یہ ملاقات صرف دو کے درمیان تھی۔ جن میں سے ایک نے اس کا احوال بتایا۔ وہ بھی آن کیمرا۔ ایک ایسے دور میں جب کیمرا ابھی عام نہیں ہوا تھا۔ خال خال ملتا تھا۔ یہ 1960ء کے عشرے کا ذکر ہے۔ جب حبیب جالب اور حفیظ جالندھری پنجابی میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔ ان کا شاعرانہ تعلق ریلوے کی پٹری جیسا تھا ۔جس کے دو پارٹ باہر کی آنکھ رکھنے والوں کو ساتھ ساتھ دوڑتے نظر آتے ہیں ۔لیکن چشمِ بینا کے لیے یہ دونوں پارٹ سمہ سٹہ جنکشن پہ بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ان کی راہیں جدا جدا ہوتی ہیں۔
حبیب جالب شاعرِ عوام تھے اور حفیظ جالندھری مشیرِ خاص۔ جالب صاحب کے لفظوں میں ملاقات یوں ہوئی: ''یہ جو مشیر حضرات ہوتے ہیں‘ ایڈوائزر۔ جو اس کے‘ ضیاء الحق کے بھی ہیں جو خدا کا نور اور ڈکٹیٹر کو باشعور کہتے ہیں۔ اس کی شانِ نزول یہ ہے کہ ایک دفعہ حفیظ جالندھری صاحب سے ملاقات ہو گئی‘ پرانی انارکلی کے قریب ملاقات ہوئی ۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ حضور کیا حال ہیں‘ آج کل کیا کر رہے ہیں؟ وہ (حفیظ جالندھری) گفتگو یوں کیا کرتے ہیں‘ جیسے قرض دے رہے ہوں کسی کو۔ بولے : میں بڑا مصروف آں وہ اُوپر ‘ اس کا ایڈوائزر ہوں۔ میں نے کہا: خدا کے ایڈوائزر ہو گئے ہیں آپ؟ کہنے لگے: نہیں‘ نہیں۔ او توں نہیں جانندا‘ ایوب خان کا ایڈوائزر ہو گیا ہوں میں۔رات کو تین بجے بھی بلا لیتا ہے کہ اب بتا حفیظ‘ کیا کروں؟ میں نے انہیں صرف یہ کہا کہ یہ جو کالے کوٹ والے وکلاء ہیں‘ انہاں تے وی ڈنڈا رکھ اور ایک شاعر میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا ‘ کہتا پھرتا ہے۔ اُس تے وی ڈنڈا رکھ۔تو اس پر میں نے ایک نظم بنا لی۔
میں نے اُس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِ صبحِ نو
تیرے بعد رات ہے
ایوب خان رخصت ہوئے او رساتھ خوشامد پیشہ بھی۔ پھر ہماری تاریخ کی چوتھی ڈکٹیٹرشپ کے گملوں میں تیار شدہ کارپوریٹ لیڈر لائے گئے۔ عرفِ عام میں یہ بزنس مین کہلانا پسند کرتے ہیں مگر عملی طور پر وہ ''کارپیٹ‘‘ کے ماہر نکلے۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے قوم کے اربوں‘ کھربوں لپیٹ لے گئے۔ وہ بھی سات سمندر پارلے جا کر پارک کرنے کے لیے۔ آپ درست سمجھے پارک لین میں۔
ڈکٹیٹرشپ چہارم نے قوم کو درجہ اوّل کے تحفے دیے۔ ذرا سا پیچھے جھانکیں تو پنڈی کا چاندنی چوک یاد آتا ہے جہاں سرکاری ٹی وی کے کیمرے‘ سرکاری سامعین کے سامنے ٹک ٹکیاں باندھی گئیں۔ ٹک ٹکیوں کی قطار نصب کر کے‘ بے کسی کی تصویر نیم برہنہ جسموں پر درّے برسائے گئے۔ ہر درّے کی آواز کہتی رہی: بول مت۔ ہر کوڑے کا انسانیت کش وار کہتا رہا: بول مت۔ تبھی پہلی بار چاند رات میں اور نیو ایئر نائٹ پر لٹھ بردار جتھے میدان میں اُتارے گئے جن کا بہانہ بنا کر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی علاقائی اور ثقافتی خوشیاں بھی اظہارِ ممنوع کی فہرست میں ڈال دی گئیں۔
بول مت کی ایسی آندھی چلی جس نے علم‘ رواداری‘ مساوات اور نرم روی کے اَن گنت چراغ گل کر دیے۔ اندھیر نگری میں اندھیرے فروشوں کی چاندی ہو گئی۔ استعماری قوتوں کے استحصالی اتالیق کھل کر یہ مشورے دینے لگے۔
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
اتالیق صرف اور صرف اتالیق ہوتا ہے۔ اس کے لیے زمان و مکاں‘ عمر یا اسامی کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ قدیم بادشاہت کے زمانے میں اتالیق صرف دربار میں پائے جاتے تھے۔ اس زمانے کے اتالیق در در کی خاک چھان کر ہر خوان پر دست ملتے پھرتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے ایک اتالیق نے عمران خان سے ملاقات کی۔ 5‘4 لوگوں کی موجودگی میں اتالیق نے 50‘40 دفعہ اداروں کو حد میں رکھنے کے لیے صدری نسخے پیش کیے۔ عمران خان کا ایک ہی جواب تھا: پاکستان اداروں سے چلتا ہے۔ انہیں عضوِ معطل نہیں بنایا جا سکتا۔ ادارے مضبوط اور قابل ہوں تب ہی عام آدمی کو تکلیف کے بجائے ریلیف ملے گا۔ عمران خان نے اتالیقی نسخے کو مسترد کر دیا۔
اہلِ حکم کو ایسے نسخے بہت پسند آتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ عام لوگوں میں گھل مل نہیں سکتے۔ رچ بس جانا تو دور کی بات ہے ۔
غریبی اُن کے لیے شوکیس پوسٹر ہے یا ٹویٹر اکائونٹ کی DP۔ وہ جن کے لفظ ‘حرف‘صوت اور صدا لوگوں کو سکھ کا سانس اور امید کی آس بندھاتی ہے۔ اُسے جینے کا ہنر سیکھنے کے لیے نچلے طبقات کا درد محسوس کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے نیچے اترے بغیر درد مندی کا مظاہرہ صرف فوٹوسیشن ہو سکتا ہے۔
امرتا پریتم نے وارث شاہ کی درد مندی کو یوں پکارا تھا:
اُٹھ درد منداں دیا دردیا‘ اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اَج بیلے لاشاں وچھیاں‘ تے لہو دی بھری چناب
یہ کہنا مغالطہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کی وڈیو فوٹیج اور Audio Message لیکس موجود ہیں کہ سیلاب زدگان کے لیے جہازوں سے آٹے کے جو تھیلے گرائے جاتے ہیں وہ تھیلے زمین پر آٹا سپرے کرتے ہیں۔ جو بھوکے کا پیٹ بھرنے کے قابل نہیں۔ انتظامیہ ان درد بھری آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے بول مت کے مکروہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ وہ بھی جدید ترین‘ تاکہ لوگوں کی نظر بحرانوں کو دیکھنے کے بجائے سرکاری بیانوں کو سننے کی پابند ہو جائے۔ ورنہ بولنے والے یہ بھی بول رہے ہیں۔
جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں
اس دیس کے ہر ایک ڈاکو کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے