی آرائش اور پُھل کاری والا یہ برآمدہ ملتان کا عظیم ثقافتی خزانہ ہے‘ جس کی چھت پر لگے ہوئے اینٹ نما چوکے میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے ۔ حالانکہ پوٹھوہار کے طرزِ تعمیر میں آج بھی ٹی آئیرن چوکہ اور گارڈر کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر اس طرزِ تعمیر کی چھتیں بہت بھلی لگتی ہیں ۔ دربار حافظ جمال اللہ ملتانی آج تقریباً اپنی اصلی حالت میں ہی موجود ہے ۔ دربار کے تین احاطے ہیں ۔ بہت کشادہ اور پرانی طرزِ تعمیر کی باقیات والے ۔ ایک طرف قبرستان۔ دوسری جانب کمرے، جن میں پہلے کمرے کے اندر حافظ ملتانی کی بیگم صاحبہ کا مرقد ہے ۔ تیسرا احاطہ کُھلے دالانوں اور مہمان خانوں پر مشتمل ہے۔ دربار کے متولیوں کی سادگی انتہائی متاثر کُن ہے‘ جن کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ کر چائے پی اور اس تاریخی درگاہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ باہر نکلے تو کافی سارے رکشے والے اپنے مسائل بتانے کے لیے کھڑے تھے ۔ ایک عمر رسیدہ محنت کش مجھے کہنے لگے: بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے لوگ غریب رکشہ ڈرائیوروں کا دُکھ کیا جانیں ۔ میں نے کہا: آئیے آپ کے دُکھ کو شیئر کرتے ہیں‘ آپ سواری بن کر میرے ساتھ بیٹھیں‘ اور پھر میں نے اُس کا رکشہ قاضی مٹھو روڈ پر چلایا ۔ ہمارے سماج کی سب سے بڑی بد بختی ہر روز مزید بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم ہے۔ اس طبقاتی تقسیم کا ظلم صرف معاشی ناہمواری تک محدود نہیں رہا۔ جس کے پاس علم ہے وہ لوگوں کو تحصیلِ علم کے راستے پر نہیں لگاتا۔ اُسے علم جھاڑنا زیادہ پسند ہے ۔ ریاست کے بیت المال سے بے وقعت سلائی مشینیں‘ ایک وہیل چیئر اور دو ہزار روپے کا چیک بانٹنے والا پہلے اپنی فیس بُک کے لیے فوٹو سیشن کرانا پسند کرتا ہے۔ اسی لیے صادق جذبوں والے کام بھی نمائشی اور مصنوعی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ملتان کے مُجّی نے ایک مصنوعی جانباز کا قصہ سنایا ۔ پہلے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے شیدے وکیل کی کہانی سنی ہے ۔ شیدا وکیل بَڑ ہانکنے کا چیمپیئن تھا‘ جسے گائوں جاتے وقت اُٹھائی گیر لوٹ کر چلتے بنے ۔ شیدا گائوں پہنچا تو اپنے آپ کو رحم دل ثابت کرنے کے لیے کہنے لگا کہ پہلے ڈاکو نے چھرے کی نوک ماتھے پر رکھی اور کہا: موٹر سائیکل کی چابی دے دو‘ جو میں نے ترس کھا کر دے دی ۔ دوسرے نے کمانی دار چاقو کھولا اور میرے پیٹ پر رکھ دیا ۔ میں نے ترس کھا کر بٹوا اُس کے حوالے کر دیا ۔ گائوں والوں نے پوچھا وکیل صاحب‘ ڈکوئوں پر اتنا ترس کھایا ۔ کہنے لگا اس سے بھی زیادہ۔ میں نے ترس کھا کر اپنی ڈب سے پستول ہی نہیں نکالا۔ کہیں ڈاکو ''بیچارا پستول‘‘ ہی نہ چھین کر لے جائیں ۔ مُجّی کے لطیفے پڑھنے سے زیادہ سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔
چلئے نظامِ عدل کے حوالے سے ایک مذاق نما حقیقت سن لیں یا حقیقت نما لطیفہ۔ جسٹس شاہد وحید صاحب کی عدالت میں جس مقدمے کا حتمی فیصلہ یکم مارچ 2018ء کے دن ہوا‘ وہ کیس 20 ستمبر 1958 کے روز کھلا تھا... ان 60 سالوں پر تبصرہ آپ خود کریں۔ یا حوصلہ ہے تو ملتان کے مُجّی سے کروا لیں۔
البتہ اردو کے سب سے بڑے استاد شاعر میر تقی میر ـ ( 1722ئ۔ آگرہ تا 1810ء لکھنو) نے چمن کی پریشان حالی پر یہ تبصرہ کر رکھا ہے:
سیر کر عندلیب کا احوال
ہے پریشاں چمن میں کچھ پر و بال
تپِ غم تو گئی طبیب ولے
پھر نہ آیا کبھو مزاج بحال
سبزہ نو رستہ رہ گزار کا ہوں
سر اُٹھایا کہ ہو گیا پامال
شُستہ اُردو میں شاعری ، سرائیکی زبان میں شاہکار لطیفے اور اپنے اجداد کے پیشے ہیئر کٹنگ پر فخر کرنے والا مجتبیٰ کھوکھر اور دوستوں کے لیے‘ جن میں اب میں بھی شامل ہوں‘ ''مُجّی‘‘ یوں دریافت ہو گیا۔ اس کا حلیہ ، آواز ، انداز اور مزاحیہ فنکاری یقینا فلم، ٹی وی اور ایف ایم ریڈیو کے لیے اے کلاس ثابت ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ٹیلنٹ ہنٹ کا رسیا پروڈیوسر یا پروموٹر وکالت نامہ دیکھ لے تو پاکستان کو دوسرا منور ظریف مل جائے گا۔