اسے دونوں فن آتے ہیں۔ کسی سے بھی بہتر‘ سب سے بڑھ کر۔ مخالفوں کے لیے گڑھا کھودنے‘ پھر اسی گڑھے میں اندھا دھند چھلانگ لگا دینے کا۔
سلطانِ دوراں کے ولولۂ تازہ نے مجھے دو مجلسیں یاد کروا دیں۔ ایک پارلیمانی‘ دوسری سیاسی۔ سیاسی مجلس کی دو طویل نشستیں برپا ہوئیں۔ دن بھر کی بیٹھک کے دوران دو وقفے ہوئے۔ پارلیمانی مجلس اٹھارہویں ترمیم کے لیے سجی جو آدھا سال تسلسل سے چلتی رہی۔ آج کے موضوع سے متعلق صرف دو حوالوں کی چشم دید واردات سن لیجئے۔
پہلا حوالہ: چارٹر آف ڈیموکریسی میں تجویز آئینی عدالت کا قیام تھا‘ جس پر پارلیمنٹ کی آئینی اصلاحات کمیٹی متفق ٹھہری، ماسوائے نواز لیگ کے۔ بادشاہ کا مفرور ٹوڈر مَل اور پلاننگ کا ارسطو‘ مخالف تھے۔ وجہ سب جانتے ہیں۔ قندِ مکرّر کے طور پر دُہرا لیں۔ وزارتِ قانون پنجاب کے رانا سانگا کا تایا زاد سیاسی جج مسٹر چودھری۔
دوسرا حوالہ: آئین کی اوریجنل شکل میں بحالی تھی۔ آلِ شریف کے ٹکڑوں پر پلنے والے دربار پرست مولوی اور سیاسی جج کا پسندیدہ لاہوری سلطان‘ ڈٹ گئے۔ دلیل تھی‘ جو شخص ایک دفعہ عدالتی طور پر بے ایمان یا جھوٹا ثابت ہو جائے‘ اسے اسلامی جمہوریہ کا عوامی عہدہ دوبارہ کیونکر دیں۔ اس طرح آرٹیکل 62(1)(f) میں درج نااہلی کا بھرپور دفاع کرکے نااہل شریف نے اسلامی تشخص کا بول بالا کیا۔ دوسری مجلس اے پی سی تھی‘ جس کی مشترکہ اعلامیہ کمیٹی میں ن لیگ کی ترجمانی چوہدری نثار اور مفرور ٹوڈر مل نے کی۔ بعد ازاں چائے پر نااہل شریف نے بے رحمانہ احتساب کا سوال اُٹھایا۔
براہِ راست سوال کے جواب میں عرض کیا: احتساب بے رحم ہوا یا رحم دل آپ کے نو رتن بھاگ جائیں گے ''تُسی پھڑے جائو گے‘‘۔
نااہل شریف سنجیدہ ہو گئے۔ ٹوڈر مل سے کہا:: بابر صاحب کے ساتھ ٹائم رکھیں‘ تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ جنرل ضیا کی دعا نااہل شریف کو نشانے پر لگی تھی۔ عین اسی طرح نااہل شریف کی دعا نے احتساب کی کتاب کا نشانہ لیا۔ 1997ء والی وہی کتاب جو نااہل شریف نے اپنے سیاسی مخالفوں کے لیے گڑھے کے طور پر تیار کی۔ پھر احتساب آ گیا اور نو رتن بھاگ گئے۔ یہ کارِ قدرت ہوا یا تاریخ کا جبر‘ احتساب کے ہر مرحلے پر ابتدا سے آج تک میں آلِ شریف کے مُقابل کھڑا رہا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کی تشریح کی ہے‘ جس پر نااہل شریف کی لانگری بٹالین دانت اور پنجے آزما رہی ہے۔ شکر ہے یہ تو طے ہُوا کہ ان نو رتنوں میں نہ کوئی دانت اور نہ ہی کوئی پنجے والا ''لوہے کے چنے‘‘ سے بنا ہے‘ ماسوائے ھِٹ مَین بریگیڈ کے‘ جس نے لاہور میں سپریم کورٹ کے نابغہ جج محترم جناب اعجازالاحسن صاحب کے گھر پر دو دن فائرنگ کرکے ججوں کے بچوں کو پہلے سے اعلان شدہ پیغام پہنچایا۔
آئیے! لانگری بٹالین کے اعتراضات کی حقیقت جانتے ہیں۔
پہلا اعتراض یہ ہے: سپریم کورٹ نے آرٹیکل184(3) کے تحت تاحیات نااہلی کا سوال کیوں طے کیا؟ یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا یہ کہ پوری قوم نے تا حیات نا اہلی کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ اس کا جواب 60 صفحوں پر مشتمل حالیہ فیصلے کے پیراگراف نمبر 3 میں مل جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو پیراگراف نمبر 3:
Mr. Babar Awan, Sr. ASC appearing before this Court (in Civil Appeal No.233 of 2015) has supported the lifetime bar under Article 62(1)(f) of the Constitution on the eligibility of a candidate to contest election to Parliament. He argued that the Constitution and the law contemplate permanent and transient disqualifications. Thus, Article 62(1)(d), (e), (f) and (g) of the Constitution do not fix a time limit for the incapacity of a candidate to contest an election. Within this category of provisions Article 62(1)(f) ibid above requires that a declaration by a Court of law indicating delinquent conduct be in existence before incapacity upon a candidate for election can be imposed thereunder. The remaining three clauses do not provide for any such mechanism. These provisions were added to the Constitution pursuant to Islamic provisions and whenever attracted to a case they create a perpetual bar. He read from the verses of the Holy Qur'an to emphasise the meaning of the expression "Ameen" used in Article 62(1)(f) of the Constitution. These verses include Surah Nisah verse 58 and Surah Aal-e-Imran verse 75. As a threshold for the requirement of honesty, he referred to Surah Al- Ma'aidah verse 119; Surah At' Taubah verse 119; Surah Al Ahzab verse 23, 24 and 35. He pointed out further that the permanent bar created under Articles 62(1)(f) of the Constitution was endorsed by Parliament in the Constitution (Eighteenth Amendment) Act, 2010 ("18th Constitutional Amendment"). No omission is attributable to the Constitution nor reading into a provision thereof is permissible under the settled rules of Constitutional interpretation. If at all the period of embargo under Article 62(1)(f) of the Constitution is to be relaxed, then such an outcome can follow only from a constitutional amendment by the parliament.
ملک کی آخری عدالت کے متفقہ فیصلے پر دوسرا اعتراض ہے: نااہل شریف کو کسی نے نہیں سنا‘ لہٰذا فیصلہ عارضی ہے‘ نااہل شریف کی نااہلی وقتی ہے۔
دوسرا اعتراض بھی خلافِ واقعہ، سچ سے متصادم اور لغو بلکہ غُلو ہے۔ پشتو میں جھوٹ کو ''غَل‘‘ کہتے ہیں۔ غُلو کو جھوٹ کی ماں کہہ لیں۔ یہ اہم مقدمہ 30 جنوری سے شروع ہو کر 14 فروری 2018ء تک زیرِ سماعت رہا۔ حکومت کی طرف سے چیف لا آفیسر میرے دوست اشتر اوصاف بطور اٹارنی جنرل پیش ہوئے، عدالت کی معاونت کی۔ (دیکھئے فیصلے کا پیراگراف نمبر 10) ساتھ ساتھ معدوم نون لیگ یا نوزائیدہ شین لیگ کی پوری سرکاری و درباری مشینری نے کارروائی میں شرکت کی۔
تاحیات نا اہلی پر تیسرا اعتراض: عدالت نے آرٹیکل 62(1)f میں نا اہلی کا عرصہ طے کرنے کی حکومتی تجویز کیوں نہ مانی۔ وجہ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 ہیں‘ جن میں طے ہے کہ آئین کا نُون بھی دو تہائی اکثریت کے بغیر پارلیمنٹ تک ہٹا سکتی ہے‘ نہ نکال سکتی ہے۔ بات شروع ہوئی اپنے کھودے ہوئے گَڑھے میں خود ہی گِر جانے والے سلطان سے۔ موصوف کا تازہ فرمان یہ ہے: جہاں سے بھی جو بھی کہوں گا کرو گے۔ اس فرمان کے فوری بعد دو سنگین واقعات ہوئے۔ پہلا واہ کینٹ کے ایک صاحب کے ذریعے سپریم کورٹ لائی گئی 10خواتین اور 9مرد تھے‘ جنہوں نے عدلیہ کہہ کر ہائے ہائے کے نعرے لگائے۔ قوم اسے سپریم کورٹ پر شین لیگ کا پہلا یا نون لیگ کا دوسرا حملہ نہ کہے تو کیا کہے ؟ دوسرے ذرا سو چئے! لاہور جیسے محفوظ شہر میں جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر ایک رات فائرنگ کی گئی۔ دوسرے دن علی الصبح پھر فائرنگ دُہرائی گئی۔ کون نہیں جانتا‘ پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ اور وزیر قانون دہشتگردی اور قتل میں نامزد ملزم ہیں۔ یہی دونوں عدلیہ کو سکیورٹی دینے کے ذمہ دار بھی۔ کون بتائے گا‘ شہباز شریف کی گلی میں دونوں دن فائرنگ کے وقت شہر کو محفوظ بنانے کے ذمہ دار کیا کر رہے تھے۔ پہلی فائرنگ کی تفتیش یا دوسری کی منصوبہ بندی؟
گڑھا، گڑھا ہوتا ہے‘ چھوٹا ہو یا بڑا۔ گرتے وقت گڑھا نہیں پوچھتا گرنے والا چھوٹا ہے یا بڑا۔