جن دنوں بانوری چکوری، دنیا سے چوری چوری، چندا میاں سے پیار کرتی تھی۔ تب نہ میں نے چکوری دیکھی تھی اور نہ ہی چندا سے چکوری کے پیار کا سکینڈل لیک ہوا تھا۔ اتنے عشروں بعد، کھلی آنکھوں سے براہِ راست یہ پیار دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ کہاں؟؟ ذرا ٹھہریے، ابھی بتاتا ہوں۔
ہمارے پیارے بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ چار پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادی کا نام ہے۔ ایسی وادی جیسے مکہ معظمہ کی ہے‘ جسے وادی ''غیر ذی ذرعِِ‘‘ کہتے ہیں۔ صحرا کے لئے لق و دق کی صفت والا نام استعمال ہوتا ہے جبکہ اردو میں ایسی وادی بے آب و گیاہ کہلاتی ہے۔ خشک، پتھریلے اور اُونچے پہاڑ۔ گرمیوں میں ان پہاڑوں کے اُوپر سے گزرتا ہوا ہوائی جہاز نیچے سے Cantourنُما ایگل جیسا میگا پرندہ نظر آتا ہے۔ اُوپر ہوائیں بند ہوں تو لینڈنگ آرام دہ یعنی Smooth ہو جاتی ہے۔ یہاں ہوائیں تُند بھی ہوتی ہیں۔ ایسا ہو تو پھر جھٹکے لگتے ہیں مگر ڈرا دینے والے ہرگز نہیں۔ سردیوں کی بات البتہ الگ ہے۔ یہ پہاڑ اور اُن کے پیچھے درجنوں میل تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے برف سے لدے ہوتے ہیں۔ اس لئے جہاز کا آخری 20 منٹ کا سفر Rough Ride سمجھ لیں۔ میں نے زمانہ طالب علمی سے ہی ان دونوں موسموں میں متعدد بار یہ سفر طے کر رکھا ہے۔ تب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی میرے جونیئر، ہاسٹل فیلو اور دوست تھے۔ اس دوستی کے ایک پہلو پر اسلم رئیسانی نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر خود تبصرہ کر رکھا ہے۔ اُس دن ایوان سے نکل کر میں گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ کہیں اسلم رئیسانی کو نظر آ گیا۔ پھر کیا تھا‘ وہ پریس کانفرنس چھوڑ کر ''بابر... اوئے بابر... یار رُک‘‘ کہتے ہوئے میری طرف دوڑے۔ مجھے بازو سے پکڑا اور پھر ٹی وی کیمروں کے سامنے ہمارے اسلام آباد کالج فار بوائز کے زمانے پر اپنے مخصوص انداز والا تبصرہ کر ڈالا۔ اس تبصرے کی ویڈیو دیکھ کر کئی ملین لوگ سوشل میڈیا پر قہقہے بکھیر رہے ہیں۔ بلوچستان کے بابِ سفر میں میرا آخری ٹرپ ایک سابق چیف سیکرٹری صاحب کے خلاف مقدمے کا دفاع کرنے کے لئے واجب ہوا تھا۔
اگلے روز، کوئٹہ شہر کے نوجوان MNA اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سُوری کے خلاف الیکشن پٹیشن کا مقدمہ مجھے پھر بلوچستان ہائی کورٹ لے گیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ صبح کی فلائٹ۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے میں، قاسم سُوری، منشی شبیر اور میرے سکیورٹی انچارج A.J پی آئی اے کی بر وقت اڑنے والی پرواز میں جا سوار ہوئے۔ یہ صاف ستھری ایئر بس تھی جسے Narrow body ایئر بس کہتے ہیں۔ تمام سیٹیں ایک جیسی تھیں اور عمدگی کی حد تک معقول کھانا پینا۔ ایئر بس کے مستعد کپتان نے اچھی انگریزی بول کر فلائٹ کریو وغیرہ کا تعارف کروایا۔ ایک گھنٹہ 10 منٹ کی فلائنگ نے ہمیں کوئٹہ پہنچا دیا۔ یہ فاصلہ بذریعہ سڑک 18 سے 21 گھنٹے کا بنتا ہے۔
اب ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پشاور موٹر وے برہان انٹر چینج کے ذرا آگے بائیں بازو کی طرف سے سی پیک کا رُوٹ زیرِ تعمیر ہے جو سیدھا میانوالی کو کراس کرتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ رہا ہے۔ اس رُوٹ کا تعمیراتی کام تقریباً 85 فیصد سے زیادہ مکمل ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے نارتھ پنجاب سے چکوال بذریعہ تلہ گنگ، میانوالی، چشمہ اور پھر ڈی آئی خان پہنچا جا سکتا تھا۔ سی پیک کے اس رُوٹ کا اگلا مرحلہ منظوری کی سیاست والی Hurdle Race کراس کر گیا ہے‘ جس کی تفصیل مجھے قاسم سُوری نے بتائی۔ چنانچہ بہت جلد، یہ چھ رویہ شاہراہِ سی پیک ڈی آئی خان سے ژوب۔ پھر وہاں سے سیدھی کوئٹہ چلی جائے گی۔ اس Virgin رُوٹ پر ریسٹ ایریاز، کمرشل ایریاز، سکیورٹی پولیس، موٹر وے پٹرولنگ اور ارد گرد کے علاقوں کے لئے انٹر چینج بھی تجویز کیے گئے ہیں‘ جن کی تعمیراتی تکمیل کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت سے کوئٹہ کا سفر 8 گھنٹے سے بھی کم رہ جائے گا۔ اسے صحیح معنوں میں غریب بستیوں کے لئے گیم چینجر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس راستے پر پشتون بیلٹ کے اضلاع آتے ہیں۔
نیو ایئر پورٹ اسلام آباد سے اُڑنے والے جہازوں کے مسافروں کے لئے اب ایک غیر دلچسپ اطلاع بھی پیش خدمت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ سے جُڑے ہوئے کالا چٹا پہاڑ پر بادلوں اور ہوائوں کا دبائو رہتا ہے۔ ہماری فلائٹ بھی آغاز میں ناہموار تھی۔ کالا چٹا پہاڑ پر بادلوں کا کئی کلو میٹر اونچا ایک اور پہاڑ بنا ہوا تھا۔ بجلیوں کی طاقت سے بھر پُور اس روئی جیسے پہاڑ کو چیرتے ہوئے لڑ کھڑاتا ہوا جہاز 45 ہزار فٹ کی بلندی پر بخیر و خوبی پہنچ گیا۔ فلائٹ کے نیچے کا منظر دیکھا۔ جہاں انگریزی زباں میں candy cloud تیر رہے تھے۔ جب کہ پوٹھوہاری زبان میں اسے '' تیتر پھنگا‘‘ بادل کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کالے تیتر کے پروں کے رنگ جیسے بادل۔ اس سے آگے فتح جنگ سے چشمہ تک کھلے میدان نظر آئے۔ بے ڈھنگی زراعت کے شاہکار دیہات اور پھر جہاز تختِ سلیمان پہ جا پہنچا۔ کوہِ سلیمان کی سب سے اُونچی چوٹی پہ تختِ سلیمان واقع ہے۔ چلغوزے کے فلک بوس درختوں میں گھرا ہوا یہ پہاڑ کسی عظیم بادشاہ کے تخت کی شکل میں کٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت یہاں اترا تھا۔
میری سیٹ اس رُوٹ پہ مغرب کی جانب والی کھڑکی کے ساتھ تھی۔ دُور دُور تک زمینیں، ہمارے زرعی ماہرین، حکمرانوں اور زراعت کے وزیروں کا راستہ دیکھتی بلکہ اُنہیں پُکارتی ہوئی ملیں۔ اسلامی جمہوریہ کے 67 فیصد علاقے پر پھیلا ہوا یہ پاکستان ابھی دریافت ہونا باقی ہے۔ وادیٔ کوئٹہ کے پہاڑ درخت اور سبزے کے اعتبار سے الف ننگے ہیں۔ کسی ملامتی ملنگ کی طرح۔ یہاں صرف ایک ہی دل افزا سبزہ نظر آیا۔ وہ تھا مختلف پہاڑوں پہ بنایا گیا سبز ہلالی پرچم۔ شہیدوں کے خون کی لالی اس پرچم کے شوخ و شنگ رنگ سے پکار پکار کر دیکھنے والوں کو یہ یقین دلاتی نظر آئی '' تُو نے جینا ہے قیامت کی سحر ہونے تک‘‘۔
کوئٹہ ایئر پورٹ کے ٹارمک اور عمارت صحیح معنوں میں بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو چکے ہیں۔ یہاں ہماری ایئر بس چلتن پہاڑ کے سامنے پارک ہوئی۔ میرے لئے خوشگوار حیرت یہ بھی تھی کہ اب کوئٹہ ایئر پورٹ پر ایئر کنڈیشنڈ Jetty کے ذریعے لوگ جہازوں میں سوار ہوتے اور اترتے ہیں۔ یہ بدلے ہوئے بلوچستان کی ہوا کا خوشگوار جھونکا تھا۔ چلتن پہاڑ کے حوالے سے یاد آیا کہ وادیٔ کوئٹہ کو جن چار پہاڑوں نے گود لے رکھا ہے۔ اُن میں چلتن سب سے اہم پہاڑ ہے۔ ایئر پورٹ کے شرقاً غرباً سارا علاقہ چلتن کے سامنے آتا ہے۔ یہاں پاکستان کے قومی جانور مار خور کی habitat ہے‘ جو سینکڑوں میل پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ مار خور ہماری قابلِ فخر سپائی ماسٹر ایجنسی آئی ایس آئی کے Insignia پر بھی نظر آتا ہے۔ پہلے ٹرافی گیم کے ذریعے مار خور کا قتلِ عام ہوتا تھا۔ اب اِسے حفاظتی حصار کے نیچے کر دیا گیا ہے۔ یوں اس کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ چلتن ایکسپریس بلوچستان آنے جانے والی سب سے پُرانی ٹرین تھی۔ معلوم نہیں اب بھی چلتن ایکسپریس چلتی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کی خواہش نے اسے بے نام کر دیا۔ (جاری)
وادیٔ کوئٹہ کو جن چار پہاڑوں نے گود لے رکھا ہے۔ اُن میں چلتن سب سے اہم پہاڑ ہے۔ ایئر پورٹ کے شرقاً غرباً سارا علاقہ چلتن کے سامنے آتا ہے۔ یہاں پاکستان کے قومی جانور مار خور کی habitat ہے‘ جو سینکڑوں میل پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ پہلے ٹرافی گیم کے ذریعے مار خور کا قتلِ عام ہوتا تھا۔ اب اِسے حفاظتی حصار کے نیچے کر دیا گیا ہے۔