اسے شدید نمونیہ ہو گیا۔ بخار ، کمزوری مگر اس کے امی ابو کویت میں تھے۔ اور وہ ہاسٹل میں اکیلا۔
ان دنوں اسلام آباد کے F-7 اور F-8 سیکٹرز میں خال خال گھر تعمیر ہو رہے تھے۔ اسلام آباد کالج فار بوائز کا کیمپس تب F-7/4 کی اس بلڈنگ میں ہوتا تھا، جہاں آج کل مارگلہ گرلز ڈگری کالج ہے۔ گول مارکیٹ کی شرقی جانب صرف ہمارا ہاسٹل تھا اور 2/3 گھر۔ امی ابو اسے بڑے چائو سے ہاسٹل میں ڈال کر واپس کویت چلے گئے تھے۔ مگر ان کا لاڈلا بچہ بُلی ازم کا شکار ہو گیا۔ آج کل اسے ریگنگ کہتے ہیں۔ مارگلہ کے دامن میں شدید سردی کے موسم کے عروج پر اسے سینئرز نے کمرے اور بستر سمیت ٹھنڈے پانی سے نہلا دیا تھا۔ تعلیمی ، تدریسی اور تربیتی اداروں کا ہر سینئر جونیئرز اور نئے آنے والوں کے خلاف اس خوف ناک بُلی ازم کو اپنا استحقاق گردانتا۔ میں نے اور سردار اسلم رئیسانی نے باری باری اسے سنبھالا۔ مگر ٹین ایجرز ، ٹین ایجر کو شدید بیماری میںکس قدرسنبھالتے ۔ پھر اس کے امی ابو اسے ہاسٹل سے واپس لے گئے ۔ اور ہمارے درمیان رابطے کی لائن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کٹ گئی۔
اب دور بدلا ہے۔ بُلی ازم کی نئی شکلیں اور ویڈیو کلپس سامنے آ گئی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ بُلی ازم کے بہت سے نئے مراکز بھی قائم ہو گئے۔ مثال کے طور پر اپنی پارلیمنٹ کو ہی دیکھ لیں‘ جس کا ایک مسلمہ اصول، ضابطہ اور روایت بُلی ازم کی نذر ہو گیا۔ جس پارلیمانی روایت کا ذکر یہاں ہو رہا ہے‘ اس کے مطابق کسی فلور آف دی ہائوس پر ایسے شخص کے خلاف تقریر کی اجازت نہیں ہوتی، جو ایوان میں آ کر اپنا دفاع نہ کر سکے ۔ اکثر پارلیمنٹیرین اشاروں کنایوں میں بات کرنے تک محدود رہتے تھے۔ اس طرح بات بھی ہو جاتی اور کسی کو بُلی کر کے دفاع کے پیدائشی حق سے محروم نہ کیا جاتا ۔ پارلیمنٹ کا سپیکر چونکہ ایوان کا کسٹوڈین کہلاتا ہے‘ اس لیے وہ اس پارلیمانی روایت کی پاسبانی بھی کرتا ۔ آج کل پارلیمانی تقریریں سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ مقرر گھٹنوں سے بھی نیچے گری ہوئی زبان میں جو مرضی کہہ ڈالے‘ سپیکر کے منہ میں چیونگم پڑا رہتا ہے۔ آپ درست سمجھے‘ نظریہ ضرورت کا چیونگم۔ اس لیے پارلیمانی روایات کے قبرستان کی مجاوری سکہ رائج الوقت کی طرح چل نکلی ہے۔
آئیے ذرا سڑک تک ہو لیں۔ سواریاں بٹھانے والی سوزوکی ویگن، ٹیکسی، رکشہ، چنگ چی، ٹرالی ٹریکٹر تو کجا اچھی اچھی کاروں اور لمبی لمبی جیپوں والے روڈ یُوزر انہیں سڑک کے مالکان بن چُکے ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل فون دوسرے میں سٹیرنگ اور ساتھ آلو کی چپس اور ڈرائیونگ ہوتی ہے فاسٹ لین پر۔ ساتھ والی لین کراس کرنے کے لیے اور لیفٹ کی آخری سڑک آہستہ رفتار سے چلنے والوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ساری دنیا میں اگلی گاڑی سے راستہ مانگنے یا اوور ٹیک کرنے کے لیے ہارن بجانا گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ گاڑی کے ماتھے کا جھومر اور ڈرائیونگ کا ستارۂ امتیاز ہے‘ جسے اعزاز سمجھ کر یوں لکھا جاتا ہے ''ہارن دو... راستہ لو‘‘۔ فِلکر لائٹ سے اشارہ دے کر کوئی 20 کلومیٹر تک پیچھے چلے اسے اوورٹیکنگ کا حق نہیں مل سکتا۔ اس لیے جو گاڑی چلانے میں آگے ہو گیا وہ دوسروں کو بُلی کرنے کا حق دار بن جاتا ہے۔
ذرا اپنے ٹریفک کنٹرول کرنے والوں پر نظر دوڑائیں۔ وہ کبھی ٹریفک سگنل کے پاس کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے ۔ اس لیے کہ ٹریفک سگنل پہ کسی سٹوڈنٹ، مستری، مزدور کی موٹر بائیک کھڑا کر کے اسے آئی ایم ایف نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے آج ہر شہر کے ہر چوک میں ٹریفک بلاک نظر آتی ہے‘ اور ہر چوک سے ہٹ کر ٹریفک پولیس چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکل والوں کی ریگنگ کرتے نظر آتی ہے۔ پچھلے ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان سے باہر نکلا تو آگے شاہراہِ دستور بند ملی ۔ سکیورٹی والوں نے کہا: رانگ سائیڈ سے نکل جائیں ۔ گنتی کی 4/5 خواتین اور تین مرد ہاتھوں میں گتے کے پلے کارڈ پکڑے احتجاج کر رہے تھے ۔ صبح سے شام ڈھلے تک درجن بھر یہ مظلوم سینکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں شہریوں کا راستہ روک کر ریگنگ کرتے رہے‘ مگر پولیس نے انہیں سڑک کے درمیان سے اٹھ کر سپریم کورٹ بلڈنگ کے سامنے ترتیب سے کھڑا ہو جانے کی التجا تک نہ کی۔ دکھی انسانیت المعروف مریض کے اکثر حامی سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کے لیے لشکر کی صورت میں داخل ہوتے ہیں۔ نرس، ڈاکٹر، کمپائونڈر، وارڈ بوائے کو فلمی انداز میں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بے ہوش مریض کو فوری طور پر دوڑنے کے قابل بنائے۔ ایمرجنسی کا عملہ پہلے سے کسی اور مریض کی جان بچانے کے لیے پیچیدہ میڈیکل پروٹوکول میں مصروف ہو تو اس پر حملہ ہو جاتا ہے۔ شیشے توڑنا ، گلے سے پکڑنا ، مار کٹائی‘ سب کچھ دکھی انسانیت کے حامیوں کی تسلی کے مطابق ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے ایسے ہی لشکر سے بچنے کے لیے گالیوں کے طوفان میں دست درازی سے ذرا پہلے نکلنے کا یہ طریقہ ڈھونڈا کہ میں بڑے ڈاکٹر صاحب کو بلا کر لاتی ہوں۔
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں دیکھ لیں ڈاکٹر کو بھاری تنخواہ اور بھر پور عزت ملتی ہے۔ ہمارے ہاں Y.D.A والے نوجوان ڈاکٹرز کو 25/30 ہزار کی تنخواہ کے عوض 48 سے 76 گھنٹے تک کی ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے۔ سپیشلسٹ ، رجسٹرار اور سینئر کی ڈیوٹی کے ٹائم میں ہسپتال ان کے لیے خرکار کیمپ بن جاتا ہے۔ جبری مشقت اور مسلسل جبری مشقت کا اڈا ۔
جس طرح آزاد عدلیہ کے لیڈروں کی شاندار تربیت کے نتیجے میں ایوانِ انصاف کے دروازوں پر پُر جوش وکیلوں کے ہاتھوں پولیس والوں سے عین انصاف ہوتا ہے، عین اسی طرح تھانوں کے اندر فریادی بھرپور عزت اور پذیرائی پاتے ہیں۔ جہاں کسی کے پاس تھوڑا سا اختیار آیا وہیں ایک مقامی گاڈ فادر وجود میں آ گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص قانون کی بالا دستی کا حامی ہے‘ لیکن ہر شخص اس بات کا خواہش مند بھی کہ قانون کا نفاذ کسی اور پر ہو، اس پر نہیں ۔ سستے زمانے والے کوہ مری میں انگریزی دور کی ایک مثال بہت مشہور تھی۔ مقامی راجہ ہاتھ میں کھونڈی پکڑے مال روڈ کے چوک میں اسے گھما رہا تھا۔ کھونڈی کسی گورے کے ناک پر جا لگی ۔ گورے نے کہا کہ تم نے کھونڈی میرے ناک پر کیوں ماری ۔ راجہ بولا: میں آزاد ہوں جیسے چاہوں اپنی لاٹھی گھمائوں ۔ جواب آیا تمہاری کھونڈی کی آزادی وہاں پہ ختم ہو گئی جہاں سے میری ناک شروع ہوئی ۔
اب تو بُلی کرنے والوں کی ناکیں کلو میٹروں تک لمبی ہیں۔ کک بیک اور کمیشن کھانے والوں کے پیٹ کی طرح۔ تقدیس کے پردے میں دوسروں کی بہو بیٹیوں اور عفت مآب بچیوں کو گاڑیوں سے کھینچ کر نکالنا‘ راستے روکنا ریگنگ ہے یا اجتماعی ہائی جیکنگ۔ خود فیصلہ کیجئے۔ کل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید صاحب کی عدالت میں بحث کر کے باہر نکلا تو نوجوان وکیلوں اور لاہور کے ینگ رپورٹرز کے ایک گروپ نے یہی سوال پوچھا ۔ ذرا گیس کریں یا فرض کر لیں میری جگہ آپ ہوتے تو اس کا کیا جواب دیتے...؟؟؟ بُلی ازم کا شکار لوگ تماشائی ہیں یا تماشہ؟
سواریاں بٹھانے والی سوزوکی ویگن، ٹیکسی، رکشہ، چنگ چی، ٹرالی ٹریکٹر تو کجا اچھی اچھی کاروں اور لمبی لمبی جیپوں والے روڈ یُوزر انہیں سڑک کے مالکان بن چُکے ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل فون دوسرے میں سٹیرنگ اور ساتھ آلو کی چپس اور ڈرائیونگ ہوتی ہے فاسٹ لین پر۔ ساری دنیا میں اوورٹیک کرنے کے لیے ہارن بجانا گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اعزاز سمجھا جاتا ہے۔