پھل، پھول اور پودے بچوں کی طرح سے پلتے ہیں۔ بچوں اور پودوں دونوں کو فیڈ اینڈ کیئر چاہیے۔ کم از کم جوان ہونے تک۔
کیا کبھی ہم نے ایسے کرۂ زمین کے بارے میں سوچا جو بالکل گنج اور ننگ دھڑنگ ہو جائے۔ جس کے سر سے درختوں، فلورا اور فانا کا سبز تاج اُتارکر اُسے تاراج کر دیا جائے۔ یا کبھی یہ بھی سوچا کہ ہمارا کرۂ ارضی اپنا تاج چھن جانے کے بعد موسموں، فصلوں، بارشوں، پھلوں کے حوالے سے کوئی ری ایکشن ظاہر نہ کرے گا۔ کیا بے گناہ اور بے زبان‘ مگر قرآن کی زبان میں سجدہ کرنے والے درختوں کا قتلِ عام ہو جانے کے بعد‘ بندے زندہ رہ سکیں گے۔ درخت جاندار ہیں یا بے کار۔ سڑک، راستہ، کھیت، میٹرو بس، گلی یا میگا پروجیکٹ کے راستے میں آنے والے درخت کو قتل کر دینا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے بے شمار دوسرے سوال بچپن سے ہی میرے ذہن میں آتے رہے ہیں۔ اور میں بیج، سیپلنگ، کونپل، پودا، بے بی ٹری، ینگ ٹری اور پورے درختوں کی محبت میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ وہ جو کہتے ہیں‘ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘ اسی نسبت سے کئی عشرے لگا کر میں نے بھی درختوں سے محبت کرنے کے قرینے سیکھ لیے۔ برادرم رئوف کلاسرا، ملک خورشید ندیم اور جناب سہیل وڑائچ سمیت اس صفحے پر چھپنے والے کئی دوستوں نے میرے اس عشقِ مسلسل کے 20/25 بلکہ 30/35 فٹ اونچے ثبوت دیکھ رکھے ہیں۔ کوئی میٹھے، کچھ کھٹے۔ کئی موسمی اور بعض آملے‘ جن کا مزہ ہی انہیں کھا جانے کے بعد میں آتا ہے۔ کچھ لسوڑے کی طرح چپک جانے والے بھی‘ بلکہ برگد کی گھنی چھائوں سمیت ہر رنگ اور سائز کے عشقیہ ثبوت۔ مَدر اَرتھ کی چھاتی پر سینہ تان کر کھڑے ان با فیض سپوتوں کے فیض کا عالم وہی ہے‘ جو کسی شاعر نے یوں رقم کر رکھا ہے۔
اپنی تو وہ مثال کہ جیسے کوئی درخت
دنیا کو چھائوں بخش کے خود دھوپ میں جلے
درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ درخت لگانے والا تو اپنے وقتِ مقرر پر اس دنیا سے چلا جاتا ہے‘ لیکن رب کی دھرتی پر خدا کی بستی میں درخت اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ انسانوں کے اعمال اور افعال یعنی (DEEDS AND ACTIONS) صرف سانس کی ڈوری اور دل کی دھڑکن کے ساتھ ہی چل پاتے ہیں۔ ادھر سانس اکھڑی اور حرکتِ قلب بند ہوئی‘ اُدھر اعمال کے دروازے پر تالا لگ گیا۔ ماسوائے صدقۂ جاریہ کے۔ درخت کئی اعتبار سے بڑے مزے کی چیز ہیں۔ پودے اور بُوٹے ہمیں مفت میں آکسیجن سلنڈر فراہم کرتے ہیں۔ کلوگرام کے حساب سے نہیں بلکہ آکسیجن کے چشمے، نہریں، دریا اور سمندر۔ جس سیارے پر آکسیجن نہیں پائی جاتی‘ وہاں صرف انسانی زندگی نہیں بلکہ زندگی (Life itself) ناپید اور غیر موجود ہے۔ درختوں اور بارشوں کا آپس میں پکا رشتہ ہے۔ درخت اور اچھا موسم، اچھی فضا اور صاف ہوا، لازم و ملزوم ہیں۔ درخت کی ملکیت ہو یا قبضہ دونوں صرف حضرتِ انسان کیلئے مخصوص نہیں۔ چیونٹیاں، کیڑے مکوڑے، بَگ، تتلی، گلہریاں، رینگتے جاندار، فاختائیں اور شِکرے۔ ہرنیاں اور شیر، شہد کی مکھی اور بھنورا۔ ان سب کی مشترکہ، ملکیت، مشترکہ کھاتہ بھی اور مشترکہ قبضے میں بھی۔ زمیندارہ سماج کی دیہہ شاملات کی طرح۔ ایک درخت جو سورج کی ساری تمازت، جلن، حدّت اور تپش کا قہر خود اپنے سر پر سہہ لیتا ہے۔ لیکن عام سا درخت بھی‘ جس کے نیچے کوئی جاندار، کوئی ذی روح، کوئی اُڑنے والا‘ کوئی سا چوپایہ یا کوئی رینگنے یا پھر چلنے والا بھی پہنچ جائے تو اسے تین ٹن ٹھنڈک اور یخ ہوا بِل ادا کیے بغیر تازہ اینڈ فری فراہم کر دیتا ہے۔ صدقے کے بارے میں فرمایا گیا کہ صدقہ خاموشی سے چھپا کر دیا جائے تو بہت اچھا عمل ہے۔ لیکن کسی دوسرے کو اس نیک کام کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہو تو صدقہ کھل کر (یعنی اعلانیہ طور پر) دینے کی بھی اجازت ہے۔ درختوں سے میری عشقیہ داستان کو آج کے وکالت نامے کے ذریعے برسر عام لانے کے پیچھے یہی جذبہ کارفرما تھا۔ ویسے بھی کسی نے سچ کہہ رکھا ہے۔
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
ان دنوں میر ے گھر اور لاء آفس کے صحن گرین ہاؤس کی نرسری بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے 3 مہینے پودوں اور ینگ ٹری کی خریداری کا بہترین موسم تھا‘ کیونکہ ہاؤسنگ پراجیکٹس والے اور سرکاری محکمے اس سیزن میں نہ جانے کیوں درخت لگانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور عام دِنوں میں 500 روپے میں بکنے والا پودا گاہکوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے 100/150 تک گر جاتا ہے۔ میرے دوست اور گھر والے کہتے ہیں کہ تم سال بھر میں اتنے جوتے اور کپڑے نہیں خرید پاتے جتنے پودے خرید لیتے ہو۔ میرا شجر کاری سیزن سال بھر جاری رہتا ہے‘ لیکن اس کا پرائم ٹائم سال میں صرف 2 بار آتا ہے۔ میں نہ ماہرِ ارضیات ہوں نہ بوٹانیکل ایکسپرٹ‘ بس اپنے تجربات اپنے لوگوں سے شیئر کر کے خوش ہو جاتا ہوں۔
آئیے، مارگلہ کی چوٹی پر چلتے ہیں‘ جہاں کینتھلا گائوں واقع ہے۔ کینتھل بظاہر اسلام آباد کا حصہ نظر آتا ہے لیکن مارگلہ کی چوٹی پر واقع یہ گائوں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کی تحصیل خانپور میں شامل ہے۔ یہ پہاڑیاں قراقرم کے سلسلۂ کوہ کی FOOT HILLS کہلاتی ہیں۔ جو خواتین و حضرات جنگل نوردی کے شوقین ہیں وہ مارگلہ کو بِیس کیمپ آف ہائکنگ کا نام دیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے اسی پہاڑ کے اپنے حصے میں ہم لوگ درخت لگا رہے تھے۔ سکیورٹی کے ایک پشتون لڑکے نے تھوڑا پرے جا کر کسی کی کال اٹینڈ کی۔ واپس آ کر اشارے سے کہنے لگا: پہاڑی سے نیچے وہ جو 2 آدمی موٹر بائیک پرکھڑے ہیں‘ ان میں سے ایک پولیس انسپکٹر ہے اور دوسرا شعبہ ایگری کلچر میں پی ایچ ڈی سکالر۔ آپ اجازت دیں تو ان دونوں کو اوپر بلا لیں۔
میں نے کہا: ضرور، کیوں نہیں۔ جب دونوں اوپر پہنچے تو پسینے میں شرابور تھے اور بلا شبہ ان کا، کارڈیو ای ٹی ٹی ٹیسٹ مکمل ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر میں سانس سنبھلی تو دونوں بولنے لگ پڑے۔ ایگری کلچر کے ماہر نے اس کھڈے کی لمبائی چوڑائی پر اعتراض کر دیا جو میں کھود رہا تھا۔ حسِ لطیف جاگی۔میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا لوہے کا 6 فُٹ لمبا اور ساڑھے 8 کلو وزنی ''سَبل‘‘ (پہاڑوں پر پتھروں کے درمیان درختوں کے پتوں کی کھاد اور بچی کھچی مٹی میں کھڈا بنانے کے لیے یہی اوزار استعمال ہوتا ہے۔ کسّی یا بیلچہ نہیں) اسے تھما دیا۔ ساتھ پوچھا: آپ نے زندگی میں کون کون سے پودے لگائے ہیں۔ کہنے لگا: کوئی نہیں۔ میری ٹیم نے یہ سن کر نعرہ لگا دیا: مبارکاں، مبارکاں۔ آج شام 5 بجے تک سارے پودے آپ نے لگانے ہیں۔ موصوف نے ایک کھڈا ایسے کھودا جیسے کوئی اپنی حسرتیں دفنانے کے لیے قبر کھود رہا ہو۔ اسے دیکھ کر پولیس انسپکٹر نے کہا: میں دل کا مریض ہوں اور اپنے حصے کا پودا لگانے پر میڈیکل اعتراض اٹھا دیا۔
بات ہو رہی تھی پودوں کے موسم کی۔ جب سے کمرشل پلانٹ، نرسریاں وغیرہ وجود میں آئی ہیں۔ پودے سارا سال لگائے جا سکتے ہیں۔ جو پودا گملے یا پلاسٹک کے لفافے میں‘ جسے نرسری کی دنیا میں ٹیوب کہتے ہیں‘ میں گزارہ کر سکتا ہے‘ جس میں ذرا سی کھاد تھوڑی ریت اور بیلچہ آدھ بیلچہ مٹی ڈالی جاتی ہے' خود سوچئے ایسے پودے کو زمین میں گاڑ دیا جائے تو وہ کتنا خوش اور مست ہو گا۔
مجھے کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ 20/22 کروڑ لوگ فی کس سالانہ کتنے پودے کاٹتے ہیں۔ کتنے درخت چوری چھپانے کے لیے محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے زندہ نذرِ آتش کر دیے جاتے ہیں۔ کتنے ہزار ٹن چیڑ، دیار، بہیڑ، کیکر، ٹاہلی، اخروٹ، چلغوزہ، چنار ٹمبر مافیا کی کلہاڑیوں اور توندوں کی بھوک مٹانے کے کام آ جاتے ہیں۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ اگر 20/22 کروڑ لوگ سال میں صرف بہار اور برسات کے دو موسموں میں دو عدد پودے فی کس سالانہ لگانا شروع کر دیں۔ پودے کو صرف پلانٹ نہ کریں۔ اس سے محبت کریں۔ اسے کھا جانے والے جانوروں سے بچائیں۔ ہر دن یا ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک بار اسے پانی ڈالیں۔ جب اپنی حجامت بنوا کر آئیں تو اپنے درخت کی گوڈی کر دیں۔ اس کے ساتھ تھوڑی سی تازہ مٹی لگا دیں تو ڈی فارسٹریشن بڑھے گی یا کم ہو گی۔
ہر گھر، جھونپڑے اور لان میں کسّی، بیلچہ، کھرپا، درانتی رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ جو موسم ان دنوں ہے وہ سال بعد واپس آئے گا۔
(باقی صفحہ 11 پر)
اُٹھیے 2019ء کا پہلا پودا لگانے کے لیے۔ مٹی میں ہاتھ ماریں اس کی خوشبو سونگھیں۔ انسان پیدا ہونے سے پہلے یہی مٹی تھا۔ اسی میں لوٹ کر جانا ہے میرے احباب مجھے Tree Man کہہ کر بلاتے ہیں۔ میری ہر گاڑی میں پودے سواری کرتے ہیں۔ نئے سال میں 352 پودے لگا چکا ہوں۔ کہتے ہیں: صدقہ بلا کو ٹالتا ہے۔ درخت لگانے کا صدقہ کلائمٹ چینج، موسمی بیماریوں، شدید حبس کو بھی ٹال سکتا ہے۔ بسم اللہ کیجئے۔