کئی سال پہلے ایک امریکی جوڑے کی لکھی ہوئی کتاب نظر سے گزری تھی‘ جس میں طویل اور صحت مند زندگی گزارنے کے راز افشا کیے گئے تھے۔ کتاب کا نام تھا: Atican's Diet۔ گلگت بلتستان کی وادیوں میں سارے کھانے ہی حیات آفرین ہیں، اور صحت بخش بھی۔
خوشبو اور ذائقہ ایسا جسے صرف پرستان میں ہی چکھا جا سکتا ہے۔ یہاں ان وادیوں کے ایک جری محافظ سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے سات سال سے زیادہ آن ڈیوٹی پہاڑ نوردی کر رکھی ہے۔ وہ میرے بیٹے عبدالرحمان کو اِن پہاڑوں کی پیچیدہ وادیوں کے بارے میں بتا رہے تھے۔ عبدالرحمان نے گلگت بلتستان پہلی بار دیکھا‘ میرا یہ تیسرا ٹور تھا۔ عبدالرحمان نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آپ اتنے پیچیدہ پہاڑی سلسلوں کا دفاع کیسے کرتے ہیں؟ وہ ہنسے، اور بتایا کہ یہاں بابا جی ہماری مدد کرتے ہیں‘ جن کو ہم ہر وقت سنبھال کر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ پھر دوسرا قہقہہ لگایا، اور بولے‘ آپ جاننا چاہتے ہیں، بابا کون ہیں؟ پھر خود ہی بتا دیا، یہ ہمارا کمپاس ہے... اور ساتھ ہی تربیت یافتہ لوگ بھی ہمراہ ہوتے ہیں‘ ورنہ کوئی اکیلا شخص پوری زندگی لگا کر بھی آسمان کو چھوتی ہوئی ان پہاڑیوں اور وادیوں سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اس دلچسپ گفتگو کے دوران ہی ہم باہر نکل گئے۔ نگر اور ہنزہ کے لیے جسے اب کریم آباد کہا جاتا ہے۔ اسماعیلی سلسلے کے امام پرنس کریم آغا خان کی لا زوال خدمات کے اعتراف میں کریم آباد کا نام چُنا گیا۔ کریم آباد کے لفظی معنی مہربان لوگوں کی بستی بنتا ہے۔
1947ء سے پہلے نگر اور ہنزہ دو Princely States ہوا کرتی تھیں۔ ان دونوں ریاستوں میں دو سگے بھائی حکمرانی کرتے تھے۔ لیکن نگر کے حکمران اور ہنزہ کے بادشاہ کا تعلق آپس میں برادرانِ یوسف جیسا تھا۔ لوگوں سے خوش خلقی اور آپس میں جنگ و جدال جاری رہتا۔ پریوں کا محل المعروف راکا پوشی جاتے ہوئے پہلے نگر ڈسٹرکٹ کا ہیڈ کوارٹر آتا ہے‘ جس کے بعد نگر بازار شروع ہوتا ہے۔ اس بازار کے آخر میں جا کر ایک سڑک ڈھلوان کی طر ف لڑھکتی نظر آئی۔ لیکن حیران کُن بات یہ تھی کہ کریم آباد جانے والی اس سڑک کی حالت لاہور، کراچی اور دیہاتی اسلام آباد کی سڑکوں سے بہت اچھی تھی۔ راکا پوشی کی طرف جانے والی سڑک ایسٹریج پر واقع ہے۔ جو باغوں اور ہلکی پھلکی آبادیوں کے درمیان میلوں تک چلی جاتی ہے‘ جبکہ نگر سے ہنزہ جانے والی سڑک کو دریائے ہنزہ کا پُل کراس کرنا ہوتا ہے۔ دریائے ہنزہ کی ویسٹریج، کریم آباد کا زیرو پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ یہاں کا پرائم ٹائم سیزن مئی سے شروع ہو کر اگست میں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ ستمبر سے سِتم گر سردی پھر لوٹ کر آ جاتی ہے۔ اپریل کے مہینے تک شدید ترین سردی کا راج جاری رہتا ہے۔ ان اُونچے ترین پہاڑوں کے باسیوں کی رہتل کا ایک ''ماڈل روم‘‘ گورنر ہائوس گلگت بلتستان میں بھی موجود ہے۔ یہ گورنر انیکسی کہلاتی ہے۔ جبکہ ان دنوں اسلام آباد کے ولاز جیسی گورنر انیکسی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ اس پراجیکٹ کا آغاز پچھلے گورنر گلگت بلتستان کے دور میں شروع ہوا تھا۔ موجودہ گورنر راجہ جلال خان نے کمالِ میزبانی کے طور پر مجھے اور عبدالرحمان کو علیحدہ سے اسی انیکسی میں ٹھہرایا۔
آئیے نگر کا باقی سفر مکمل کرتے ہیں۔ کیوں نہ پہلے یہاں کے وسیب کو اندر سے چل کر دیکھیں۔ ان علاقوں میں رہائشی گھروں کے تعمیراتی ماڈل میں ایک بہت عجیب مگر خوش گوار سی مساوات پائی جاتی ہے۔ بندہ اور آقا کی تفریق کے بغیر۔ یہاںگھر کا مطلب ایک مکمل رہائشی یونٹ ہے جس میں لکڑی کے چار موٹے موٹے Pillars اور اُن پر لگے دو بھاری بھرکم بالے، چھت اور اپر سٹوری کو تھامے رکھتے ہیں۔ لکڑی کی سیڑھی کے ساتھ اپر سٹوری مہمانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے جسے ''اپڑ چھتی‘‘ کہتے ہیں۔ لکڑی کے ان پائیوں کی چوکی کے درمیان آگ کا مچ جلایا جاتا ہے جو دن کے وقت صرف گھنٹے دو گھنٹے تک ہی بند رکھتے ہیں جبکہ باقی بائیس تئیس گھنٹے اس آگ کا الاؤ مسلسل وقت کی قید کے بغیر دہکتا رہتا ہے۔
اس طرزِ تعمیر میں چھت کے عین درمیان آتش کدوں کا دھواں اور گیس باہر نکالنے کے لیے گولائی میں لکڑی کی چمنی نما ممٹی بنتی ہے‘ جس سے تازہ ہوا اندر آتی ہے اور دھوئیں اور گھٹن کو باہر وینٹی لیٹ کرتی رہتی ہے۔ اس گھریلو یونٹ کا دوسرا مصرف یہ ہے کہ سارے اہل خانہ اسی کمرے میں خوبصورت فرشی نشستوں پر سوتے ہیں۔ مگر اس کمرے یہ والی Bedding مختلف سپلٹ لیول پر بنتی ہے تاکہ اہل خانہ کی پرائیویسی بھی برقرار رہے جنہیںگول سرخ تکیے اور لال رنگ کے لمبے کُشن کو پارٹیشن بنا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس انوکھی بود و باش میں نشست گاہ کا اپنا ہی سرُور ہے‘ جس کا تیسرا مقصد فُٹ کے حساب سے نہیں بلکہ گزوں کے حساب سے پڑی ہوئی میلوں تک کی برف کے عین درمیان گرمی کا چھوٹا سا جزیرہ تخلیق کرنا ہے۔ اس اجتماعی Centrally Heated رہائش گاہ میں کمزور بچے، ناتواں بوڑھے اور اکثر مقامات پر گائے بکریاں بھی گزارا کرتیں ہیں۔ یہی آتش دان کھانا پکانے کے کام آتا ہے۔ دوسرے، اسی آتش دان کے ایک کونے میں پییل یا ایلومینیم کی بڑی سی کنٹینر نما کیتلی رکھی ہے جو انسانی اور گھریلو استعمال کے لیے پانی گرم کرتی رہتی ہے۔ سردی کے دنوں میں ان علاقوں میں بجلی کی پیداوار6-10 فیصد باقی رہ جاتی ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ دریاؤں کو پانی سپلائی کرنے والے نالے برف میں نقطہ انجماد سے چالیس ڈگری سینٹی گریڈ نیچے پہنچ کر قلفی بن جاتے ہیں۔ ہاتھ میں پکڑی جانے والی ہینڈی سائز قلفی نہیں بلکہ کلومیٹروں کے حساب سے لمبے قلفے جن میں سِٹک نہیں ہوتی۔ ایسے موسموں میں چھاتی پھیلا کر اکڑے ہوئے درخت بھی برف کی سفید لوئی کے بوجھ تلے اپنا دراز قد گنوا بیٹھتے ہیں۔
برفانی موسم میں اسی آتش کدے کے ارد گرد گوشت اور پھل خشک کرنے کے لیے لٹکائے جاتے ہیں۔ یاک کے گوشت اور گھر کی بنی ہوئی نوڈلز کا صحت افزاء سوپ اور باقی کھانے بھی اسی آگ پر بنتے ہیں۔ اب ہم پاک چائنہ بارڈر کی طرف جانے والی سٹیٹ آف دی آرٹ سڑک پر ہیں۔ یہاں سے سوست چوکی کا فاصلہ تقریباً چار گھنٹے کا ہے۔ اس پہ رواں دواں ہیں۔ بھاری ٹریفک آدھی رات کے بعد چلتی ہے‘ جس میں Imported مال کے کنٹینرز بھی شامل ہیں۔ مقامی ڈرائیور کھائیوں میں یوں گاڑی چلاتے ہیں جیسے ریت پر انگلیوں سے ٹیڑھی لکیر کھینچنے والی انگلی کی دوڑ، نگر کے انٹری پوائنٹ پر اسلام آباد کے لڑکوں نے ڈبل سٹوری ہوٹل اور ریسٹورنٹ بنا رکھا ہے۔ راکا پوشی ویو پوائنٹ کے اس ریسٹورنٹ کے چھت پر ہم نے تصویریں بنائیں اور سیلفی مونگرز کو بھی راضی کیا۔ یہاں سے نگر کے سابق راجاؤں اور آزادی کے ہیروز کے خوبصورت پورٹریٹس شروع ہوتے ہیں۔ سڑک کنارے فریم شدہ یہ پورٹریٹس سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔ مختلف کاسٹیومز، تنی ہوئی مونچھیں، کسرتی جسم، سونے کے تاج والے مردوں کے درمیان ایک رانی اور اُن کے پہلو میں ایک چھوٹی شہزادی کی تصویر بھی آویزاں ہے۔
نگر کے حکمران خاندان کا ایک فرد محل نما ہوٹل اور ریسٹورنٹ چلاتا ہے۔ کھردرے، ان گھڑے، پتھروں سے بنے واش روم۔ قدرتی روشیں، بون فائر اور پہاڑ کی چوٹی۔ درختوں کے ایک جھنڈ میں بڑی سی میز کے ارد گرد بیٹھے، نیچے وادی کی ٹمٹماتی روشنیاں یوں نظر آئیں جیسے پینتیس ہزار میٹر بلندی پر محو پرواز ڈریم ایئر لائنر کی کھڑکی سے تیزی سے گزرنے والی بستیوں کی روشنیوں کا نیم مدہم عکس۔ مین کورس، لوہے کے پہاڑ سے کاٹے ہوئے پتھر کی بنی ہانڈی میں پیش کیا گیا۔
گلگت بلتستان حیرت کدہ ہے اور میں ایک حیرت زدہ مسافر...