"SBA" (space) message & send to 7575

سائوتھ افریقہ سے کربلا تک

یہ ویڈیو کلپ رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ 
سائوتھ افریقہ کی بے کنار جھیلوں میں چند سال پہلے مگر مچھ، ہاتھی، گینڈے اور زرافے ڈبکیاں لگاتے نظر آتے تھے۔ صرف اڑھائی سال کے عرصے میں یہ ساری جھیلیں اور ندیاں 'پوٹھوہار‘ بن گئیں۔ کٹی پھٹی زمین، خشک لب‘ العطش کی صدائیں اور فوج کے ذریعے راشننگ کے تحت پانی کی تقسیم۔ یہ سب فلمی سین لگتا ہے۔ فکشن، حقیقت نہیں کہانی۔ عرصۂ دراز تک سائوتھ افریقہ کی زمامِ اختیار گوروں کے ہاتھوں میں رہی‘ جن کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا کالی اکثریت کو دبائے رکھنا تھا ۔ جب نیگرو اقتدار میں آئے تو جمہوریت کی میوزیکل چیئر شروع ہو گئی۔ اس کا ڈرائونا نتیجہ نکلا بد حالی بذریعہ خشک سالی۔ خدا نہ کرے وہاں خانہ جنگی شروع ہو‘ کیونکہ سب نے زندہ رہنا ہے، زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔
ایک امریکی جوڑے نے (AETIKIN,S DIET)کے عنوان سے کتاب لکھی‘ جس میں زمین، پانی اور انسانی زندگی کی ٹرائیکا کا بنیادی رشتہ دریافت کیا گیا۔ مصنفین کی قابلِ قدر تحقیق کے مطابق سارے کرۂ ارض کا 65 فی صد حصہ پانی ہے۔ انسانی باڈی کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں بھی 65 فی صد پانی پایا جاتا ہے۔ وہ پھل، سبزیاں اور اجناس جو زمین کے نیچے یا زمین کے اوپر پائی جاتی ہیں‘ ان میں بھی پانی کا حصہ 65 فی صد ہے۔ ہم خشکی کے رہنے والوں کو شاید ہی معلوم ہو کہ سمندر کے اندر درجنوں نہیں سینکڑوں قسم کی سبزیاں اگتی ہیں۔ ان میں بھی پانی کی مقدار 65 فی صد بتائی گئی ہے؛ چنانچہ لمبی عمر، صحت مند زندگی، ہلکا بدن اور بڑھاپے کے مسائل سے نجات کا نادر نسخہ پانی ملی خوراک اور پانی کا مناسب استعمال ہے‘ موٹاپا اور بڑھاپا کنٹرول کرنے والے کیپسول نہیں۔ زندگی ویسے بھی ایسی نایاب نعمت ہے‘ جس پہ شاعر نے کھرا سچ بولا:
زندگی ایک بار ملتی ہے/اس لیے زندگی پہ مرتا ہوں
جو تاریخ دان، سکالرز اور علمِ جغرافیہ کے شناور کہتے ہیں کہ بہت جلد جنگیں پانی پر قبضے کے لیے ہوں گی۔ آئیے ان کی بات غور سے سنیں۔اسلام آباد کا شہر اور میں اکٹھے جوان ہوئے‘ لیکن تیسری بار منتخب ہونے والے نا اہل شریف کے اقتدار کے چوتھے سال نے ہم دونوں کو ہلکان کر دیا۔ یہ شہرِ پُر جمال بسانے والوں نے اپنی طرف سے کمال کر دکھایا ۔ سِملی ڈیم ، خان پور ڈیم اور راول ڈیم بنا کر سوچ لیا کہ شہر کے باسیوںکے لیے پانی کے یہ تینوں ذخیرے کافی ہیں ۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ تینوں ڈیم 1960ء تا1970 ء کے عشرے میں سوچے گئے اور ان پر کام شروع کیا گیا ۔ ملک کے باقی سارے ڈیم بھی طلوعِ جمہوریت سے پہلے والے زمانے کے ہیں ۔ پھر جمہوریت کی میوزیکل چیئر نے سٹارٹ لیا۔ شمال مغربی سرحدی گاندھیوں اور سندھو دیش کے حامیوں نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی یاترا شروع کر دی ۔ بھارت نے ان میں سے اپنے کچھ دوستوں کو گٹھڑیاں باندھ کر نوٹ پکڑائے ۔ ساتھ ہی سرکاری اہتمام سے گٹھڑیوں کی تصویریں اور خبریں چلوائیں ۔ کچھ دوسرے بھی ہیں‘ جن کے بارے میں بہت پہلے پیش گوئی ہوئی تھی۔
مُلاّ کو ہے ہند میں سجدے کی اجازت /ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
بھارت کو اپنے اجداد کی سرزمیں کہنے والوں کے لیے افغانستان 1948ء سے عملی طور پر بھارت کی کالونی بنا ہوا ہے۔ بائیں بازو کے افغان سوشلسٹ حکمرانوں کا تھوڑا سا عرصۂ اقتدار چھوڑ کر۔ ان دونوں دیشوں نے پاکستانی پانی پر قبضہ کرنے کے لیے اربوں، کھربوں کی انویسٹمنٹ کی۔ میری رائے/ تجزیے اور معلومات کے مطابق صرف یہی ایک ایسا قومی مسئلہ ہے جس پر کمیشن بنا کر ہمارا پانی فروخت کرنے والے ملزم پکڑنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایسے غدارانِ وطن کو اسی علاقے کی جیل میں پھانسی دینی چاہیے‘ جس کا پانی بھارت کے ہاتھوں بیچا گیا۔ آئیے یہ دیکھ لیں کہ آج ہم پانی کے فرات کے کس کنارے پر اور کہاں کھڑے ہیں۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر سیاسی خیال آرائی کی جائے۔ یہ ایک خوف ناک ٹائم بم ہے جو اپنے وقت پر ضرور پھٹ کر رہے گا۔ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے ابھی 6 جون 2018ء کو ہی ملک میں پانی کے قحط کی نشاندہی DROUGHT ALERT جاری کرکے کی ہے۔ اس الرٹ میں اسی سرکاری ادارے نے زرعی آفت زدگی کا اعلان بھی کیا۔ ڈرا دینے والا یہ الرٹ بتاتا ہے کہ جنوری تا مئی 2018ء کے لیے ان کے اندازے درست ثابت ہو چکے ہیں‘ جس کے مطابق سالانہ عمومی بارشوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ موسم سرما (جنوری تا مارچ 2018ئ) میں یہ کمی منفی 62 فی صد ریکارڈ کی گئی‘ جبکہ اپریل تا مئی 2018ء یہ کمی منفی 99 فی صد رہی۔
مصنوعی ترقی کے شرمناک دعوے کرنے والے عادی چور صرف بارشوں کے حوالے سے جو کچھ قوم سے چھپاتے رہے‘ اس کی تفصیل یہ ہے۔ صوبہ بلوچستان: جنوری 2018ء کے مہینے میں منفی 100 فی صد بارشیں اور مئی میں منفی 53.3 فی صد بارشیں۔ اس الرٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر بلوچستان میں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صوبہ بلوچستان میں گرمی، سردی دونوں موسموں میں سیلاب آنا معمول کی بات ہے۔ اس لیے بلوچستان میںکروڑوں، اربوں لیٹر پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے‘ لیکن پانی ذخیرہ کرنے پر نہ کِک بیک ملتا ہے نہ کمیشن۔ اس لیے حکمران توجہ کیوں دیں؟ سندھ کی صورت حال بھی خطرناک ہے‘ جہاں جنوری 2018ء میں منفی 100 فی صد اور مئی میں منفی 20.9 فی صد بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔ پنجاب میں جنوری 2018ء کے مہینے کے دوران منفی 98.3 فی صد اور مئی میں منفی 42.7 فی صد بارشیں یکارڈ ہوئیں۔ صوبہ کے پی کے: جنوری 2018 ء کے مہینے کے دوران منفی 98.3 فی صد اور ماہ مئی میں منفی 58.7 فی صد بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں جنوری 2018ء کے مہینے میں منفی 98.3 فی صد اور مئی کے مہینے میں منفی 58.7 فی صد بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔ مجموعی طور پر پورے ملک میں جنوری 2018ء میں منفی96.8 فی صد بارشیں ریکارڈ ہوئیں جبکہ ماہ مئی میں منفی 44.9 فی صد۔
میں دنیا نیوز اور وکالت نامہ کے محترم قارئین سے درد مندانہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر ضرور جائیں تاکہ ہم سب مل کر قحط کے دروازے پر کھڑی قوم کو سچ بتانے میں مدد گار ثابت ہوں۔ اس الرٹ میں پاکستان میں موجودہ خشک سالی کے لیے MODERATE TO SEVERE DROUGHT کی اصطلاحیں استعمال ہوئیں‘ جس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس آبی وسائل ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ کیماڑی سے کہوٹہ تک پیاسوں کی قطاریں بھی ہیں۔ انسان، پرندے، چوپائے، درخت اور فصلیں۔ لیکن پانی کے اس فرات کے کنارے کربلا کے کچھ فوجدار بھی کھڑے ہیں۔ دوسری ویڈیو دیکھ لیں۔ لوٹ کر کھانے والا کس طرح مودی کا ہمنوا اور ہم نوالہ ہے۔ بھارت ماتا کو سُنا کر سپریم کورٹ آف پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے‘ ڈیمز نہیں بننے دوں گا۔ آفرین ہے عدالتِ عظمیٰ پر جس نے ڈیمز بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔ اگر سپریم کورٹ مجھ سے پوچھے تو کہوں گا کہ سارے کام بعد میں‘ سب سے پہلے ڈیمز۔ تصور کی آنکھ سے نہیں چشمِ بینا سے دیکھئے‘ سائوتھ افریقہ سے کربلا کی پیاس کا فاصلہ کتنا بچا ہے۔ 2025ء آنے میں صرف ساڑھے چھ سال ہیں۔
ہم لوگ بڑے آزُردہ ہیں
یہ بات یہاں سے کون کہے
کہنے کو بہت سی باتیں ہیں
اس آفتِ جاں سے کون کہے
دو چار ہی دن کی بات ہے یہ
خود چاک گریباں بولیں گے
اس دل کی حکایت کون لکھے؟
زخموں کی زباں سے کون کہے
جو کچھ بھی ہوا ہے ٹھیک ہوا ہے
حالات کے اس دوراہے پر
ان شاخوں کو تا راج نہ کر 
یہ برقِ تِپاں سے کون کہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں